ضلعی عدلیہ کو فعال بنانے کیلئے بنچ اور بار میں مشاورتی عمل ضروری ہے: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ
لاہور(نامہ نگارخصوصی )چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مسٹرجسٹس سید منصورعلی شاہ سے پاکستان ٹیکس بار اورلاہورٹیکس بارکے عہدیداروں نے ان کے چیمبر میں ملاقات کی ،اس موقع پروکلاء کے وفد نے بروقت انصاف کی فراہمی کے حوالے سے چیف جسٹس سے تبادلہ خیال کیا۔ملاقات کرنے والے وکلاء میں پاکستان ٹیکس بار کے صدرمحسن ندیم ،نائب صدرمحسن ورک ، صدرلاہورٹیکس بارفرہان شہزاد،نائب صدر فاروق مجید، فنانس سیکرٹری اطہرکیانی، جوائنٹ سیکرٹری رانا کاشف ،حسیب اللہ خان ،سابق صدورلاہورٹیکس بار شہبازبٹ ،رانا منیرحسین ،زاہد عتیق ، افتخارشبیرسمیت دیگروکلاء رہنماء شامل تھے،وکلاء وفد نے مسٹرجسٹس سیدمنصورعلی شاہ کو چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے پرمبارک باد دی اور بروقت انصاف کی فراہمی کے حوالے سے ان کی جانب سے کئے گئے اقدامات کی تعریف کی۔چیف جسٹس نے کہا کہ ضلعی عدلیہ کو فعال بنانے کے لئے بنچ اور بارکے درمیان بہترین ورکنگ ریلیشن شپ اور مشاورتی عمل ضروری ہے تاکہ نظام عدل کی بہتری کے ثمرات صوبے کی عوام تک پہنچ سکیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتوں کی تالا بندی کرکے یا ججز کو دھمکا نے والے وکلاء کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔ اس حوالے سے باران کا ساتھ دے ٹیکس بارکے عہدیداروں نے چیف جسٹس کو اپنے بھرپورتعاون کا یقین دلایا۔
ٹیکس بار
لاہور(نامہ نگارخصوصی)چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس سید منصو ر علی شاہ کا کہنا ہے کہ عدلیہ میں خود احتسابی کا عمل جاری ہے ، آئندہ کچھ عرصہ میں بدعنوان ، نااہل اور منفی رویے والے جوڈیشل افسران نہیں رہیں گے، چاہتے ہیں وکلاء میں بھی خود احتسابی کا عمل شروع ہو، پنجاب کے عدالتی نظام کو مثالی بنانا چاہتے ہیں جو وکلاء کی مدد اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں ، آنے والی نسلوں کو بہترین نظام عدل دینا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس نے ان خیالات کا اظہار پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں پنجاب بار کونسل کے ممبران سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر عدالت عالیہ کے سینئر ترین جج مسٹر جسٹس شاہد حمید ڈار، جسٹس محمد یاور علی، جسٹس سردار محمد شمیم احمد خان،ڈائریکٹر جنرل پنجاب جوڈیشل اکیڈمی عظمیٰ چغتائی اور رجسٹرار سید خورشید انور رضوی موجود تھے جبکہ پنجاب بار کونسل سے وائس چیئرپرسن فرح اعجاز بیگ اور ممبران کی بڑی تعداد موجود تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ضلعی عدلیہ میں بدعنوان اور نااہل جوڈیشل افسران کو قطعاََ برداشت نہیں کیا جائے گا،شکایات ملنے پر سات دن میں ان کے مستقبل کا فیصلہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ نا تجربہ کار جوڈیشل افسران کو جدید تربیتی کورسز کروائے جائیں گے اگر وہ خود کو بہتر نہ کر سکے تو عدلیہ میں انکی کوئی جگہ نہیں رہے گی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کی جا چکی ہے، کمیٹی کے سامنے عدالتوں اور بارز کو درپیش مسائل رکھیں گے، انفراسٹرکچرکو بہتر بنانے، عمارتوں، کتابوں اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی فراہمی سمیت دیگر تمام مسائل کو حل کیا جائے گا۔ ان تمام چیزوں کا مقصد صوبے کی عوام کے لئے بہترین نظام عدل فراہم کرنا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ضلعی عدلیہ کو فعال بنانا ہماری اولین ترجیح ہے، جس کے لئے خوداحتسابی کو عمل شروع کر دیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ جوڈیشل افسران کو کرپشن، بد عنوانی، سوالیہ شہرت، نا اہلی اور منفی رویوں کے تناظر میں پرکھا جار ہا ہے، عدالتوں میں کیمرے بھی لگائے جار ہے ہیں، بد تمیزی، بداخلاقی اور منفی رویے ہمارے سامنے ہوں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ خود احتسابی کے اس عمل کے بعد بھی عدالتوں میں ایماندار ، اہل اور با کردار ججوں کے ساتھ بد تمیزی کاعمل جاری رہے گا تو پھر اس نظام کو ٹھیک کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ چیف جسٹس نے امید ظاہر کی کہ پنجاب بار کونسل اور صوبے کی تمام بار ایسو سی ایشنز بھی خود احتسابی کا عمل شروع کریں گے اور صوبے کے جوڈیشل سسٹم کو پاک کریں گے۔ چیف جسٹس نے عزم کا اظہار کیا کہ وکلاء عدالت عالیہ کا ہاتھ بٹائیں گے اورپنجاب کو عدالتی نظام کو بہترین بنانے میں اپنی مدد اور بھرپور معاونت جاری رکھیں گے۔ چیف جسٹس نے صوبے میں عدالت عالیہ کے نئے بنچوں کے قیام کے حوالے سے کہا کہ نئے بنچوں کے قیام پر غور و خوض کرنے کے لئے فل کورٹ اجلاس آئندہ دو روز میں شروع ہو رہا ہے۔ فل کورٹ اجلاس صوبے کی عدلیہ کا اعلیٰ ترین فورم ہے اور نئے بنچوں کے قیام کے حوالے سے فل کورٹ جو بھی فیصلہ کرے گا ،وکلاء اس کا مان رکھیں گے اور عزت کی نگاہ سے دیکھیں گے،پنجاب بار کونسل کے ممبران کے اعزاز میں عشایہ بھی دیا گیا۔
چیف جسٹس