پرانی انار کلی فوڈ سٹریٹ میںدھماکہ
پرانی انار کلی فوڈ سٹریٹ میں دھماکے کی آواز پورے شہر میں گونج اُٹھی ، لاہور میں عرصہ کے بعد دہشت گردی کی وجہ سے پورے شہر میں سو گوار ی کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ لوگ خوف میں مبتلا ہیں ، سروے کے مطابق پرانی انار کلی فوڈ سٹریٹ میں بم دھماکے میں ایک بچی سمیت 5افراد جاں بحق اور 44زخمی ہو گئے ۔ عینی شاہدین کے مطابق دھماکے کے وقت فوڈ سٹریٹ میں کافی رش تھا، ویک اینڈ کے باعث لوگوں کی بڑی تعداد کھانا کھانے میں مصروف تھی ۔ دھماکہ فوں سٹریٹ کے وسط میں ٹائم ڈیواس کے ذریعے کیا گیا ، بم ڈسپوزل سکواڈ کے مطابق دھماکہ5سے6کلو گرام وزنی ٹائم ڈیواس کے ذریعے کیا گیا جو ایک بیگ میں رکھا گیا تھا ۔ آئی جی خان بیگ اور سی سی پی او لاہور کا کہنا ہے کہ دھماکے میں آدھا کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا ہے، ڈی آئی جی چودھری ذوالفقار کہتے ہیں کہ دھماکہ خیز مواد فوں سٹریٹ پر فریزر کے قریب رکھا گیا ۔ فریزر کا کمپریسر پھٹنے سے دوسرا دھماکہ ہوا ۔ دھماکے کے فوراً بعد ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی جبکہ ڈاکٹرز کو بھی بلا لیا گیا ۔ جاں بحق ہونیوالی6سالہ بچی سعدیہ کے تمام گھر والے بھی زخمی ہیں ۔ وزیر اعلی شہباز شریف کی ہدایت پر ارکان قومی و صوبائی اسمبلی پرویز ملک ، سعد رفیق ، سلمان رفیق ، صوبائی صوبائی وزیر خزانہ میاں مجتبی شجاع الرحمن ، ماجد ظہور ، وحید عالم ، کشمنر امداد اللہ بوسال ، ڈی سی او نسیم صادق اور سی سی پی او چودھری شفیق گجر نے دھماکے کے فوری بعد جائے وقوعہ کا دورہ کیا ۔
سی سی پی او نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دھماکہ ملک دشمن عناصر نے کیا ہے۔ دہشتگردی سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا ۔ صوبائی وزیر خوراک بلال یسین اور قومی اسمبلی کے ایم این اے حمزہ شہباز نے میو ہسپتال ساﺅتھ سرجیکل وارڈ میں جا کر مریضوں کی عیادت کی ۔ پولیس نے دھماکے کا مقدمہ درج کر کے سرچ آپریشن شروع کر دیا ۔ بم دھماکے کے بعد شہر کی سیکورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ۔ صدر ، وزیر اعظم ، شہباز شریف ، الطاف حسین ، عمران خان، منور حسن ، پرویز الہی اور دیگر سیاسی و سماجی رہنماﺅں کی جانب سے دھماکے کی مذمت کی گئی ۔ حمزہ شہباز شریف نے کہا کہ دہشت گردی کی لہر میں وہی طاقتیں ملوث ہیں جو پاکستان میں امن اور خوشحالی نہیں چاہتیں ، دہشتگردی کے کینسر کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری قوم کو متحد اور یکتا ہونا ہوگا ۔ وزیر اعظم نواز شریف 12جولائی کو بلائی گئی اے پی سی میں پورے ملک کی سیاسی قیادت کی مدد سے دہشتگردی کے خلاف ٹھوس حکمت عمل کا اعلان کریں گے ، پاکستان کو دہشت گردوں کے ہاتھ یرغمال نہیں بننے دیں گے ۔ کل تک لاہور کے شہری جوراتوؒں کو جگ رتوں کے لیے جانے جاتے تھے وہ حیران و پریشان ہیں کہ یہ کیا ہو گیا ۔ اس سے پہلے بھی دھماکے ہوتے رہے ہیں کبھی مسجدوں میں ، کبھی دربار حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری اور کبھی ایف آئی اے بلڈنگ میں تو کبھی آئی ایس آئی بلڈنگ اور تھانہ سول لائنز کو نشانہ بنایا گیا اور مولانا سر فراز نعیمی سمیت کئی علماءکرام اور درجنوں شہری دہشت گردی کی لہر کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک مرتبہ گڑھی شاہو میں جوس کی دکان اور قذافی سٹیڈیم کے کلچر کمپلیکس کو بھی تخریب کاروں نے اپنے مذموم مقاصد کا نشانہ بنایا اور کریکر دھماکوں کے نتیجے میں کئی شہری زخمی ہوئے۔ سری لنکا کی ٹیم پر حملے کے نتیجے میں غیر ملکی ٹیموں نے لاہور بلکہ پاکستان کے دورے منسوخ کر دیئے لیکن بڑے شہروں کے برعکس لاہور اور لاہوریے جن کے دل بہت بڑے ہیں ۔ ان واقعات کے تناظر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہیے تھا کہ شہر میں سیکورٹی انتظامات سخت کرتے اور شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے فول پروف اقدامات کئے جاتے ۔ ہم نے انہی کالموں میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے اپیل کی تھی کہ رمضان کی آمد کے پیش نظر شہر میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہو سکتے ہیں اور دہشت گردوں کا راستہ روکنے کے لیے سیکورٹی کے اقدامات کرنا ضروری ہیں ۔ایسے میں رش والے مقامات سٹیشن ، ائیر پورٹ ، بس اڈوں ، فوڈ سٹریٹس ، بازاروں اور مارکیٹوں کے ساتھ ساتھ حساس عمارتوں کی سیکورٹی سخت کی جانی چاہیے تھی ۔
پولیس حکام کے دعوں کے باوجود عینی شاہدین کے بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ فوڈ سٹریٹ کے لیے سیکورٹی انتظامات اطمینان بخش نہیں تھے ۔ بم دھماکے جیسے گھناﺅنی حرکت کرنے والے دہشت گردوں کی بیخ کنی کے لیے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مل بیٹھ کر ایسی حکمت عملی بنانا ہوگی کہ شہری بے خوف ہو کر اطمینان اور سکون سے اپنے روز شب بسر کر سکیں۔ ایس ایس پی انوسٹی گیشن عبد الرب نے قلعہ گجر سنگھ سے تفتیش واپس پرانی انار کلی انویسٹی گیشن کے سپرد کر دی ہے اور انسپکٹر محمد صادق کو انچارج انوسٹی گیشن انچارج تعینات کیا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر دہشت گردی کی روک تھام کے لیے ایسا لائحہ عمل بنانا ہوگا کہ شہریوں کو خوف اور دہشت گردی سے پاک پر امن ماحول فراہم کیا جائے تاہم آج کل پرانی انار کلی فوڈ سٹریٹ میں شہریوں کو شناختی کارڈ چیک کروانے کے بہانے پولےس حراساں کر رہی ہے جس وجہ سے مقامی شہری پرےشان ہےں حالانکہ مذکورہ اقدامات سانحہ سے قبل کئے جانے ضروری تھے تا کہ سانحہ رونما ہی نہ ہونے پائے۔ ٭