راجہ نمبرون

جب سے راجہ پرویز اشرف وزیراعظم بنے ہیں، ہمیں بجلی کی اتنی ہی فکر رہتی ہے،جتنی گھر والوں کو اس بوڑھے بیمار کی ہوتی ہے، جو کسی بھی وقت جہانِ فانی سے کوچ کرسکتا ہے۔آج کل حالات یہ ہیں کہ اگر گھر میں بوڑھا عزیز بیمار ہوتو گھر والوں کو یہی فکر ہوتی ہے کہ بوڑھا زندہ بھی ہے یا گزر گیا۔اہل و عیال بیمار کی خیریت دریافت کرنے کے لئے اتنے بے چین نہیں ہوتے،جتنے اس بات پر کہ بوڑھافوت ہوا ہے کہ نہیں؟اتفاق سے ہمارے ملک کی بجلی جن دنوں بیمار ہونا شروع ہوئی تو راجہ صاحب اسے بطور معالج ملے اور پھر ان کے علاج کے بعد بجلی کا وہ حال ہوا جو معمولی بیمار کا عطائی سے علاج کرانے کے بعد ہوجاتا ہے،تاہم راجہ صاحب کو اس علاج کا اتنا فائدہ ہوا کہ اب ان کا تعارف ،اتنا ان کے وزیٹنگ کارڈ نہیں کرواتے ہوں گے، جتنا ہمارے ملک کی بجلی۔ اب تو اگر کہیں بجلی کا نام بھی لیا جائے تو ذہن میں فوراً راجہ پرویز اشرف کا ہی خیال آتا ہے، تاہم اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کہ یہ خیال کن الفاظ میں آتا ہے۔موصوف اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ان کے پیشرو یوسف رضا گیلانی نے جتنی ”عزت“ 4سال میں حاصل کی، انہوں نے اس سے دوگنا وزارت پانی و بجلی کے دور میں ہی حاصل کرلی تھی۔تجزیہ کار اس بات پر حیران ہیں کہ صدر آصف علی زرداری نے ان کا انتخاب کرتے وقت کیادیکھا؟جبکہ ہمارے خیال میں یہ کیا کم ہے کہ انہوں نے کچھ دیکھا ہی نہیں۔لوگ راجہ صاحب کی وہ خوبی تلاش کرتے ہیں، جس نے انہیں وزیراعظم بنوایا، جبکہ ہمارے خیال میں تو ان کے وزیراعظم بننے میں یہی سب سے بڑی خوبی تھی کہ ان میں ایسی کوئی خوبی تھی ہی نہیں۔
اخباری اطلاعات کے مطابق وزیراعظم بننے کے بعد اسلام آباد میں راجہ پرویز اشرف کے نجی گھر کو لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ قرار دے کر خصوصی لائن بچھا دی گئی ہے، اس پر کچھ لوگوں نے غم و غصے کا اظہا رکیا، مگر ہمیں خوشی ہوئی کہ چلو راجہ صاحب یہ تو کہیں گے کہ انہوں نے لوڈشیڈنگ ختم کردی ہے۔ویسے بھی پاکستان تو ایوان صدر اور وزیراعظم ہاﺅس تک ہی محدود ہے، وہاں سب اچھا ہوتا ہے،شائد اسی لئے ہمارے حکمرانوں کو ملک میں کوئی مسئلہ نظر نہیں آتا۔گزشتہ دنوں سابق وزیراعظم لاہور آئے تو انہوں نے سیفما کی تقریب کے دوران اپنے شاعرانہ جوہر دکھائے۔پہلے ہم شاعروں کو انسانوں سے ذرا الگ مخلوق سمجھتے تھے، مگر گیلانی صاحب کے ”مشاعرے“ کے بعد ہم نے اپنی سوچ بدل لی ہے۔یہ نہیں کہ ہمارے شاعروں کا ذوق بہتر ہوگیا، بلکہ اس لئے کہ گیلانی صاحب شاعر ہوگئے ہیں اور اتفاق سے وزیراعظم بھی رہے ہیں جو کہ خالصتاً انسانوں کے حصے میں آنے والا عہدہ ہے۔گیلانی صاحب سے پہلے الطاف بھائی اور میاں شہبازشریف ایسے جوہر دکھاتے رہتے ہیں۔وہ بھی مترنم انداز میں،تاہم سید یوسف رضا گیلانی اور ان کی شاعری میں یہ فرق ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی کی شاعری نااہلی کے بعد ”نوحوں“ پر مشتمل ہوگئی ہے۔
