مہنگی روٹی اور پنجاب کے وزیر صنعت کی سیاست

مہنگی روٹی اور پنجاب کے وزیر صنعت کی سیاست

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پنجاب کے وزیر صنعت و تجارت و سرمایہ کاری اسلم اقبال نے کہا ہے کہ اگر نان بائی ایسوسی ایشن نے روٹی کی قیمت بڑھائی تو مَیں احتجاجاً سیاست چھوڑ دوں گا،انہوں نے اعلان کیا کہ روٹی اور نان کی قیمت نہیں بڑھائی جا رہی، بہت جلد نان بائی ایسوسی ایشن کے عہدیداروں سے ملاقات کروں گا اور اُن کے تحفظات دور کروں گا،ایف بی آر کے چیئرمین شبر زیدی نے آٹے اور میدے پر سیلز ٹیکس کے نفاذ کی تردید کی ہے۔ تاہم لاہور کے تنور مالکان نے از خود روٹی کی قیمت میں چار روپے اور نان کی قیمت میں 3روپے اضافہ کر دیا ہے،جس کے بعد لاہور میں روٹی10 روپے اور نان 15روپے میں فروخت ہونا شروع ہو گیا ہے، اور اعلان کیا گیا ہے کہ آئندہ چند روز میں روٹی 15اور نان20روپے میں فروخت ہونے لگے گا، نان بائی ایسوسی ایشن نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ اگر حکومت نے پکڑ دھکڑ کی یا جرمانوں کا حربہ اختیار کیا تو 23جولائی سے ہڑتال کی جائے گی۔
روٹی اور نان کی قیمت میں تو عملاً اضافہ ہو چکا ہے،اب وزیر صنعت کی اپنی مرضی ہے کہ وہ سیاست چھوڑتے ہیں یا نہیں،لیکن اس طرح کے اعلانات بھی عموماً سیاسی ہی ہوتے ہیں،کیونکہ سادہ سی بات ہے کہ اگر آٹے اور میدے کی قیمت بڑھے گی،تنوروں کو ملنے والی گیس کی قیمت بڑھائی جائے گی یا جو تنور لکڑی کوئلہ وغیرہ جلاتے ہیں اگر انہیں یہ اشیا مہنگی ملیں گی تو لامحالہ اس کا نتیجہ مہنگی روٹی کی شکل ہی میں نکلے گا،کسی انتظامی حکم کے ذریعے مصنوعی طور پر روٹی کی قیمتیں پرانی سطح پر قائم نہیں رکھی جاسکتیں، شدید گرمی کے اس موسم میں نانبائی جلتی آگ کے سامنے بیٹھ کر تنوروں پر روٹیاں لگاتے ہیں وہ اگر مالک ہیں تب بھی اور اگر ملازم ہیں تو بھی،دونوں صورتوں میں وہ اپنے اس کاروبار سے تھوڑی بہت کمائی ہی کرنا چاہیں گے ورنہ اُنہیں پاگل کتے نے نہیں کاٹا کہ 45 درجے سنٹی گریڈ کی گرمی میں تنور کے سامنے مسلسل بیٹھ کر روٹیاں پکائیں اور پھر ایسی قیمت پر فروخت کریں جس سے انہیں کچھ حاصل نہ ہو،روٹی آٹے کے بغیر نہیں پکائی جا سکتی، جس قیمت پر نان بائیوں کو آٹا ملے گا اور آٹے کو روٹی کی شکل دینے کے لئے انہیں جن جن مراحل سے گزرنا ہو گا اور اس پر جو جو اخراجات اٹھیں گے ان سب کا حساب لگا کر ہی روٹی کی قیمت متعین ہو گی،اگر ایف بی آر کا یہ دعویٰ درست ہے کہ اس نے آٹے اور میدے پر سیلز ٹیکس نہیں لگایا تو پھر سوال یہ ہے کہ آٹے اور میدے کی بوری مہنگی کیوں ہو رہی ہے، آٹے کے مل مالکان کا موقف ہے کہ سلز ٹیکس بڑے وزن کی بوری پر لگا ہے جو نانبائی یک مشت دس بیس(بعض صورتوں میں اس سے بھی زیادہ) کی تعداد میں خرید لیتے ہیں، کیونکہ انہیں روزانہ چند بوریوں کی ضرورت ہوتی ہے،گھریلو استعمال کے چھوٹے تھیلوں (20 کلو/ 10کلو) پر سیلز ٹیکس نہیں لگا۔
