فوج کی وضاحت
فوج کے ترجمان کی طرف سے باضابطہ طور پر سیاست دانوں کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اس اہم ادارے کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔ آئی ایس پی آر کے ڈی جی میجر جنرل بابر افتخار نے ایک پریس بریفنگ دیتے ہوئے ایک مرتبہ پھر اپنے اُسی موقف کو دہرایا جس کا ذکر مَیں نے کل کے کالم میں کیا تھا۔اب معلوم نہیں کہ آئی ایس پی آر کے ڈی جی نے یہ پیغام حکومت اور اپوزیشن دونوں کو دیا ہے یا صرف مخاطب اپوزیشن والے ہیں۔ ایک سوال پر ڈی جی نے یہ دلچسپ جواب بھی دیا کہ مولانا فضل الرحمن کے راولپنڈی آنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی تاہم اگر وہ آئے تو انہیں چائے بسکٹ پیش کریں گے۔ظاہر ہے یہ بات انہوں نے ازراہِ تفنن کی ہے،لیکن یہ بات بڑی سنجیدگی سے کی گئی کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔انہوں نے کہا کہ فوج حکومت کا ذیلی ادارہ ہے اور حکومت کی پالیسیوں کو اپنانا اُس کی ذمہ داری ہے۔ یہ وہی بات ہے جو وزیراعظم عمران خان اکثر کہتے ہیں تاہم عمران خان کے کہنے اور فوج کے ترجمان کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ ایک ہونے کے باوجود علیحدہ اثرات رکھتے ہیں۔ عمران خان جب یہ کہتے ہیں تو اپوزیشن الزام لگاتی ہے کہ وہ فوج کے پیچھے چھپ رہے ہیں،لیکن آئی ایس پی آر کے ڈی جی جب اس موقف کا اظہار کرتے ہیں تو اپوزیشن یہ نہیں کہہ سکتی کہ فوج وزیراعظم یا حکومت کی بے جا سپورٹ کر رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے مالا کنڈ کے جلسے میں تقریر کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے راولپنڈی آنے پر چائے پلانے کی بات کی ہے، اس سے اُس بات کی نفی ہو گئی جو عمران خان کہتے ہیں کہ فوج اُن کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہ مولانا کی اپنی اختراع ہے وگرنہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ نہیں کہا کہ راولپنڈی آنے پر فوج حکومت کے خلاف مولانا فضل الرحمن سے مذاکرات کرے گی۔
فوج کے ترجمان کے اس واضح موقف کے بعد ہونا تو یہ چاہئے کہ یہ باب بند کر دیا جائے،مگر ایسا ہو گا نہیں جیسا کہ اس پریس کانفرنس کے فوراً بعد ٹی وی چینلوں پر مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے پچھلی باتیں دہرا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ فوج کی مداخلت کس کس انداز سے جاری رہتی ہے۔مولانا فضل الرحمن نے تو جلسے میں یہ تک کہہ دیا کہ ملک میں اس وقت غیر علانیہ مارشل لاء جاری ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ فوج آسمان سے تارے توڑ کر بھی لے آئے تو اپوزیشن والے نہیں مانیں گے کہ فوج سیاست میں مداخلت نہیں کر رہی اس وقت تو لگتا یہی ہے کہ اپوزیشن نے فوج کی سیاست میں عدم داخلت کا ایک ہی ثبوت مانگ رکھا ہے کہ وہ موجودہ حکومت کو چلتا کر دے۔ کتنی ستم ظریفانہ بات ہے کہ اپوزیشن جس وجہ سے فوج کے خلاف دہائی دے رہی ہے،اُس سے وہی کام کرانا چاہتی ہے۔ یہ تو فوج کو ایک ایسے منجدھار میں پھنسانے کا عمل ہے جس سے نکلنے کا کوئی راستہ ہی نہ ہو۔ اپوزیشن جب اپنی تحریک ہی اس امید پر چلائے کہ فوج منتخب حکومت کو گھر بھیج دے تو وہ فوجی ترجمان کی یہ بات کیسے مانے کہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بجا طور پر فوج کی وہ کامیابیاں گنوائی ہیں،جو پچھلے تین برسوں میں حاصل کی گئیں۔