آرڈینینسوں کے ذریعے قانون سازی کی بچگانہ سوچ
سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا ہے کہ پارلیمینٹ کے وقار میں اضافہ کرنا حکومت اور اپوزیشن کی مشترکہ ذمے داری ہے، نکتہ چینی بھی مخالف جماعتوں کا حق ہے،لیکن یہ برائے اصلاح ہونی چاہئے،انہوں نے کہا قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل اور ایوان کا ماحول پُرسکون رکھنے کے لئے اپوزیشن جماعتوں سے رابطے کئے ہیں، جمعہ کے روز پی پی پی کے رہنما اور سابق قائد حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ کی سپیکر سے ملاقات ہوئی۔انہوں نے مسلم لیگ(ن) سے بھی رابطے کئے ہیں اور 14جنوری سے شروع ہونے والے اجلاس میں ہاؤس بزنس پر متفقہ موقف اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک روز قبل پارلیمانی امور کے وزیر مملکت علی محمد خان نے بھی سپیکر سے ملاقات کی تھی۔
کل سے قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہو رہا ہے اور اس سیشن میں منی بجٹ کے علاوہ بہت سے اہم امور زیر بحث آئیں گے،لیکن ابھی تک38 قائمہ کمیٹیوں میں سے35 قائمہ کمیٹیاں تشکیل ہی نہیں پا سکیں،حالانکہ اصولی طور پر یہ کام اسمبلی کے قیام سے ایک ماہ کے اندر ہی ہو جانا چاہئے تھا، لیکن پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی کے معاملے نے اتنا طول کھینچا کہ کوئی بھی قائمہ کمیٹی نہ بن سکی اور نتیجے کے طور پر قانون سازی کا عمل رُک گیا،کیونکہ کوئی بھی بل ایوان میں پیش ہونے سے پہلے انہی کمیٹیوں کے پاس جاتا ہے، ویسے اصل ضرورت تو یہ تھی کہ ان کمیٹیوں کو پہلے سے بھی زیادہ بااختیار بنایا جاتا اور ان کے ذریعے حکومتی امور پر نگاہ رکھی جاتی،کیونکہ حکومت پر چیک رکھنے کا یہی طریقہ ہے۔ لیکن یہاں تو سرے سے کمیٹیاں ہی نہیں بن پا رہیں اختیار اور بے اختیار ی تو بعد کی بات ہے۔
امریکہ میں تو یہ کمیٹیاں اس حد تک بااختیار ہیں کہ صدر کا نامزد کردہ کوئی وزیر، مشیر اور سفیر اس وقت تک اپنا منصب نہیں سنبھال سکتا،جب تک کانگرس کی متعلقہ کمیٹی اس کی توثیق نہ کر دے یہاں تک کہ آرمی چیف اور اس طرح کے دوسرے کئی عہدوں پر تقرر بھی ان کمیٹیوں کی توثیق کا محتاج ہوتا ہے، اس کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ دُنیا کا سب سے زیادہ بااختیار صدر بھی اہم سرکاری عہدیداروں کے تقرر میں من مانی نہیں کر سکتا اور ایک حد سے آگے بڑھ کر اپنے اختیارات بھی استعمال نہیں کر سکتا۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ کوئی نامزد وزیر یا دوسرا عہدیدار جب متعلقہ کمیٹی میں پیش ہوتا ہے تو اُسے اچھے خاصے امتحان سے گزارا جاتا ہے، کمیٹیاں سوال و جواب کے ذریعے اس نتیجے پر پہنچ جاتی ہیں کہ جس شخص کو عہدہ دیا جا رہا ہے وہ اس کا اہل بھی ہے یا نہیں۔ اگر کسی سفیر کی کسی ایسے مُلک میں نامزدگی صدر کرتا ہے جہاں پہلے سے کوئی تنازعہ چل رہا ہو تو توثیق کے لئے کمیٹی نامزد سفیر سے مسئلے کا حل پوچھتی ہے۔ وہ مطمئن کر دے تو پاس ورنہ فیل، یوں اس سسٹم کے ذریعے بہترین لوگ عہدوں پر متعین ہوتے ہیں، سفارشی لوگوں کا تقرر نہیں ہو پاتا اور اقربا پروری کی گنجائش بھی کم سے کم ہوتی ہے۔
