''اڑان پاکستان'' منصوبہ: ترقی و خوشحالی کی ضمانت

Jan 13, 2025 | 08:10 PM

تحریر: زینب وحید

نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا

کہ صُبح و شام بدلتی ہیں اُن کی تقدیریں

"زمانے کے تغیر پر کسی کا بس ہے نہ حوادث رُکتے ہیں، لیکن خود کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کرنا غفلت  اور بدلتے حالات کے موافق فطرت نہ بدلنا بے عقلی ہے، سانحات کا مقابلہ کر کے نئے سانچوں میں ڈھلنا مشکل ہے، لیکن فرار ناممکن ہے، کامرانی و راحت انہی قوموں کا مقدر ہوتی ہے جو جدید علوم سے لیس ہو کر مستقبل کی طرف بڑھتی ہیں"۔

اقبال کے فلسفہ خودی کی یہ تشریح جدید طرز فکر کے اظہار کا شاہکار ہے۔ ہم جیسے معاشرے فکر کے جمود کی وجہ سے علمی و اخلاقی طور پر پسماندہ رہ گئی اور مجموعی طور پر معاشی و سیاسی زبوں حالی کا شکار ہو گئی، یوں وسائل کے باوجود ہم آئی ایم ایف اور دیگر امیر ممالک کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی روش میں مبتلا ہیں۔ اقبال ہمی کو جگاتے ہوئے فرماتے ہیں،

ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے؟

خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے؟

عبَث ہے شکوۂ تقدیرِ یزداں

تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے؟

اخلاقی، سماجی اور مذہبی نظریات کی الگ الگ تشریحات کے اس دور میں ترقی کی منزل ''اُڑان پاکستان" امید کی ایک کرن نظر آئی ہے۔ یہ  وزیراعظم  شہباز شریف کی زیر نگرانی ایک پانچ سال کا پروگرام ہے جو وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی جناب احسن اقبال صاحب نے قوم کے سامنے پیش کیا ہے۔ اس کو 

National Eco­nomic Transforma­tion Plan 2024-29 

کا نام دیا گیا ہے۔ اُڑان پاکستان ایک انقلابی پروگرام ہے جو 5Es فریم ورک کے تحت ہے جس کا مقصد پاکستان کو مضبوط، مستحکم اور خوشحال بنانے کی حکمت عملی فراہم کرنا ہے۔اس پروگرام کا مقصد 2035 تک پاکستان کی معیشت کو 1 کھرب ڈالر اور 2047 تک 3 کھرب ڈالر تک پہنچانا ہے۔ یہ پروگرام پانچ اہم ستونوں پر مبنی ہے جن میں برآمدات،ای-پاکستان، ماحولیاتی تحفظ، توانائی اینڈ انفرااسٹرکچر، مساوات، اخلاقیات و اختیار شامل ہیں۔ اس منصوبے کے تحت سالانہ برآمدات کو 60 ارب ڈالر تک لے جانے کی منصوبہ بندی ہے۔ اس کے تحت آئی ٹی، زراعت، تخلیقی صنعت، معدنیات، اور بلیو اکانومی کو فروغ دیا جائے گا۔  چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں  اور کاروباری ماحول کو ترقی ملے گی۔ "میڈ ان پاکستان " کو معیار اور اعتماد کا نشان بنایا جائے گا۔ اس کے متوقع اثرات میں روپے کو مستحکم کرنا، درآمدات پر انحصار کم کرنا اور مستقل ترقی کی راہ ہموار کرنا شامل ہے۔

دوسرا نکتہ ای-پاکستان، یعنی ڈیجیٹل انقلاب کے ذریعے معیشت میں تبدیلی لانا ہے۔ اس کے اہم اہداف میں آئی سی ٹی فری لانسنگ انڈسٹری کو 5 ارب ڈالر  تک لے پہنچانا شامل ہے۔ سالانہ 2 لاکھ آئی ٹی گریجویٹس تیار ہوں گے۔ پہلا اسٹارٹ اپ یونیکورن تخلیق ہو گیا۔ 100 ملین موبائل سبسکرائبرز تک رسائی حاصل کی جائے گی اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور سائبر سیکیورٹی کی صلاحیت کو بہتر بنایا جائے گا۔ اس کے متوقع اثرات میں نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور عالمی ٹیکنالوجی کے مرکز کے طور پر تیار کیا جائے گا۔ 

