لاہور، جرائم میں اضافے کی وجوہات
وزیراعظم پاکستان عمران خان سنجیدگی سے پولیس میں تبدیلی لانے کے لئے ملک بھر بالخصوص پنجاب میں مسلسل اپنی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ پنجاب بیوروکریسی اور پولیس کی جانب سے اب تک انہیں انتہائی مشکل حالات کا سامنا رہا ہے۔جب سے انھوں نے حلف اٹھایا ہے اس تبدیلی کی خاطر وہ محکمہ پولیس کے چار آئی جی کو تبدیل کرکے پانچویں آئی جی شعیب دستگیر کو میدان میں اتار چکے ہیں۔ان کا جنون ہے کہ وہ پنجاب میں پولیس میں تبدیلی ضرور لا کر رہیں گے۔فیصل آباد میں ہونیوالی ایک تقریب میں بھی انھوں نے ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کیا کہ اب پنجاب میں عوام کو بدلی ہوئی پو لیس نظر آئے گی اور پنجاب میں تعینات نئے آئی جی پولیس نے ایسے افراد جن پر کبھی کسی نے ہا تھ نہیں ڈالا تھا ان کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ تبدیلی کوئی بھی ایک شخص نہیں لا سکتا اس کے لیے کسی ایک رہنما کے ساتھ انتہائی مخلص محنتی اور قابل افراد کی ٹیم ہونا بہت ضروری ہے۔یہ بات درست ہے کہ کئی لیڈر بہترین مینیجرہوتے ہیں جو تمام قابل اور اہم افراد سے کام لیتے اور ان کی مدد سے نتائج حاصل کرتے ہیں۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ پنجاب بالخصوص لاہور میں لگائی جانیوالی ٹیم وہ نتائج فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتی ہے جس کا وزیر اعظم نے خواب دیکھاہے۔ آج اگر ہم صوبائی دارالخلافہ کی بات کریں ہمیں تو کوئی قابل زکر بدمعاش پکڑا ہوا نظر نہیں آیا۔جن لسٹوں کو بنیاد بناکر پکڑ دھکڑ شروع کی گئی وہ لسٹ ہی جانب دار،غیر معیاری اور درست نہ ہونے کی وجہ سے عدالت عالیہ میں چیلنج کر دی گئی اور اصل ملزمان بھی کا رروائی سے بچ نکلے۔ حقیقت میں شہر میں جرائم پیشہ افراد بے قابو ہیں۔سال نو کے صرف پہلے دس روز میں کروڑوں روپے کی ڈکیتیاں دو افراد مزاحمت پر قتل کئی زخمی، روزانہ ڈکیتی چوری، نقب زنی کی وارداتوں میں شہری کروڑوں روپے سے محروم جبکہ ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ گاڑیاں چوری ہورہی ہیں۔
جس ملک میں وزیراعظم کا اپنا خاندان محفوظ نہ ہو ان کے بھانجے شیر شاہ خان کے گھر ڈکیتی کی واردات ہوئی،ڈاکوؤں کی گرفتاری کا پولیس نے دعوی کیا ہے جبکہ دوسری جانب امیر غریب سب دندناتے ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر ہیں۔ لاہور سمیت پنجاب میں جرائم کی شرح میں اچانک اضا فے پر وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کی ملاقات میں وزیراعلیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے جرائم میں اضا فے کا نوٹس لینے کے ساتھ لاہورسمیت صوبہ بھر میں جرائم کی روک تھام کے لئے ٹھوس اقدامات کی ہدایت بھی کی ہے۔ توجہ طلب بات یہ ہے وزیر اعلی صاحب آپ کے نوٹس لینے کا کیا فائدہ آپ کے لیڈر نے تو عملاً آپ کے اختیارات ہی ختم کررکھے ہیں۔ یہ منہ زور بیوروکریسی آئندہ کے الیکشن میں اآ پ کی پوری ٹیم کو ووٹروں کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑے گی۔ پہلے تو آپکے بیس ممبر آف پارلمینٹ آپ سے ناراض ہوئے جن کی ناراضگی کا مقصدبیوروکریسی اور پولیس افسران کا عدم تعاون ہے۔رہی سہی کسر سی سی پی او لاہور نکال رہے ہیں۔وزیر اعظم اور آئی جی پولیس پنجاب نے لاہور میں جس سی سی پی او کا انتخاب کیا ہے وہ اچھے کمانڈرثابت نہیں ہوئے ا۔سانحہ پی آئی سی انکی غفلت اور نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے اوریہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی طرح پی ٹی آئی حکومت کے ماتھے پرسیاہ کلنک بن کر عوامی حلقوں میں انھیں شرمسار کرتا رہے گا۔
