نئے بھارتی آرمی چیف کی پرانی دھمکی
نئے بھارتی آرمی چیف جنرل منوج موکنڈ نراوانانے عہدہ سنبھالتے ہی پاکستان کو دھمکی دے ڈالی،ان کے مطابق اگربھارتی پارلیمان چاہے تو آزاد کشمیر بھی ان کا ہو سکتاہے، اگر پارلیمان حکم دے دے تو وہ آزاد کشمیر حاصل کرنے کے لئے فوجی کارروائی بھی کر سکتے ہیں۔یہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دہلی حکومت نے بھی حسب ِ روایت پاکستان پر الزام لگایا کہ پاکستان کے راستے 60 کے قریب افغان دہشت گرد بھارت اورمقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے پاک بھارت سرحد پر بی ایس ایف کے جوانوں کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔پاک فوج کے ترجمان جنرل میجر جنرل آصف غفور نے بھارت کے اس پروپیگنڈے کااپنے ٹوئٹر پیغام کے ذریعے فوری توڑ کیا اورکہاکہ پاکستان کی مسلح افواج ہر قسم کی بھارتی جارحیت کا جواب دینے کے لئے تیار ہیں، بھارتی آرمی چیف صرف اپنے عوام کو خوش کرنے کے لئے بیان بازی کر رہے ہیں، ان کے یہ بیانات معمول کی ہرزہ سرائی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ بھارتی آرمی چیف نئے ہو ں یا پرانے پاکستان کو دھمکیاں دینا ان کا ”محبوب مشغلہ“ ہے۔سبکدوش ہونے والے آرمی چیف نے بھی جاتے جاتے پاکستان کو ”خبردار“ کیا تھا کہ وہ سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی سے باز رہے ورنہ کنٹرول لائن پرحالات کشیدہ ہو سکتے ہیں۔ بھارتی حکام ہر وقت، اٹھتے بیٹھتے پاکستان پر کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کا الزام دھر دیتے ہیں، جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے، گزشتہ برس بھارتی فوج کی جانب سے سیز فائر معاہدے کی تین ہزار سے زائد خلاف ورزیاں کی گئیں،جن میں تین سو کے قریب کشمیری شہری شہید ہوئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2019ء میں بھارتی فائرنگ سے آزاد کشمیر میں 105گھر مکمل طور پر تباہ ہو گئے، جبکہ 622 گھروں کو جزوی نقصان پہنچا، اس کے علاوہ 83 دکانیں تباہ ہوگئیں۔یہی نہیں بھارتی گولہ باری سے ڈی ایچ کیو ہسپتال اورچھ سکولوں کوبھی نقصان پہنچا اور وادی جہلم کی مسجد بھی محفوظ نہ رہی۔
بھارت کی بد فطرت سب کے سامنے ہے،لیکن ہر کوئی خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔وہ خود سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور پھر سارا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے، جس میں اسے منہ کی ہی کھانا پڑتی ہے، لیکن پھر بھی وہ باز نہیں آتا۔وہ نت نئے حربے استعمال کر تا رہتا ہے، ابھی فروری 2019ء میں اس نے پاکستان کے علاقے بالاکوٹ پر کامیاب حملے کا اعلان کر کے افراتفری پھیلانے کی کوشش کی،پلوامہ حملے کو بنیاد بنا کر پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی، یہی نہیں،بلکہ بھارت ایک بار ”سرجیکل سٹرائیک“ کا ڈرامہ بھی رچا چکا ہے۔ اور تو اور دسمبر میں اس نے وادی کیرن پر قبضہ کرنے کا جھوٹا دعویٰ بھی کیا تھا۔
بھارت لائن آف کنٹرول پر تو جو آگ برسا رہا ہے سو برسا رہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کا سر کچلنے کے لئے اپنے ہی آئین کے ساتھ کھلواڑ بھی کر رہاہے۔مودی سرکار نے اگست میں تمام قانونی تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کردیا، اس کے بعد اب کشمیرمرکز کے زیر اہتمام ریاست یا یونین ٹیریٹری ہو گی،ا س کے علاوہ بھارتی شہری بھی زمین خرید کروہاں ”رچ بس“ سکتے ہیں، جس سے خدشہ ہے کہ اگر کبھی اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق استصواب رائے ہوا تونتائج گھمبیر ہو سکتے ہیں۔گزشتہ پانچ ماہ سے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہے،اس کو دُنیا کی سب سے بڑی جیل قرار دیا جا رہا ہے، اہل ِ کشمیر کی زندگی اجیرن ہے،عورتیں اور بچے بھی ان کے ظلم سے محفوظ نہیں ہیں۔یہاں تک کہ پانچ ماہ سے انٹرنیٹ سروس بھی منقطع ہے، جس کے باعث ان کا دُنیا سے کوئی رابطہ نہیں اور کاروباری زندگی بھی مفلوج ہے۔اب دو روز قبل بھارتی سپریم کورٹ نے مودی سرکار کو ایک ہفتے کے اندر انٹرنیٹ سروس بحال کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کا حکم دیا ہے۔یہ ایک اہم اقدام ہے، کورٹ نے واضح کیا کہ انٹرنیٹ سروس بند کرنا آزادی حق رائے دہی کے منافی ہے اور کسی کو بھی اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔بھارتی عوام، سیاسی جماعتیں اور عدالت بھی حکومت کے ہم خیال نظر نہیں آتے،کسی بھی جمہوریت کے دعویدار، سیکولر ملک میں اس سے زیادہ بدتر صورتِ حال اور کیا ہو گی۔
بھارتی حکومت نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ترمیمی شہریت بل بھی پاس کردیا، یہ بل دس جنوری سے بھارت میں نافذ ہو چکا ہے۔اس بل کی رو سے مسلمانوں کے سوا دوسری تمام اقلیتوں کو شہریت حاصل کرنے کا حق دیا گیا ہے، یہ پہلی مرتبہ ہے کہ بھارت میں مذہب کی بنیاد پر شہریت دی جائے گی۔بھارت کے اپنے شہری اس بل کے مخالف ہیں، ملک بھر میں احتجاج جاری ہے، اب تک 35 کے قر یب افرادمارے جا چکے ہیں۔چھ بھارتی ریاستوں نے فوراً اس بل کو مسترد کر دیا، گیارہ ریاستوں میں اس کے خلاف آواز بلند کی جا رہی ہے، لیکن مودی سرکار کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔
بھارت معلوم نہیں کون سی دُنیا میں رہ رہا ہے،اس کے اپنے اندرونی حالات بدسے بدتر ہوتے جا رہے ہیں، پھر بھی وہ پاکستان کے خلاف محاذ کھولنے کی خواہش میں مبتلا ہے۔اس طرح کی اوچھی حرکتیں کر کے وہ صرف عالمی برادری کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانا چاہتا ہے۔اس وقت وہ ایک بدمست ہاتھی کی طرح سب کچھ اپنے پاؤں تلے کچلنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ اقوام متحدہ بھارت کی لگامیں کھینچے، انسانی حقوق کی تنظیموں اور بھائی چارے کا نعرہ بلند کرنے والے ممالک کوبھی دخل اندازی کر کے بھارت کا راستہ روکنا ہو گا۔مودی سرکار کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ اگر اس نے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی تو اس کے نتائج بھی اسی کو بھگتنا ہوں گے۔