جاوید ہاشمی نے اپنی خوبصورت مونچھیں کیوں منڈوائیں ؟تاریخی راز سے ممتاز سیاستدان نے خود ہی پردہ اٹھا دیا
لاہور(خصوصی رپورٹ) ’’ہاں میں باغی ہوں ‘‘ کا نعرہ مستانہ بلند کرنے والے جاوید ہاشمی پاکستانی سیاست کا وہ نمایا ں نام ہیں جن کی جمہوری جدوجہد،کردار اور سیاسی خدمات کا اپنوں کے علاوہ مخالفین بھی اعتراف کرتے ہیں ،جاوید ہاشمی نے اپنی دوسری کتاب ’’نوشتہ پس دیوار ‘‘ مکمل کر لی ہے جو جلد ہی منظر عام پر آ جائے گی ،جاوید ہاشمی نے اس غیر مطبوعہ کتاب میں اپنی سیاسی جدو جہد کے اہم تاریخی اور دلچسپ واقعات کو قلم بند کیا ہے ،انہیں دلچسپ واقعات میں سے جاوید ہاشمی نے اپنی مونچھیں منڈوانے کا واقعہ بھی نقل کیا ہے جو کسی طرح بھی ’’پاکستانی سیاست ‘‘کے طالب علموں کے لئے دلچسپی سے خالی نہیں ہے ۔
جاوید ہاشمی جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور کی یادیں تازہ اور اپنی مونچھیں منڈوانے کا واقعہ تحریر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ ’’ ملتان کی سیاست میں دو خاندانوں کی اجارہ داری تھی ،صدیوں سے کسی نئی قیادت کا تصور ہی مفقود تھا،مقامی سیاست کرنے کے لئے ان دو سیاسی گروپوں میں سے کسی ایک کی سرپرستی لازمی تھی ،جب میں نے وہاں سے انتخاب میں حصہ لینے کا خواب دیکھا ،وہ ایک دیوانے کا خواب تھا ،صدیوں کے مخالفین یکجا ہو گئے لیکن وہاں کی عوام نے ایک دیوانے کے خواب کو حقیقت بنا دیا ، شاہ محمود قریشی کو میرے چھوٹے بھائی مخدوم ناصر شاہ ہاشمی نے شکست دی اور یوسف رضا گیلانی کو میرے بڑے بھائی مخدوم ناصر شاہ ہاشمی شکست دی ۔اتفاق سے شاہ محمود قریشی کے والد مخدوم سجاد حسین قریشی اور سید یوسف رضا گیلانی ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ کے رکن تھے۔
میں نے مجلس شوریٰ کارکن بننے سے معذرت کرلی۔ میں ان دونوں خاندانوں کے اتحاد اور مجلس شوریٰ کی رکنیت سے انکار کی وجہ سے زیر عتاب آگیا۔ مجھے کور کمانڈر جنرل شمیم عالم نے طلب کیا اور حکم جاری کیا کہ میں یوسف رضا گیلانی اور شاہ محمود قریشی کے دورہ مخدوم رشید کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کروں، میں نے ان سے عرض کیا کہ علاقے کے عوام نے ہمیں انتخاب میں کامیاب کروایا ہے وہ اس علاقے سے ہار چکے ہیں، وہاں کی عوام اسے اپنے ووٹ کی توہین سمجھے گی۔ جنرل صاحب نے کہا کہ فوج اور مقامی انتظامیہ نے علاقے کا نظم و نسق سنبھال لیا ہے، اب عوام کو سمجھائیں اگر وہ نہ سمجھے تو نتائج کی ذمہ د اری آپ پر ہوگی۔
میں واپس جب اپنے گاؤں میں آیا تو وردی والوں نے پورے گاؤں کو اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ یوسف رضا گیلانی اور شاہ محمود قریشی وردی والوں کی سرپرستی میں ان ترقیاتی کاموں کا افتتاح کررہے تھے جو چار سال قبل ہم نے مکمل کروائے تھے۔ میں نے علاقے کے لوگوں سے پرامن رہ کر منتشر ہونے کی اپیل کی اور اپنی مونچھیں کٹوا کر بغاوت سے توبہ کرلی۔ جنرل ضیاء الحق صاحب سے ایک محفل میں ملاقات ہوئی تو میری مونچھوں کو غائب پاکر انہوں نے کہا کہ آپ کی مونچھیں تو بہت خوبصورت تھیں ان کا کیا بنا؟ میں کیا جواب دیتا‘‘۔