وزیراعظم جب بھی پولیس میں تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلے خیال یہی آتا ہے کہ کیا یہ پولیس اور تھانہ کلچر تبدیل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ان کی سوچ اور محنت اپنی جگہ درست ہے لیکن تہتر برس سے پاکستان کا تھانہ کلچر اور اس سے جڑی روایات اس قدر مضبوط ہوچکی ہیں کے ان کو تبدیل کرنے کا مطلب پورا نظام تبدیل کرنا ہے۔موجودہ آئی جی پنجاب شعیب دستگیر ایک ایماندار پولیس آفیسر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔عمران خان کے ویژن کے عین مطابق صوبے کی پولیس اور تھانہ کلچر کی تبدیلی کے طور پر دن رات اپنی کو ششوں میں مصروف دکھائی بھی دیتے ہیں۔ڈی جی آپریشن لاہور رائے بابر سعید وزیراعظم پاکستان اور آئی جی پولیس کے ویژن کے مطابق تھانوں پر بغیر پروٹوکول اچانک چھاپے مار نے اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے کھلی کیلئے کچہریوں کا جوسلسلہ انھوں نے شروع کر رکھا ہے وہ قابل ستائش اور خوش آئندہے اور اس کے مثبت نتائج بھی سامنے آئے ہیں رائے بابر سعید کہتے ہیں کہ تھانہ پولیس کا بنیادی یونٹ ہے جس کی ورکنگ اور حالات کار کو بہتر بنانا میری ترجیحات میں شامل ہے۔ ڈی آئی جی کی اچانک چھاپہ مار مہم کا فائدہ یہ ہے کہ ان کے سامنے اصل صورتحال واضح ہو رہی ہے اور وہ عوامی خدمت کو اہمیت دے رہے ہیں۔
شہری تھانے میں پولیس آفیسر کو اپنے درمیان پا کر خوشی بھی محسوس کرتے ہیں۔ان کے ایک سرکل ڈی ایس پی افتخار وریا اور ایس ایچ او شاہدرہ مقصود گجر نے علاقے کے بدنام زمانہ منشیات فروشوں کو سبق سکھانے کے لیے ان کی ایسی تیسی بھی کی ہے جو مداواکے لیے پو سٹر اٹھائے مظاہرے کرتے سوشل میڈیا پر نظر آتے ہیں۔ ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کا ایسے جرائم پیشہ افراد کے خلاف اقدام قابل تحسین ہے۔ شہر کے دیگر ڈی ایس پیز اور ایس ایچ اوز کو بھی جرائم پیشہ افراد کو کچلنے کے لیے ان کی کاپی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔اگر وزیر اعظم پاکستان اپنے خواب کی تعبیر اور پنجاب میں بدلی ہوئی پولیس دیکھنا چاہتے ہیں تو انھیں فیلڈ میں کام کرنیوالے پولیس افسران ڈی آئی جی غلام محمود ڈوگر،سابق آر پی او بہاول پور عمران محمود، اشفاق احمد خان کو سی پی او آفس بٹھانے کی بجائے بڑے شہروں میں لگاکر ان سے کام لینا چاہیے۔ سی سی پی او لا ہور زوالفقار حمید انسپیکشن اور انوسٹی گیشن کے ماہر ہیں ان سے بڑی کمانڈ کی بجائے انھیں آئی جی آفس میں تعینات کرکے بڑے واقعات کی ان سے انسپیکشن اور پولیس ویلفئیر کاکام لیا جائے۔ جس طرح بی اے ناصر صاحب بہترین پالیسی میکر اور پالیسی ساز افسر ہیں اور انھوں نے لاہور میں بڑا کامیاب عرصہ بھی گزارا ہے ان کی خداداد صلا حیتوں اور بیرون ملک پولیس فورس کی کمانڈنگ کے تجربے پر تمام اہم امور پر آئی جی صاحب کو ان سے مشاورت کرنی چاہیے۔