”میں نے ایک ڈسٹرکٹ عدالت کا دورہ کیا جو کسی ہندو محترم کی حویلی لگتی ہے اور اس کے واش رو میں جج کیلئے ۔۔۔“ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ایسی حقیقت بیان کر دی کہ جان کر آپ کیلئے یقین کرنا ہی مشکل ہو جائے گا

”میں نے ایک ڈسٹرکٹ عدالت کا دورہ کیا جو کسی ہندو محترم کی حویلی لگتی ہے اور ...
”میں نے ایک ڈسٹرکٹ عدالت کا دورہ کیا جو کسی ہندو محترم کی حویلی لگتی ہے اور اس کے واش رو میں جج کیلئے ۔۔۔“ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ایسی حقیقت بیان کر دی کہ جان کر آپ کیلئے یقین کرنا ہی مشکل ہو جائے گا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کراچی (ڈیلی پاکستان آن لائن) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ مجھے دکھ ہوا جب میں نے ایک ڈسڑکٹ عدالت کا دورہ کیا اورمیں اس کانام نہیں لینا چاہوں گا،وہ جگہ شاید ایک کسی ہندوکی پرانی حویلی یا بڑا گھر ہو گا اور اس کا’’واش روم ‘‘ ایک جج صاحب کا کورٹ روم تھا۔ کیا انصاف کا اتنا بڑا ادارہ یہ حق نہیں رکھتا کہ اسے وہ تمام چیزیں اور سہولیات مہیا کی جائیں جس سے آسانیاں پیدا ہوں ؟اور ان آسانیوں سے انصاف فراہم کرنے میں اپنا پورا ن پٹ دے سکیں ،جب تک وہ سہولتیں نہیں ملیں گی جو میں نے نہیں آپ جانتے ہیں کس نے مہیا کرنی ہیں، تو ساری شکایت جوڈیشری پر نہیںآسکتی ۔
تفصیلا ت کے مطابق جسٹس ثاقب نثار کا جوڈیشل کانفرنس کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہناتھاکہ لوگوں کی شکایت ہے کہ ان کو انصاف وقت پر میسر نہیں آتا، انصاف وقت پر اور قانون کے مطابق کرنا ہماری ذمے داری ہے،ہم اپنی ذمیداری اداکرنانہیں چھوڑسکتے جبکہ انصاف کاحصول ہرشہری کاحق ہے۔ایک سول جج اور سپریم کورٹ کے جج میں کوئی فرق نہیں ہوتا، اختیارات شائد سپریم کورٹ کے جج کے پاس زیادہ ہوں ذمے داری سب کی یکساں ہے۔انہوں نے کہاکہ انصاف وقت پرنہ کرنے کی کئی وجوہات ہیں،ہماری ذمیداری ہے کہ قانون کو سیکھیں اور لاگو کریں۔قانون کے مطابق انصاف فراہم کرناہے من مرضی کا نہیں لیکن آج کل جوفیصلے آرہے ہیں ان میں من مرضی زیادہ ہے آنے والے آرڈر میں قانونی پہلو کم نظر آرہا ہے ،انصاف کی فراہمی میں سب کواپناحصہ ڈالناہوگامگر انصاف میں تاخیرکی ذمہ داری صرف عدلیہ پرنہیں ڈالی جاسکتی

مزید :

قومی -