الصلوٰۃ (نماز)سے زندگی کا ربط

الصلوٰۃ (نماز)سے زندگی کا ربط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ایک دو جگہ نہیں، کئی سو جگہ قرآن مجید میں صلوٰۃ کا حکم، صلوٰۃ کا مقصد، اہل صلوٰۃ کی مدح وغیرہ موجود ہے، ہمیں اس وقت ان کی تفصیلات میں جانا نہیں، بلکہ صلوٰۃ کے ایک خاص پہلو کو اجاگر کرنا ہے، اس زاویہ نظر سے اگر صلوٰۃ کو نہ دیکھا جائے تو صرف صلوٰۃ ہی کی نہیں بلکہ پورے نظام عبادت کی وسیع دنیا ایک تنگ و تاریک کوٹھڑی میں بند ہوکر رہ جاتی ہے، صلوٰۃ کا ترجمہ ہماری زبان میں ’’نماز‘‘ کیا جاتا ہے، ہم بھی یہی لفظ استعمال کریں گے لیکن نماز کو محض چند حرکات و کلمات نہ سمجھا جائے، بلکہ اس سے صلوٰۃہی کا وہ وسیع مفہوم سمجھے جس کی تھوڑی سی تشریح اس وقت پیش کرنا چاہتے ہیں۔
پہلے یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ صلوٰۃ کو عموماً ہر جگہ اقامت سے وابستہ کیا گیا ہے، کہیں یقیمون الصلوۃ کہا گیا ہے اور کسی جگہ اقیمو الصلوۃ ہ اور کسی جگہ اقامو الصلوۃ وغیرہ، جہاں صلوٰۃ اقامت کے بغیر ہے، وہاں نماز پڑھا ہی سمجھنا چاہئے، مثلاً: من قبلِ صلوۃ الفجر وحین تضعون ثیابکم من الظہیرۃ ومن بعد صلوۃ العشاء (24:58) وغیرہ۔
اقامت کے معنی ہیں قائم کرنا، قائم رکھنا، یہ لفظ کسی ایسے کام کے لئے نہیں آتا جو چند منٹ کے لئے ہو اور پھر ختم ہوجائے، قرآن میں ہے، اقیمو الدین (42:13) دین قائم کرو، اس کا یہ مفہوم نہیں کہ چند منٹ یا چند دن کے لئے دین قائم رکھو، اس کے بعد ختم کردو۔
اور اقامت حدود ان یقیما حدود اللہ (2:230) کا مطلب بھی اس کا مستقل قیام ہے، واقیمو ا الوزن بالقسط (55:9) کا یہ مطلب نہیں کہ کبھی برابر تولو اور کبھی ڈنڈی مار لو، بلکہ یہ ایک مستقل کاروبار ہے۔
مختصر یہ کہ صرف نماز پڑھ لینے کا کام تو چند منٹ میں پورا ہوجاتا ہے، اس لئے اس پڑھ لینے پر لفظ اقامت صادق نہیں آتا، اقامت ایک ایسا فعل ہے جس میں قیام و دوام ہوتا ہے، گویا اقامت صلوٰۃ ایک نظام ہے جو چند منٹ بعد ختم نہیں ہوجاتا، بلکہ دوامی طور پر قائم رہتا ہے، نماز کے کلمات و حرکات ایک جزو وقتی اظہار ہے ہمہ وقتی نظام صلوٰۃ کا اور یہ ایک ایسا نظام ہے جو پوری زندگی کے اعمال وظائف کو اپنی آغوش میں سمیٹے ہوئے ہے، ایک فوجی سپاہی جب اپنی پریڈ سے فارغ ہوجاتا ہے تو اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اب یہ فوجی سپاہی نہیں رہا، وہ بہرحال ہمہ وقتی سپاہی ہے، پریڈ سے پہلے بھی پریڈ کے وقت بھی اور پریڈ کے بعد بھی۔
اسی طرح ایک نمازی صرف اس وقت نمازی نہیں رہتا، جب وہ نماز پڑھ رہا ہوتا ہے، وہ پڑھنے سے پہلے، پڑھنے کے دوران اور پڑھ چکنے کے بعد ہر حال میں نمازی ہے، کیونکہ اس کی پوری زندگی نماز ہے، اگر وہ مومن و مسلم ہے، اگر نماز پڑھنے سے پہلے اور بعد میں ان کی زندگی نماز نہیں تو اس کی نماز صرف پڑھ لینا تو ہے لیکن اقامت صلوٰۃ نہیں۔
صلوٰۃ کو قرآن نے جہاں نماز پڑھنے کے معنی میں لیا ہے، وہاں اس کا ایک بہت وسیع مفہوم بھی لیا ہے اور یہ معنی اقامت صلوٰۃ کے مفہوم سے قریب ترین رشتہ رکھتا ہے۔
ارشاد قرآنی ہے کہ :