نانبائی اگر چاہیں تو دس یا بیس کلو کے تھیلے خرید کر سٹور کر سکتے ہیں جن پر سیلز ٹیکس نہیں لگا،لیکن پھر انہیں الگ سے گودام کی ضرورت ہو گی، جو اکثر نان بائیوں کے پاس نہیں ہوتے، صرف لاہور میں 17ہزار نانبائی ہیں جو صبح، دوپہر اور شام کے اوقات میں روٹی اور نان اپنے تنوروں پر پکاتے ہیں،آٹے کی قیمت معمولی بڑھے تو وہ وزن میں ڈنڈی مار کر تھوڑی بہت کسر پوری کر لیتے ہیں اور آٹے کی چند روپے کی مہنگائی پر عموماً قیمت نہیں بڑھاتے، قیمتوں میں اضافہ اس وقت ہوتا ہے جب یا تو آٹے کی قیمتیں زیادہ بڑھ جائیں یا پھر گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے، حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی گیس کی قیمت بڑھا دی تھی اور سلیب سسٹم کی وجہ سے سردیوں میں لوگوں کو معمول سے تین چار گنا سے لے کر چھ سات گنا تک زیادہ بل وصول ہوئے تو خود وزیراعظم نے ان لوگوں کے ساتھ ”اظہارِ ہمدردی“ کیا اور اعلان کیا کہ زائد بل واپس کئے جائیں گے،لیکن گیس اور پٹرولیم کے وزیر کا تو محکمہ بدل گیا، لوگوں سے زیادہ وصول کئے بل واپس نہیں ہو سکے،اب پھر موسم سرما میں نہ جانے کیا حشر ہو۔
پشاور میں نان بائیوں نے پہلے ہی ہڑتال کر رکھی ہے،جہاں گھروں میں روٹی پکانے کا رواج کم ہے اور زیادہ تر لوگ بازار سے مختلف اقسام کے نان یا روٹی ہی خرید کر استعمال کرتے ہیں۔ اس صوبے میں لاکھوں افغان مہاجرین اب بھی مقیم ہیں ان کی خیمہ بستیوں یا جہاں جہاں شہروں کے اندر اُن کی آبادی ہے وہاں افغان روٹی پکانے کے تنور لگے ہیں،پنجاب کے تنوروں پر تو روٹی کا پیڑا اندازے سے بنایا جاتا ہے، جبکہ پشاور میں نان کے وزن کا اہتمام اِس حد تک کیا جاتا ہے کہ نان یا روٹی بنانے سے پہلے ہر پیڑے کا باقاعدہ اہتمام کے ساتھ وزن کیا جاتا ہے،اِس لئے آٹے کی قیمت میں اضافے کا نان کے وزن سے براہِ راست تعلق ہے، پنجاب میں جس طرح آٹے کی مہنگائی کی وجہ سے نان چھوٹا ہوتا جاتاہے، پشاور میں ایسا ممکن نہیں،اِس لئے وہاں نان بائی خصوصی طور پر قیمت میں اضافے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ایک خیال یہ ہے کہ اگر بیس اور دس کلو کے تھیلوں کی قیمت نہیں بڑھائی گئی تو بوریوں کی قیمت بڑھانے میں کیا مصلحت ہے،انتظامیہ کی محدود سوچ اس جانب رہنمائی کرتی ہے کہ چھوٹے تھیلے گھروں میں استعمال ہوتے ہیں اِس لئے اُن کی نسبت بڑی بوریوں کی قیمت بڑھائی جائے جو کاروباری سرگرمی کی ذیل میں آتے ہیں، گویا منافع بخش یہ کاروبار ہے، جس کو ”ٹیکس نیٹ“ میں لانا ضروری ہے، لیکن لگتا ہے اس سلسلے میں بھی پورے زمینی حقائق کو پیش ِ نظر نہیں رکھا گیا یا پھر بوریوں کی قیمتیں بڑھانے کی تجویز دینے والوں کو اس کی