تیسرا ستون ماحولیاتی تحفظ ہے۔ 

13 نومبر 2024 کو وزیراعظم شہبازشریف نے کوپ 29 سے خطاب میں واضح کیا کہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ، متعدد دیگر ممالک بھی ماحولیاتی ممالک سے متاثر ہیں، دنیا نے توجہ نہ دی تو مزید درجنوں ممالک پر بھی تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ یہاں ہم 2022 میں سندھ میں تباہ کن سیلاب کو نہیں بھول سکتے۔ اس سیلاب میں  پاکستان میں لاکھوں ایکڑ زمین اور فصلین تباہ ہوئیں، ہم نے بار بار دنیا کو مدد کیلئے پکارا، لیکن کوپ 27 اور کوپ 28  میں کئے گئے وعدے آج تک پورے نہیں ہوئے۔ کاربن کے اخراج میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے، تاہم ہمیں ماحولیاتی آلودگی کے بدترین اثرات کا سامنا ہے۔ جس تباہی کا سامنا ہم نے کیا، کوئی اور ملک تو اس کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ہم اپنے وسائل کے اندر رہ کر حالات کا مقابلہ کرنے کی سرتوڑ کرشش کر رہے ہیں، لیکن ماحولیاتی آلودگی کے خلاف موثر اقدامات تنہا نہیں کرسکتے، ہمیں عالمی برادری کی حمایت اور مدد کی ضرورت ہے، وقت آگیا ہے کہ کلائمٹ فنانس کو گرانٹ کی صورت میں انصاف کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا جائے، ہم اور دیگر ترقی پزیر ممالک کلائمٹ فنانس کے نام پر قرض کے متحمل نہیں ہوسکتے، یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ کاربن کا اخراج آج بھی بڑھ رہا ہے اور جی 20 ممالک سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں، اس لئے ان 20 امیر ترین ممالک کو ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے میں بھی زیادہ حصہ ڈالنا چاہیے۔

وزیراعظم نے واضح کیا کہ غریب ممالک کی تنزلی کی قیمت پر امیر ہونے والے ممالک نے آج پاکستان جیسے غریب معاشروں کو بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے، ہمیں کلائمٹ جسٹس کی آج سے پہلے اتنی شدید ضرورت نہیں تھی اور ہم شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ ہم  کلائمٹ ایکشن پر زیادہ خرچ نہیں کرسکتے، 2030 تک 60 فیصد توانائی قابل تجدید ذرائع سے حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں، گلوبل کلائمٹ سلوشن کا حصہ بننے کے لئے بھی پوری طرح تیار ہیں، لیکن تنہا کچھ نہیں کر سکتے۔

کلائمٹ تحفظ کے تحت طے کردہ اہداف میں زہریلی گیسز کے اخراج میں 50 فیصد کمی لانا، پانی کے ذخائر 10 ملین ایکڑ فٹ تک بڑھانا، قابلِ کاشت زمین میں 20.3 ملین ایکڑ کا اضافہ،  جنگلات کی بحالی اور ماحولیاتی آفات کے خلاف مزاحمتی انفراسٹرکچر کا فروغ ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل  سے قدرتی وسائل کا تحفظ ہوگا، فوڈ سیکورٹی پلان کے تحت خوراک اور پانی کی حفاظت ہو گی۔  

چوتھا منصوبہ جدید بنیادی ڈھانچہ اور توانائی کی سستی اور قابلِ بھروسہ فراہمی یقینی بنانا ہے۔اس مقصد کے تحت قابلِ تجدید توانائی کا حصہ 10 فیصد تک بڑھایا جائے گا۔ سرکلر ڈیٹ میں کمی اور انرجی سسٹم بہتر بنایا جائے گا۔ ریلوے کی مسافروں میں حصہ داری کو  5 سے بڑھا کر 15 فیصد کیا جائے گا جبکہ مال برداری میں شیئر 8 سے بڑھا کر 25 فیصد تک لے جایا جائے گا۔ اسی سیکٹر میں علاقائی رابطوں کو فروغ دینا بھی شامل ہے۔  