’’یعنی کیا تم دیکھتے نہیں کہ جو بھی زمین و آسمان میں ہے وہ اور پروں کو پھیلائے ہوئے پرندے سب اللہ کی تسبیح کرتے ہیں، یہ سب کے سب اپنی صلوٰۃ اور تسبیح سے واقف ہیں اور یہ جو کچھ کرتے ہیں اللہ اسے جانتا ہے۔‘‘
ذرا سوچئے، کیا یہ اڑتے ہوئے پرندے وضو کرتے ہیں؟ اذان کہتے ہیں؟ قبلہ رو ہوکر نیت باندھتے ہیں؟ قیام، رکوع، قومہ، سجود، تشہد کرکے سلام پھیرتے ہیں؟ یقیناً نہیں، پھر ان کی نمازکا کیا مطلب ہوا؟ ظاہر ہے کہ ان کی صلوٰۃ کا مطلب فرائض وجود کی ادائیگی ہے جو ان کی اپنی اپنی جبلت و فطرت کے مطابق ہوتی ہے، ٹھیک اسی طرح انسان کی صلوٰۃ کا مطلب بھی اس کے فرائض زندگی کی ادائیگی ہے اور یہی اقامت صلوٰۃ کا مفہوم ہے، محض صلوٰۃ یا نماز پڑھنا صرف ایک حصہ ہے اس پورے نظام اقامت کا جس کا تعلق انسان کی اختیاری زندگی سے ہے، وہ سپاہی کبھی سپاہی تصور نہیں کیا جاسکتا جو پریڈ میں حاضر ہوجایا کرے، لیکن نہ تو سپاہی کی زندگی اختیار کرے اور نہ سپاہی کے فرائض ادا کرے، مومن اللہ کا سپاہی ہے اور اس کا حال بھی اس سپاہی سے مختلف نہیں۔غرض فرائض زندگی میں صرف نماز پڑھ لینا نہیں ہے، بے شمار دوسری چیزیں بھی ہیں، چوبیس گھنٹوں کی تمام نمازیں زیادہ سے زیادہ دو چار گھنٹے لے سکتی ہیں، باقی بیس بائیس گھنٹے کیا صلوٰۃ سے خالی رہنے چاہئیں؟ اگر وقت کا یہ بڑا حصہ صلوٰۃ سے خالی ہو اور صرف فرض و نفل نمازیں ادا کرلی جائیں تو ادائے صلوٰۃ تو شاید ہوجائے لیکن اقامتِ صلوٰۃ نہیں ہوسکتی۔ اقامت صلوٰۃ تو وہ پورا نظام ہے جس کی اقامت ساری زندگی کے وظائف و اعمال پر حاوی و محیط ہوتی ہے۔
دوسرے لفظوں میں اسے یوں کہئے کہ صلوٰۃ میں وہ تمام ذرائع و وسائل بھی داخل ہیں جو صلوٰۃ تک پہنچاتے ہیں یا جن کے بغیر ادائے صلوٰۃ نہیں ہوسکتی، اور اس صلوٰۃ میں وہ تمام مقاصد و نتائج بھی شامل ہیں جن کی تکمیل بذریعہ صلوٰۃ ہوتی ہے (بشکریہ: طلوع اسلام)۔

مزید :

ایڈیشن 1 -