عبدالقادر حسن کی چند یادیں
ابھی جناب مسعود مفتی مرحوم کے تعزیت نامہ سے فارغ ہوا ہی تھا کہ روزنامہ ”امروز“ لاہور کے سابق چیف ایڈیٹر اور ملک کے نامور صحافی جناب عبدالقادر حسن کے اس جہانِ فانی سے کوچ کر جانے کی خبر سن کر بے ساختہ انا للہ وانا الیہ راجعون کے الفاظ منہ سے نکلے، بڑے وسیع القلب اور صابر انسان تھے۔ ایوب خان اور ان کے بعد کے دور کا شاید ہی کوئی سیاست دان ہو جس سے عبدالقادر حسن کی نیاز مندی نہ رہی ہو، ان میں بڑی بڑی قد آور، قابل اور اعلیٰ خوبیوں کی حامل شخصیات شامل ہیں۔ عبدالقادر حسن میاں ممتاز دولتانہ سے بہت زیادہ متاثر تھے اور اکثر ان کی ملاقاتیں میاں صاحب کی لائبریری میں ہوتی تھیں،جو ملک کی مشہور لائبریری تھی اور میاں ممتاز دولتانہ بھی اکثر و بیشتر مرحوم کو اِسی لائبریری میں ملاقات کی دعوت دیتے رہتے تھے۔ ایک دن میاں صاحب نے عبدالقادر حسن سے گفتگو کے دوران کہا کہ تم ”کبھی“ میری یہ لائبربری لے جانا۔
عبدالقادر حسن مرحوم میاں صاحب کی بات سن کر پریشان ہو گئے، لیکن انہوں نے میاں صاحب کو خوش کرنے کے لئے کہا،”میاں صاحب اتنی بڑی لائبریری کے لئے، میرے پاس اتنی بڑی بلڈنگ نہیں ہے، آپ نے مجھے کچھ دینا ہے تو، دو چار مربعے زمین دے دیں تو وہ خوش ہو کر ہنسنے لگے، دس بارہ دن بعد عبدالقادر حسن کی دوبارہ میاں ممتاز دولتانہ سے ملاقات ہوئی تو گپ شپ کے دوران میاں صاحب کہنے لگے عبدالقادر حسن زمینوں کے چکر میں پڑ کر تم اپنے آپ کو ضائع کر لو گے، لاہور میں میرا ایک بڑا پلاٹ پڑا ہوا ہے وہ مَیں نے تیرے نام کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔عبدالقادر حسن مرحوم خود اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ میاں صاحب کی بات اور فیصلہ سن کر اُن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور کہا میاں صاحب، آپ کی یہ محبت اور شفقت ہی میرے لئے بہت بڑی دولت ہے، کئی روز بعد ان کے منشی نے عبدالقادر حسن مرحوم سے اس سلسلے میں میاں صاحب کی ہدایت پر بات کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے منشی سے کہا، شاید مَیں میاں صاحب سے اپنے دِل کی بات نہ کہہ سکوں، لیکن تم میاں صاحب سے کہہ دینا کہ آپ کا نیاز مند اس پلاٹ کے بغیر ہی سراپا سپاس ہے اور سمجھتا ہے کہ مَیں بھی جاوید کی طرح میاں صاحب کا فرزند ہی ہوں۔
جناب عبدالقادر حسن کے انتقال سے صحافت میں سیاسی کالم نگاری کا ایک باب مکمل ہوا، وادی سون سکیسر کے اس عظیم سپوت نے گاؤں کے ایک پرائمری سکول کے علاوہ جماعت اسلامی کے دارالعروبہ کے ناظم سید مسعود عالم ندوی سے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی، سوچ سمجھ کر لکھنا اور بولنا ان کی اپنی ذہانت کا کام تھا، صحافت اور خطابت کے شہسوار آغا شورش کاشمیری کی طرح عبدالقادر حسن بھی کسی کالج اور یونیورسٹی سے فارغ التحصیل نہیں تھے،لیکن ان کا کام اساتذہ جیسا تھا ویسے تو علماء کے ایک گروہ کو بھی مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ پر اعتراض رہا کہ وہ کسی بڑے دینی تعلیمی مدرسے سے تعلیم یافتہ نہیں ہیں،لیکن ان کا کام بول رہا ہے کہ وہ صاحب ِ علم تھے اور ان کی جلائی ہوئی شمع آج بھی پوری آب و تاب سے روشنی بکھیر رہی ہے، حق گوئی و بے باکی کا درس عبدالقادر حسن نے سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے اسلامی لٹریچر سے لیا۔
صحافتی زندگی کا آغاز فیض احمد فیض کی زیر ادارت شائع ہونے والے جریدے ”لیل و نہار“ سے ہوا اس ادارے میں زبان کے اسرار و رموز سمجھنے میں بڑی مدد ملی،نوائے وقت گئے تو سیاسی باتیں کے عنوان سے کالم نگاری نے انہیں ملک کے نامور صحافیوں اور کالم نگاروں کی صف میں نمایاں مقام پر کھڑا کر دیا۔جنرل یحییٰ خان کی آمریت کے دور میں عبدالقادر حسن کے کالم کا عنوان تبدیل ہو کر ”غیر سیاسی باتیں“ ہو گیا اور پھر وہ اسی عنوان کے تحت ہی لکھتے رہے۔ ”افریشیا“ کے نام سے انہوں نے اپنا ایک سیاسی ہفت روزہ نکالا، 5جولائی 1977ء کے بعد افریشیا کے پہلے شمارے کے سرورق کی سرخی تھی، ”جاء الحق“۔ ضیاء الحق کے ریفرنڈم کے بارے میں ان کا تبصرہ تھا ”یہ صبح کے اوقات میں منصفانہ اور اس کے بعد شام تک ”آزاد“ تھا۔
عبدالقادر حسن جماعت اسلامی کے رکن رہے، جماعت اسلامی کی تربیت کا یہ اثر تھا کہ ہمیشہ حق اور سچ کا پرچم اٹھائے رکھا اور ساری عمر جماعت اسلامی کی بنیادی فکر سے وابستہ رہے، معاشی روزگار سے بے نیاز ہو کر مظلوم کے ساتھ کھڑے رہے اور ظالم کے خلاف اپنا قلم استعمال کیا اور سچ بات کو اپنے دوست اور مخالف کے سامنے رکھنے میں کبھی ہچکچاہٹ اور دیر نہیں ہونے دی صحافت کے میدان میں منفرد سوچ رکھنے والے صحافی اور کالم نگار عبدالقادر حسن صحافی برادری، اخبار نویسوں اور کالم نگاروں کے لئے مشعل ِ راہ ہیں۔