آج معاشرے کو سیاسی اور مذہبی بنیاد پر جس طرح تقسیم کر دیا گیا ہے۔ یوتھ کو تخریب کاری، شر انگیزی  اور  ملک دشمن عناصر کا آلہ کار بنایا جا رہا ہے، ان حالات میں ملکی ترقی، خوشحالی اور عالمی سطح پر پاکستان کا تشخص بہتر بنانا ایک بڑا چیلنج ہے۔ اُڑان پاکستان پروجیکٹ کے تحت ایک منصفانہ معاشرہ تشکیل دینے کے لئے مساوات اور  اخلاقیات و اختیارکو فروغ دیا جائے گا جو  جامع  اور اخلاقی اقدار پر مبنی ہوگا۔اس کے نکات میں یونیورسل ہیلتھ کوریج انڈیکس میں 12 فیصد اضافہ، شرح خواندگی 10 فیصد تک بڑھانا، خواتین کی افرادی قوت میں شرکت کو 17 فیصد تک لے جانا، نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 6 فیصد کم کرنا اور سماجی تحفظ کو فروغ دینا شامل ہے۔ سوسائٹی کے محروم طبقات کو بااختیار اور سماجی تحفظ یقینی بناکر ہم آہنگ اور خوشحال معاشرے کا قیام بڑا مقصد ہے۔

حکومت نے عزم کیا ہے کہ وہ سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرے گی، آئی ٹی انڈسٹری اور فری لانسنگ کو فروغ دے گی،  صنعتی ترقی اور اختراع کے لیے مدد کرے گی، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے بڑے منصوبوں کا آغاز ہو گا۔ جدید توانائی اور ٹرانسپورٹ سسٹم بنایا جائے گا۔

جناب وزیراعظم کے ویژن کے تحت اُڑان پاکستان گیم چینجر پروجیکٹ ہے۔ جس پر قوم متحد ہو کر عمل کرے تو معاشی استحکام، ڈیجیٹل انقلاب، ماحولیاتی تحفظ، سماجی شمولیت کے مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں۔ 

اُڑان پاکستان پروگرام حقیقت پسندی پر مبنی ہے جو وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال نے  زمینی حقائق اور عالمی تجربات کی روشنی میں تیار کیا  ہے۔ اس کو کامیاب بنانے کے لئے پاکستان کی 65 فیصد  یوتھ اس تبدیلی میں اہم کردار ادا کرے گی۔ 

قومی اقتصادی تبدیلی کے حکومتی پلان (2024–2029) کے تحت 2035 تک 1 کھرب ڈالر کی معیشت کے لیے بنیاد فراہم کرے گا۔ اس منزل کے حصول کے لئے حکومت مؤثر پالیسیاں تیار کرے گی، نجی شعبے کو  صنعتی ترقی میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کیا جائے گا،  تعلیمی اداروں کو  تحقیق اور ترقی کے لیے معاونت فراہم کی جائے گی، سول سوسائٹی میں عوامی شعور اجاگر کیا جائے گا۔ 

’’اڑان پاکستان‘‘ اقوام عالم میں پاکستان کا کھویا مقام دوبارہ حاصل کرنے کی طرف طویل سفر اور نئی صبح کا آغاز ہے۔ یہ منصوبہ کسی ایک حکومت کا نہیں بلکہ کا پوری قوم کا ہے جس کے لئے ہم سب کو مل کر کامیابی بنانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اس سمیت میں کامیابی کیلئے قومی یکجہتی اور ہم آہنگی ناگزیر ہے۔ 

ماضی میں بھی کئی طویل المدتی اقتصادی منصوبے شروع ہوئے جو کبھی بدانتظامی اور کبھی سیاسی عدم استحکام، مالی وسائل کی کمی اور پالیسیوں کے تسلسل کے فقدان کے باعث مکمل کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ اس تناظر میں  مقامی طور پر تیار کردہ ’’اڑان پاکستان‘‘ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا بہترین پروگرام ثابت ہو سکتا ہے۔

معاشی استحکام کے لئے سرمایہ کاری کو فروغ دینےکی خاطر سیاسی استحکام اورقیام امن ناگزیر ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ پوری قوم مل کر ’’اڑان پاکستان‘‘کو کامیاب کر کے وطن عزیز کو ترقی کی نئی بلندیوں پر لے جا سکتی ہے اور پاکستان بین الاقوامی سطح پر اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتا ہے۔ اس بہترین پانچ سالہ منصوبے پر پر من و عن عمل ہو جاتا ہے تو پاکستان یقینی طور پر ترقی اور خوشحالی کی منزل پر پہنچ جائے گا۔