ہمارے ہاں قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل ہی میں غیر معمولی تاخیر نہیں ہو رہی ۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا حل شدہ مسئلہ بھی دوبارہ اٹھایا جارہا ہے اور ایک وفاقی وزیر روزانہ یہ بیان دے دیتے ہیں کہ وہ اس معاملے کو لے کر عدالت جائیں گے وہ یہ تک کہہ چکے ہیں کہ انہیں وزیراعظم کے اس فیصلے سے اتفاق نہیں،لیکن اس معاملے پر وزیراعظم نے اپنی کابینہ کے ایک رکن کے رویئے کا نوٹس لیا ہے اور نہ ہی انہیں بیان بازی سے منع کیا ہے۔ ایسے میں تصور کیا جا سکتا ہے کہ قانون سازی کا کام کیسے آگے بڑھے گا۔ اس پر مستزاد وزیر قانون کا بیان ہے کہ حکومت آرڈینینسوں کے ذریعے قانون سازی کرے گی، حالانکہ قانون سازی کا یہ طریق محض اس وقت استعمال ہوتا ہے جب کسی ایمرجنسی میں کسی قانون بنانے کی ضرورت پڑے اور قومی اسمبلی کا اجلاس نہ ہو رہا ہو۔ اجلاس کے دوران تو صدرِ مملکت کو بھی آرڈینینس جاری کرنے کا اختیار نہیں ہے، پھر مدت ختم ہونے سے پہلے یا تو آرڈینینس دوبارہ جاری کرنا ہوتا ہے یا پھر اسمبلی سے منظوری لینا ہوتی ہے۔
حیرت ہے کہ وزیر قانون جو ماہر قانون بھی ہیں یہ بات ایسے کہہ رہے ہیں جیسے اسمبلی قانون سازی کے لئے نہیں محض کسی حکومت کو برسر اقتدار لانے کے لئے ہوتی ہے اور اس کے بعد اس کا کوئی مصرف نہیں رہ جاتا اتفاق کی بات ہے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی پر معترض وزیر اور وزیر قانون کا تعلق تحریک انصاف سے نہیں ہے۔شاید یہ دونوں حضرات یا تو اپنی اپنی جماعتوں کی پالیسی چلانے کی کوشش کر رہے ہیں یا پھر انہیں اندازہ نہیں کہ اُن کی اس روش سے حکومت کے لئے کتنی مشکل پیدا ہو سکتی ہے، کہیں یہ حضرات اپنی سیاست کو کامیاب بنانے کے لئے تو ایسی اُڑچنیں پیدا نہیں کر رہے، اس کا جائزہ خود وزیراعظم کو لینا چاہئے،کیونکہ جو کوئی بھی اسمبلی کی ہموار کارروائی کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کی بات کرتا ہے وہ حکومت کا محسن نہیں ہے۔ نرم سے نرم الفاظ میں وہ حکومت کا نادان دوست ہے جو اکثر اپنے ہی دوستوں کی راہ میں کانٹے بو دیتا ہے۔
سپیکر اسد قیصر چونکہ ایوان کے کسٹوڈین ہیں اِس لئے اُن کا فرض بنتا ہے کہ وہ کارروائی کو ہموار طریقے سے آگے بڑھانے کے لئے اپنا آزادانہ کردار ادا کریں اور جو ارکان یا وزیر اس راستے میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کریں،اُن کا معاملہ وزیراعظم کے ساتھ نہ صرف زیر بحث لائیں، بلکہ اُنہیں صاف طور پر بتا بھی دیں کہ ایسے وزراء کی ’’آزادانہ پالیسی‘‘ سے حکومت کے لئے مشکل پیدا ہو گی،اِس لئے ان وزراء کو نظم کا پابند بنانا ضروری ہے۔ اگر قومی اسمبلی کی کارروائی آگے نہیں بڑھے گی تو اس کا نقصان حکومت کو ہی زیادہ ہو گا،کیونکہ اپوزیشن کے پاس ضائع کرنے کے لئے بہت کچھ نہیں ہے۔ اپوزیشن جماعتیں تو چاہیں گی کہ حکومت کسی نہ کسی بحران میں اُلجھی رہے تاکہ انہیں حکومت کو ’’ایکسپوز‘‘ کرنے کے مواقع ملتے رہیں اِس لئے اس صورتِ حال سے بچنا حکومت ہی کی ذمہ داری ہے،اگر وزراء ہی حکومت کو پھنسانے والے کام کریں گے تو پھر اسے بچانے اپوزیشن تو نہیں آئے گی جن سے سپیکر صاحب کہہ رہے ہیں پارلیمنٹ کے وقار کا خیال رکھنا اس کی بھی ذمے داری ہے ۔لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت کے وزراء کو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی اور شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے پاس ’’ویٹو پاور‘‘ ہے،حالانکہ انہیں اگر حکومت میں شریک کیا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حکومت کے لئے مشکلات پیدا نہ کریں۔ اگر وزراء کا کردار بھی حزبِ اختلاف کی طرح ہو گا تو ہاؤس بزنس آگے نہیں بڑھے گا۔سپیکر صاحب یہ بات وزیراعظم کو سمجھا بھی دیں اور اپنا کردار مضبوطی سے ادا کرتے رہیں تاکہ آرڈینینسوں کے ذریعے قانون سازی کی بچگانہ باتیں وزراء کی زبان پر نہ آئیں۔