خبر ہی نہیں کہ لاہور میں لاکھوں دیہاڑی دار مزدور ایسے ہیں جن کا تعلق دوسرے شہروں خصوصاً جنوبی پنجاب سے ہے، آج کل تو خیر لاہور میں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہو رہا، جن دِنوں ہو رہے تھے تو ہر طرف ایسے مزدور کام کرتے نظر آتے تھے جو مظفر گڑھ، ڈیرہ غازی خان، تونسہ وغیرہ کے علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔یہ خصوصی طور پر مزدوری کے لئے لاہور آتے ہیں اور عموماً زیر تعمیر مکانوں ہی میں مزدوری کے بعد رات گزارتے ہیں اُن کے کھانے پینے کا انحصار انہی تنوروں پر ہے۔یہی وجہ ہے کہ چند برسوں میں لاہور میں تنوروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، اب وہ زمانے تو نہیں جب ایک آنے کی دال اور روٹی مفت مل جاتی تھی اور نہ ہی وہ زمانہ ہے کہ مزدور ایک روپے کے خرچ سے پیٹ بھر لیتا تھا اب تو دال کی پلیٹ بھی پچاس ساٹھ سے کم میں دستیاب نہیں اور جس طرح مہنگائی کا سونامی بڑھ رہا ہے۔ یہ جلد ہی ایک سو روپے تک پہنچ جائے گی، ایسے میں کم از کم دو روٹیاں کھانے والے مزدور کو بھی پہلے سے زیادہ اخراجات کرنے ہوں گے، ایسے میں اگر مزدوروں کی آمدنی بھی کم ہو جائے،مطلب روزانہ مزدوری بھی باقاعدگی سے نہ ملے اور مہینے میں آٹھ دس یا زیادہ دن بے روز گاری کی نذر ہو جائیں تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ کتنی محدود تعداد میں رقم حاصل کر پائے گا اور محض خوراک پر خرچ کر کے اس کے پاس کچھ بچے گا بھی یا نہیں، اِس لئے جو عالی دماغ آٹے کی بوری کو کاروبار کی ذیل میں رکھتے ہیں وہ ان پہلوؤں کو بھی پیش ِ نظر رکھیں۔
دُنیا بھر میں اشیائے خوردنی ٹیکس سے مستثنیٰ ہوتی ہیں، جن ممالک میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 40فیصد کے لگ بھگ ہے وہاں بھی خوراک کو خصوصی طور پر ٹیکسوں سے بچایا جاتا ہے، امریکہ جیسے ملک میں شاید ہی کسی ریاست میں اشیائے خوراک پر ٹیکس ہو اور اگر ہو تو غریب لوگوں کو مفت فوڈ سٹیمپس دی جاتی ہیں،جو وہ دکاندار کو پیش کر کے اپنی ضرورت کی اشیا خرید لیتے ہیں، لیکن لگتا ہے ہمارے جن حکام کو زیادہ ٹیکس جمع کرنے کا تازہ تازہ شوق چرایا ہے اُنہیں اِس بات کی بھی پروا نہیں کہ اُن کے اس شوقِ فضول کی زد میں اشیائے خوراک بھی آتی ہیں یا نہیں، وہ تو یہ ثابت کرنے نکلے ہیں کہ وہ عوام کی جیبوں سے زیادہ پیسہ نکالنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس ماحول میں میاں اسلم اقبال کو خبر پہنچے کہ روٹی مہنگی فروخت ہونا شروع ہو چکی ہے اور اُن کے محلے میں اُن کی ناک کے عین نیچے فروخت ہو رہی ہے، وہ روک سکتے ہیں تو روک لیں، مگر خواہ مخواہ سیاست چھوڑنے کا اعلان نہ کریں۔ ایسے سیاسی اعلان کرنے والے اور بھی بہت گزرے ہیں اُن میں ایک اضافہ اور سہی۔

مزید :

رائے -اداریہ -