“اُڑان پاکستان” علامہ اقبال کے تصور ترقی سے مزین ہے  جو یوتھ کو پاکستان کی تعمیر و ترقی میں بھر پور انداز میں شرکت کی دعوت دیتی ہے، یعنی 

کبھی  اے نوجواں مسلم! تدبّر بھی کِیا تُو نے

وہ کیا گردُوں تھا تُو جس کا ہے اک ٹُوٹا ہوا تارا

تجھے اُس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبّت میں

کُچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج ِ سرِ دارا

تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی

کہ تُو گُفتار۔ وہ کردار، تُو ثابت وہ سیّارا

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

ثُریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

دراصل آزاد اور خوشحال قوموں کی فکر و  فلسفہ حقیقت کی دنیا سے روشن روشن ہوتا ہے۔ ہمیں آزاد اور ہنر مند قوم بننے کیلئے اپنا ہر لمحہ پاکستان کیلئے وقف کرنے کا عزم کرنا ہوگا۔ 

خودار، خودمختار اور معاشی طور پر مستحکم مملکت کی حیثیت سے اپنا تشخص قائم کرنے کیلئے انتھک محنت ہی ترقی کا واحد راستہ ہے۔ میں پاکستان کے ہر نوجوان کو فلسفہ خودی پر عمل کرتے ہوئے بھرپور صلاحیتوں کے ساتھ تعمیر و ترقی میں حصہ لینے کی دعوت دیتی ہوں، اس پیغام کے ساتھ کہ

خدائے لم یزل کا دستِ قُدرت تُو، زباں تُو ہے

یقیں پیدا کر ۔اے غافل کہ مغلوبِ گُماں تو ہے

پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی

ستارے جس کی گرد راہ ہوں وہ کارواں تو ہے

-----------

تعارف مصنفہ

وزیراعظم پاکستان نے زینب وحید کو "پرائم منسٹر یوتھ کونسل" میں بطور نوجوانوں کی نمائندہ شامل ہونے کا اعزاز بخشا ہے۔ حکومت پاکستان نے دسمبر 2024 میں اس منصب پر فائر کیا ہے۔ یہ کونسل وزیراعظم کا ایڈوائزری بورڈ ہے۔ زینب وحید  امریکا کے "کارلٹن کالج" کی اسٹوڈنٹ ہیں جو اکنامکس اورانوائرمنٹ ڈگری کی فُل رائیڈ اسکالرشپ پر تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔  یہ اعزاز حاصل کرنے والی وہ واحد پاکستانی طالبہ ہیں۔ یونیسف یوتھ فورسائیٹ فلوشپ 2024 میں پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ یونیسف نے انہیں  دبئی فیوچر فورم 2024 میں پاکستان کی نمائندگی کیلئے منتخب کیا ہے۔ وہ کلائمٹ ایکٹوسٹ اور جرنلسٹ ہیں۔ مصنفہ، سوشل میڈیا کونٹینٹ کریئٹر اور مقررہ ہیں۔ پاکستان میں اقوام متحدہ اور حکومت پاکستان نے مشترکہ طور پر انہیں "کلائمٹ ہیرو"کے اعزاز سے نوازا ہے۔  یونیورسٹی آف ٹورنٹو، یورپ کے معتبر میگزین”جرنل آف سٹی کلائمٹ پالیسی اینڈ اکانومی”، اور نوبل پرائز ونر ملالہ یوسف زئی کے عالمی شہرت یافتہ میگزین “اسمبلی” میں مضامین چھپ چکے ہیں۔ پاکستان کے دو قومی اخبارات میں بلاگز لکھتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے تحت امریکا اور اٹلی میں یوتھ فار کلائمٹ چینج انٹرنیشنل کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ ارجنٹائن میں میں انٹرنینشل سی فورٹی سمٹ میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ اقوام متحدہ اور انٹرنیشنل سول سوسائٹی کے تحت کانفرنس میں بطور پینلسٹ شامل ہیں۔ مضمون نویسی کے متعدد بین الاقوامی مقابلے بھی جیت چکی ہیں۔ نیدرلینڈز کے سرکاری ٹی وی نے زینب وحید کو پاکستان کی گریٹا تھنبرگ قراردیا ہے۔

مزیدخبریں