سچ کیا؟ روحانیت اور معرفت کا سلسلہ!
ہمارے کپتان صاحب بولے ہیں تو معرفت اور روحانیت کا ذکر کیا اور بتایا ہے کہ یہ ایک دو روز کی بات نہیں قصہ ہے عشروں کا اور وہ گزشتہ 30سال سے روحانیت اور معرفت کے حصول میں مصروف بے شمار کتب پڑھ چکے اور اولیاء کرام کے حالات سے بھی واقف ہیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ لوگوں( ان کا واضح اشارہ مخالفین کی طرف ہے) کو معرفت کا کیا علم، عمران خان نے مزید بتایا کہ بشریٰ بی بی سے ملاقات بھی روحانیت ہی کے حوالے سے ہے اور وہ جب بھی خاتون سے ملے وہ پردے میں رہیں، اس کے بعد انہوں نے شادی بیاہ کو اپنا ذاتی مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ جب بشریٰ بی بی کو طلاق ہوئی تو انہوں نے شادی کا پیغام بھجوایا، چیئرمین تحریک انصاف کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے خلاف غلط اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا گیا اور انہیں بلیک میل کرنے کے لئے ایک ایسے خاندان کو بھی گھسیٹ لیا گیا جو قدامت پرست گھرانہ ہے، خان صاحب نے یہ سب ایک ٹیلیویژن انٹرویو میں کہا اور ہم ان کی باتوں پر یقین کرتے ہیں، تاہم تعجب اس امر پر ہے کہ انہوں نے شادی، نکاح کو ذاتی مسئلہ تو قرار دیا، تاہم یہ نہیں بتایا کہ وہ ایک سے زیادہ مرتبہ کنٹینر پر تبدیلی کی بات کرتے تو ساتھ ہی یہ بھی کہتے، ’’یہ اس لئے کہ میں شادی کرالوں‘‘ اب وہ ایک سیاسی راہنما ہیں، ایک جماعت کے سربراہ اور وزیر اعظم بننے کے دعویدار ہیں، جب وہ اس حیثیت سے شادی کی بات کرتے ہیں تو پھر خود ہی اپنے ذاتی مسئلہ کو عوامی رنگ دے دیتے اور عوام کو گفتگو کا موقع مہیا کرتے ہیں اس لئے اگر ان کے نکاح کے حوالے سے خبر شائع ہوتی ہے تو ان کو اس کی خود ہی وضاحت کردینا چاہئے، اب وہ کہتے ہیں کہ ابھی تک ان کے بچوں کو بھی علم نہیں اور نہ بہنیں جانتی ہیں، بہر حال اس گفتگو میں پھر انہوں نے واضح انداز میں نکاح سے انکار نہیں کیا اور نہ ہی اقرار کیا ہے، ان کا یہ بھی کہنا غلط نہیں ہوسکتا کہ بشریٰ بی بی کو طلاق کے بعد انہوں نے شادی کے لئے پیغام بھیجا، ان سے واضح سوال کیا جانا چاہئے تھا اور جواب بھی اسی وضاحت سے آتا کہ بات نکاح کی ہے، نکاح ہوا یا نہیں؟ اور وہ بتاتے کہ ہوا یا نہیں ہوا؟ جہاں تک نکاح اور پھر رخصتی کا تعلق ہے، تو یہ دو الگ الگ معاملات ہیں۔
اکثر یہ ہوتا ہے کہ رخصتی سے قبل نکاح ہو جاتا ہے اور رخصتی بعد میں ہوتی ہے اور اسے ہی شادی کہتے ہیں، چنانچہ جواب پھر بھی واضح نہیں، البتہ معرفت اور روحانیت کی بات نئی اور انکشاف ہے کہ گزشتہ 30سال سے وہ معرفت اور روحانیت کی طرف مائل ہیں۔ عمران خان نے یہ بھی کہہ دیا کہ وہ جمہوریت پسند ہیں اور اپنے فیصلے خود کرتے ہیں یہ غلط ہے کہ وہ بشریٰ بی بی سے پوچھ کر فیصلے کرتے رہے۔
اب اگر کوئی یہ کہے کہ محترم کپتان نے ایک بار پھر خود ہی ابہام چھوڑ دیا تو اس میں غلط کیا ہے؟ ہمارے اپنے اخبار میں بھی آج وضاحت سے خبر شائع ہوئی ہے، جو نکاح نامے کی تصدیق پر مبنی ہے، اگر ایسا ہوا اور رخصتی(شادی) کے لئے عزیز و اقربا کو اعتماد میں لینا لازم تھا تو پھر یہ بات بتا دینا چاہئے تھی، ہم یہ تو نہیں کہتے کہ جھوٹ بولا گیا، البتہ یہ حقیقت ہے کہ پورا سچ نہیں بتایا گیا، محترم کپتان نے خود ہی اس مسئلہ کو عوامی بنایا اور اب خود ہی اس سے راہ فرار اختیار کررہے ہیں، نکاح ہوا اور شادی ہوگئی تو اس میں برائی کیا ہے، اللہ مبارک کرے اور خوشیاں دکھائے اس سلسلے میں بعض سیاسی راہنماؤں نے حمائت میں بیان دیتے ہوئے کہا چار کی اجازت ہے، وہ بھول گئے کہ چار کی یہ اجازت بیک وقت کے لئے ہے کہ کوئی بھی صاحب حیثیت مرد اگر انصاف کرسکتا ہو تو وہ بیک وقت چار ازواج بھی نکاح میں رکھ سکتا ہے، اس پر کوئی شرعی قدغن نہیں، اس سلسلے میں ہمارے دوست ملک غلام مصطفیٰ کھر( سابق شیر پنجاب) کا ریکارڈ سامنے ہے کہ انہوں نے چار سے زیادہ شادیاں کیں تاہم بیک وقت چار والا بہت دھیان رکھا وہ اگلی شادی پچھلی جدائی کے بعد کرتے رہے ہیں، ہم نے ایک بار اعتراض کیا تو ملک صاحب نے فرمایا تھا۔ میں نکاح کرتا ہوں، شرع میں جائز ہے، میں گناہ میں تو ملوث نہیں ہوتا اب انہوں نے عمران خان کو مبارک باد دیتے ہوئے شکوہ کیا ہے کہ ان (ملک) اور عمران خان کی شادیوں کی بات کرتے ہیں، محمد شہباز شریف کی کیوں نہیں؟
یہ بھی درست ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزیر اعلیٰ محمد شہباز شریف نے ایک سے زیادہ نکاح کئے تو اس سے کبھی انکار بھی نہیں کیا اور نہ تشہیر کی، انہوں نے تو اس امر کا بھی برا نہیں منایا کہ اس وقت وہ تین بیویوں کے شوہر ہیں بہر حال بڑے لوگوں کی بڑی باتیں، یہ خود ہی جانیں، ہماری تو گزارش ہے کہ اگر وہ اپنی ذاتی زندگی کو سیاسی زندگی سے الگ رکھنا چاہتے ہیں تو اس کا اہتمام بھی کریں، جیسے ہمارے بڈھے شیر ملک غلام مصطفیٰ کھر نے اب کرلیا ہے کہ آخری نکاح کے بعد وہ آگے نہیں بڑھے۔ شاید کنبہ بڑا ہوگیا، اس لئے کپتان کو بھی پوری وضاحت کرنا چاہئے۔ رخصتی کب ہوگی؟
ہم نے بات تو دراصل معرفت اور روحانیت کی کرنا تھی، بیچ میں خود کپتان کا انٹرویو آگیا تو بات ذرا طویل ہوگئی ہمیں تو ان کے اسی فرمان سے اندازہ ہوا کہ ان کی اور ہمارے محترم قبلہ ڈاکٹر طاہر القادری کی گاڑھی کیوں چھنتی ہے؟
قبلہ علامہ طاہر القادری کا تعلق بھی روحانیت سے بہت گہرا ہے اور اس سلسلے میں ان کی پرواز بھی بہت بلند ہے جس کا اظہار وہ خود اپنی کتابوں میں کرچکے ہیں، حتیٰ کہ منہاج القرآن سیکرٹریٹ میں ’’گوشہ درود‘‘ ان کی معرفت کا ایک ثبوت ہے، جو مختص ہے ’’خاص مقصد‘‘ کے لئے اور یہاں ہر وقت درود شریف کا ورد جاری رہتا ہے، اگرچہ اس ’’خاص مقصد‘‘ کی ٹائمنگ آگے پیچھے ہوچکی ہے، تاہم اللہ کو منظور ہوا تو بات پوری اور ’’مقصد خاص‘‘ بھی پورا ہوہی جائے گا، اب ہم تو رانا ثناء اللہ سے یہی کہیں گے کہ وہ ذرا بچ کر رہیں اور احتیاط کریں کہ دو روحانی شخصیات، معرفت کی طرف مائل اکٹھی ہوگئی ہیں اور 17۔ جنوری کو دونوں مل کر احتجاج میں حصہ لیں گی، اس لئے آپ نے ابھی سے جو انکار کردیا اور بڑی دریادلی سے پیشکش کی ہے کہ مال روڈ پر تو اجازت نہیں دی جاسکتی کہ عدالت عالیہ نے ممانعت کررکھی ہے۔ البتہ کوئی دوسری جگہ احتجاج کے لئے دی جاسکتی ہے، رانا ثناء اللہ نے یہ پیشکش کی تو ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ دوسری طرف سے ان کو پذیرائی نہیں مل سکے گی کہ خود بقول رانا ثناء اللہ وہ (ڈاکٹر قادری) آئے ہی انتشار پھیلانے کے لئے ہیں، اب ہمارے تو خدشات بڑھ گئے ہیں کہ کل جماعتی کانفرنس کی سٹیرنگ کمیٹی کے فیصلے کے مطابق ڈاکٹر طاہر القادری نے احتجاج کا اعلان کیا تو صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے ترنت جواب دیا کہ اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اب معلوم نہیں کہ دونوں اطراف بات چیت کے ذریعے اس ہاں اور ناں کو معقول طور پر مشترکہ مفاہمت میں تبدیل کرپائیں گے یا نہیں؟ اللہ ہی جانتا ہے، دوسری صورت میں تو ہمیں سانحہ ماڈل ٹاؤن اور اب قصور میں احتجاج کے دوران فائرنگ کے واقعات یاد کرکے خوف آتا ہے کہ کوئی اور سانحہ نہ ہو، اس لئے بہتر ہوگا کہ زبانی زبانی آئینی راہ اختیار کرنے کا اعلان ہی نہ کریں بلکہ مفاہمت سے کوئی مقام طے کرلیں کہ کوئی بدمزگی نہ ہو۔