سندھ میں ہسپتالوں کی ابتر صورت حال

سندھ میں ہسپتالوں کی ابتر صورت حال

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ایک سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سندھ کے سرکاری ہسپتالوں میں لوگوں کو دی جانے والی سہولتیں بہت کم ہو گئی ہیں۔ پانچ کروڑ آبادی کے صوبے میں جتنے ہسپتال کام کر رہے ہیں، وہاں صرف 13 ہزار بستروں کی گنجائش ہے۔ حالت یہ ہے کہ 1300 افراد کے لئے صرف ایک ڈاکٹر کی خدمات میّسر ہیں جبکہ انٹرنیشنل سٹینڈرڈ کے مطابق کم از کم دو ڈاکٹر موجود ہونے چاہئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سہولتیں 50فیصد کم حاصل ہیں۔ ڈینٹل سرجنز کی تعداد بھی بہت کم ہے۔ 16 ہزار مریضوں کے لئے صرف ایک ڈینٹل سرجن کو بھرتی کیا جاتا ہے۔ پورے صوبے میں ایک ہی برن سنٹر ہے، لیکن وہاں بھی معیاری سہولتوں کا فقدان ہے۔ ہسپتالوں میں ڈاکٹروں ہی کی کمی نہیں، نرسوں اور پیرامیڈیکل سٹاف کی تعداد بھی ضرورت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ سیاسی اور عوامی حلقوں کی رائے یہ بتائی گئی ہے کہ ماضی میں حکمرانوں نے عام لوگوں کو طبی سہولتیں مہیا کرنے کے لئے توجہ نہیں دی، چنانچہ سرکاری ہسپتالوں میں آہستہ آہستہ ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرا میڈیکل سٹاف کی کمی کا مسئلہ سنگین ہو گیا۔طبی سہولتوں کی کمی سب سے زیادہ تھر کے علاقے میں ہے، جہا ں ہر سال بڑی تعداد میں بچے سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بدقسمتی یہ بھی ہے کہ حکومت سندھ خود تو تھر میں طبی سہولتوں کی کمی کا مسئلہ حل نہیں کرپاتی، غیر ملکوں اوربعض عالمی رضا کار تنظیموں کی طرف سے جوامدادی سامان (ادویات اور خوراک سمیت) بھیجا جاتا ہے، وہ بھی مریضوں تک برائے نام ہی پہنچتا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں سہولتوں کی کمی کا رونا عموماً عام لوگ روتے رہتے ہیں۔ یہ واویلا اور شور کافی حد تک درست بھی ہوتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ سیاسی فائدے کے لئے ہر صوبے میں یہ نعرہ لگایا جاتا ہے کہ عوام کو صحت اور تعلیم کی سہولتیں مہیا کرنے کے لئے خاص توجہ دی جا رہی ہے۔ سالانہ بجٹ میں معقول رقم مختص کرنے کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ دونوں شعبوں (صحت اور تعلیم) کے لئے اگر زیادہ بجٹ منظور کروایا بھی جاتا ہے تو اس کا بیشتر حصّہ خوردبرد ہو جاتا ہے۔ صوبہ سندھ میں یہ شکایت گزشتہ کئی برسوں سے سننے میں آ رہی ہے۔ گھوسٹ سکولوں سے لیکر اساتذہ کی جعلی بھرتی کے سکینڈلز منظرعام پر آتے رہے ہیں۔ ایسے ہزاروں سکول ہیں، جہاں ، پینے کے پانی، فرنیچر اور بیت الخلاء کی کوئی سہولت نہیں۔ بہت سے سکولوں کو وڈیروں اور علاقے کے بااثر لوگوں نے اپنے ڈیروں میں تبدیل کر رکھا ہے۔ شہروں میں ہسپتالوں کی حالت زار کا نقشہ سیاسی اور عوامی رہنما کھینچتے رہتے ہیں، ادویات کی عدم دستیابی الگ مسئلہ ہے۔ چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں ڈاکٹروں کی تعیناتی ہو بھی جاتی ہے تو وہاں کوئی ڈاکٹر رہائش اور سواری کی سہولت نہ ملنے سے ڈیوٹی پر حاضر نہیں ہوتا۔ اسی طرح چھوٹا سٹاف بھی غائب رہتا ہے۔ عموماً کمپاؤنڈر اور چوکیدار ہی مریضوں کو دستیاب ہوتے ہیں، بار بار افسوس ناک صورت حال سامنے لائی جاتی رہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکمران احساس ذمے داری کا ثبوت دیتے ہوئے حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ سکھر جیسے شہر میں بھی ہسپتال کی ابتر صورت حال پر اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ دو مرتبہ برہمی کا اظہار کر چکے ہیں لیکن ہسپتالوں میں سہولتیں بہتر نہیں ہوئی ہیں۔ حتیٰ کہ انہوں نے صفائی کے لئے خود جھاڑو پکڑ لیا تھا لیکن ایسے ’’کلا مِ نرم و نازک‘‘ سے بھلا کسی پر کیا اثر ہوگا وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کو اس جانب خصوصی توجہ دینی چاہئے۔ بلکہ صورت حال کا تقاضا ہے کہ انہیں اس مسئلے کو ایک چیلنج سمجھنا چاہئے۔

مزید :

رائے -اداریہ -