سید یوسف رضا گیلانی کو عدالت نے نااہل قرار دے دیا۔ظاہر ہے اس پر ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟مگر اس بات پر اعتراض ضرور ہے کہ پیپلزپارٹی کے علاوہ کسی جماعت نے اس پر اعتراض اور احتجاج نہیں کیا۔ہمیں کم از کم دینی جماعتوں کی طرف سے احتجاج کی امید ضرور تھی، کیونکہ عدالت نے سوئس حکومت کو خط نہ لکھنے کی پاداش میں سید یوسف رضا گیلانی کونااہل قرار دے کر فارغ کیا۔ہمیں امید تھی کہ چونکہ اسلامی معاشرے میں کسی کو خط لکھنا اچھا نہیں سمجھا جاتا(وہ بھی سوئس حکومت کو جو بلحاظ جنس مونث بنتی ہے) تو دینی جماعتیں احتجاج ضرور کریں گی، مگر نہیں ہوا۔پچھلے دنوں ہمارے ایک دوست نے ہم سے کہا کہ ”گیلانی صاحب کے پھر سے مزے ہوگئے ہیں“....ہم نے پوچھا کیسے؟ تو کہنے لگے:”دیکھیں نا وہ پھر سے معزز ہوگئے ہیں“۔ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارے دوست کے کہنے کا مطلب کیا تھا، اگر سید یوسف رضا گیلانی وزارت عظمیٰ سے علیحدگی کے بعد معزز ہوگئے ہیں تو پھر راجہ پرویز اشرف وزیراعظم بننے کے بعد معزز کیسے ہوگئے؟
راجہ پرویز اشرف کے وزیراعظم بننے کا ہمیں ابھی تک یقین نہیں آرہا۔بالکل اسی طرح جیسے مرد کو ساری زندگی اس بات کا یقین نہیں آتا کہ اس کی شادی کیسے ہوگئی؟ پچھلے دنوں گجرات کے چودھری احمد مختار کا بیان پڑھاکہ ”میرے وزیراعظم بننے میں چودھری برادران رکاوٹ بنے“....لگتا ہے کہ چودھری صاحب نے گلہ کیا ہے ، حالانکہ انہیں تو اپنے گجراتی حریفوں کا شکر گزار ہونا چاہےے تھا،جنہوں نے انہیں پانچ سال کے لئے نااہل ہونے سے بچا لیا، جبکہ بڑے چودھری صاحب کی عقلمندی دیکھئے کہ انہوں نے اگر رکاوٹ ڈالی ہے تو اپنا ہی راستہ بند کیا، ورنہ اگر وہ احمد مختار کو وزیراعظم بنوا دیتے تو آئندہ الیکشن میں ان کی کامیابی لازمی تھی، کیونکہ احمد مختار صاحب نے تو ویسے ہی پانچ سال کے لئے نااہل ہوجانا تھا۔
راجہ پرویز اشرف کے بارے میں الطاف بھائی نے کہا کہ ملکی مسائل کے حوالے سے راجہ ہی بہترین انتخاب ہیں۔ظاہر ہے اس پر ہم اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ واقعی موزوں تھے۔الطاف حسین کو اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ اقتدار کی بلبل پرویز نامی اشخاص کے سروں پر کیوں بیٹھتی ہے،جبکہ ہمیں اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ الطاف بھائی سب کے ساتھ ہی کیوں ہوتے ہیں؟بات راجہ پرویز اشرف کے وزیراعظم بننے کی ہورہی تھی تو کچھ تحریر نگار اس بات پر حیران ہیں کہ صدر آصف علی زرداری نے ان کا انتخاب کیسے کرلیا؟ہمیں تو یہی لگتا ہے کہ صدرآصف علی زرداری نے اپنے دستیاب ممبران کی فہرست نیچے سے اوپر دیکھی ہوگی اور پھر راجہ صاحب کو وزیراعظم بنا دیا، کیونکہ وہ یقیناً ”ٹاپ آف دی لسٹ“ ہوں گے۔ ٭