دہشت گردی کو ختم کرنے اور پاک افغان بارڈر پر حفاظتی باڑ لگانے کا عمل معمولی کارنامہ نہیں اور اس کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ یہ بات بھی درست ہے کہ خود کش حملے نہ ہونے کے بابر رہ گئے ہیں اِس کا مطلب یہ ہے کہ فوج اپنے بنیادی کام کی طرف بھرپور توجہ دیئے ہوئے ہے،لیکن اپوزیشن تنقید ایسے کرتی ہے جیسے فوجی قیادت سارے کام چھوڑ کر صرف سیاست کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ نواز شریف، مولانا فضل الرحمن اور بلاول بھٹو زرداری پچھلے کچھ عرصے سے مسلسل یہ کہتے آئے ہیں کہ فوج حکومت کی سرپرستی چھوڑ دے،پیچھے ہٹ جائے۔ ڈی جی کی پریس کانفرنس کے بعد جس میں انہوں نے کہا ہے کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں،اب کیا جواز رہ جاتا ہے کہ فوج کو سیاست میں مداخلت کا الزام دیا جائے۔اس بارے میں کوئی ثبوت ہے تو وہ سامنے لایا جانا چاہئے، البتہ یہ بات ڈی جی کو ضرور کہنی چاہئے تھی کہ فوج ایک آزاد ادارہ ہے، وہ حکومت کے ساتھ نہیں، کیا ایسا کہنے سے اپوزیشن کی تسلی و تشفی ہو سکتی تھی، ظاہر ہے ایسا نہیں ہونا تھا، بلکہ توپوں کا رُخ مزید فوج کی طرف ہو جاتا کہ وہ آئین کو بھی نہیں مان رہی۔
اس وقت قومی منظر نامے پر تین فریق موجود ہیں۔ حکومت، فوج اور اپوزیشن، دو فریق حکومت اور فوج ایک طرف اور اپوزیشن دوسری طرف ہے۔ حکومت اور فوج کا ہم آہنگ ہونا آئینی ضرورت بھی ہے اور قومی مفاد بھی، مگر صورتِ حال یہ ہے کہ اپوزیشن کو حکومت اور فوج کا یہ ملاپ بالکل پسند نہیں آ رہا۔ الزام یہ ہے کہ فوج ایک غیر منتخب اور دھاندلی سے آئی ہوئی حکومت کی حمایت کر رہی ہے۔ اب اس بارے میں بھی ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہہ دیا ہے کہ اگر2018ء کے انتخابات میں فوجی مداخلت کے کسی کے پاس ثبوت ہیں تو وہ سامنے لائے۔ثبوت کوئی بھی نہیں دے گا۔ البتہ یہ الزام ضرور لگتا رہے گا کہ فوج عمران خان کو لائی ہے۔ اصولی طور پر تو اپوزیشن کی طرف سے اسے سرانا چاہئے کہ فوج سیاسی صورتِ حال سے فائدہ نہیں اٹھا رہی،مگر اس کی بجائے فوج پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ کیوں منتخب حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔ اب مولانا فضل الرحمن کا یہ کہنا کیا معنی رکھتا ہے کہ فوج اور اسٹیبلشمنٹ وضاحت کریں کہ کس کے ساتھ کھڑی ہیں،حالانکہ اس سوال کا جواب ڈی جی آئی ایس پی آر بڑی وضاحت دے چکے ہیں کہ ہم آئینی طور پر حکومت کا ذیلی ادارہ ہیں اور ذیلی ادارہ حکومت کی مخالفت کیسے کر سکتا ہے؟
اگر اپوزیشن کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ بلاوجہ اب فوج کو نشانہ بنانے سے گریز کرے تو وزیراعظم کو بھی چاہئے کہ وہ بات بات پر فوج کی حمایت حاصل ہونے کا دعویٰ نہ کریں، جیسا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے خود کہہ دیا ہے کہ فوج حکومت کا ذیلی ادارہ ہے اور اس کے احکامات ماننے کی پابند ہے تو پھر وزیراعظم کی طرف سے فوج کی حمایت کا ذکر خواہ مخواہ ایک سیاسی ردعمل کو آواز دیتا ہے، اس کی بجائے انہیں سارا زور اس بات پر دینا چاہئے کہ انہیں پارلیمینٹ کی حمایت حاصل ہے۔ جب دونوں طرف سے فوج کا ذکر بند ہو جائے گا تو سیاست از خود اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے گی۔