آئین میں سینیٹ الیکشن خفیہ ووٹنگ سے ہونے کا ذکر نہیں ،اٹارنی جنرل کے صدارتی ریفرنس میں دلائل

آئین میں سینیٹ الیکشن خفیہ ووٹنگ سے ہونے کا ذکر نہیں ،اٹارنی جنرل کے صدارتی ...
آئین میں سینیٹ الیکشن خفیہ ووٹنگ سے ہونے کا ذکر نہیں ،اٹارنی جنرل کے صدارتی ریفرنس میں دلائل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ سینیٹ الیکشن میں آزادانہ ووٹ کا تصور نہیں ،آزادانہ ووٹنگ کا تصور صرف عام انتخابات میں ہوتا ہے ،آئین میں سینیٹ الیکشن خفیہ ووٹنگ سے ہونے کا ذکر نہیں ،آئین میں الیکشن کا طریقہ قار قانون کے مطابق ہونے کا ذکر ہے ۔
سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی،چیف جسٹس گلزاراحمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی۔اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن وزیراعظم کا الیکشن نہیں کراتا ،الیکشن کمیشن چیئرمین سینیٹ و ڈپٹی کاالیکشن نہیں کراتا، سپیکرو ڈپٹی سپیکر کاانتخاب بھی الیکشن کمیشن نہیں کراتا،ان عہدوں کاانتخاب الیکشن ایکٹ کے تحت بھی نہیں ہوتا ۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ ارکان سینیٹ کاانتخاب الیکشن ایکٹ کے تحت ہوتا ہے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آئین میں سپیکر، چیئرمین سینیٹ الیکشن کاطریقہ کار دج نہیں،اٹارنی جنرل نے کہاکہ وزرائے اعلیٰ کاانتخاب بھی الیکشن کمیشن نہیں کرتا،وزیراعظم ،چیئرمین سینیٹ اورسپیکر کے الیکشن ایوان خود کراتاہے ۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل 53 میں سپیکر کے انتخابات کا ذکر ہے ،صدر کے انتخاب میں الیکشن کمیشن کارول ہوتا ہے،چیئرمین ،ڈپٹی سپیکر الیکشن میں پریزائیڈنگ افسرہوتے ہیں ،سپیکرانتخاب میں سبکدوش سپیکرپریزائیڈنگ افسرہوتے ہیں ،ایوان میں موجود ممبران کی اکثریت سے ہی انتخاب ہوسکتا۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ وزیراعظم الیکشن میں ایوان کی مخصوص نمائندگی درکار ہوتی ہے،آرٹیکل 60 میں چیئرمین سینیٹ انتخابات کاذکر ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ آرٹیکل 53 ،60 میں ذکر نہیں الیکشن اوپن بیلٹ سے ہو یا خفیہ۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ آرئیکل266 کے تحت سپیکر ،چیئرمین الیکشن خفیہ ووٹنگ سے ہوگا ،آئین میں ہے سپیکر الیکشن گزشتہ اسمبلی کاسپیکر کرائے گا ،منتخب اسمبلی کاپہلا کام ہی سپیکر کاالیکشن ہوتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ سینیٹ ،قومی اسمبلی انتخابات آئین کے تحت نہیں ہوتے ،قانون کے تحت ہونے والے انتخابات کاباب ہی الگ ہے ،آرٹیکل 226 کا اطلاق ہر الیکشن پر نہیں ہوتا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آرٹیکل 226 کا اطلاق ہو تو مخصوص نشستوں کے الیکشن ہو ہی نہیں سکتے ،قومی صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن قانون کے تحت ہوتے ہیں ،اٹارنی جنرل نے کہاکہ تمام قوانین بنے ہی آئین کے مطابق ہیں ،مخصوص نشستوں پر پارٹیاں نمائندگی کی فہرست دیتی ہیں ،تاکید کنندہ ہوں تو آزادمیدوارسینیٹ الیکشن لڑ سکتا ہے،جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ کوئی ایم پی اے پارٹی کیخلاف ووٹ دینا چاہتا ہے توسامنے آکر دے ۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے پر نااہلی نہیں ہو سکتی ،عدالت نے کہاکہ آرٹیکل 226 ہے وزیراعظم ،وزیراعلیٰ کے سوا الیکشنزمیں خفیہ ووٹنگ ہو۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ سینیٹ الیکشن میں آزادانہ ووٹ کا تصور نہیں ،آزادانہ ووٹنگ کا تصور صرف عام انتخابات میں ہوتا ہے ،آئین میں سینیٹ الیکشن خفیہ ووٹنگ سے ہونے کا ذکر نہیں ،آئین میں الیکشن کا طریقہ قار قانون کے مطابق ہونے کا ذکر ہے ۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ جرمنی کی پارٹیاں طے کرتی ہیں کون کون رکن اسمبلی سمبلی بنے گا،جرمنی میں بھی مناسب نمائندگی کاطریقہ کار رائج ہے ، اٹارنی جنرل نے کہاکہ جرمنی والا طریقہ کار پاکستان میں مخصوص نشستوں پر ہوتا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ منتخب نمائندہ عوام، پارٹی سربراہ کوجوابدہ ہوتا ہے ،اٹارنی جنرل نے کہاکہ شہری جس کو چاہے ووٹ دے سکتا ہے مگرایم پی اے نہیں،جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ ایم پی اے کو خفیہ رائے شماری میں آزادانہ ووٹ کاحق اہم سوال ہے،خفیہ ووٹنگ میں پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ دینابے ایمانی ہوگی ۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے ڈسپلن کے پابندہوتے ہیں ،جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ پارٹی سپلن کی پابندی وزیراعظم اوربجٹ منطوری پر ہی ہے۔سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس سے متعلق کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی، اٹارنی جنرل کل بھی دلائل دیں گے۔