سب پر وزیراعظم کی ”نظر“
سنیچر کی شام خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات اجمل خان وزیر کو اچانک وزیر اعلیٰ محمود خان نے ان کے عہدہ سے ہٹا دیا۔ ان کو ہٹائے جانے کی وجہ مبینہ طور پر ایک ٹیلی فون گفتگو ہے جو صوبائی مشیر اطلاعات کسی اشتہاری کمپنی کے چیف ایگزیکٹو سے کر رہے تھے۔ بتایا جاتا ہے اس گفتگو میں ٹیلی ویژن چینلوں کے لئے اشتہارات کی سرکاری کمپین میں کمیشن کے بارے میں بات ہو رہی تھی، وقت کے ساتھ ساتھ حقائق بھی منظر عام پر آ جائیں گے۔ اجمل خان وزیر نے اس کے بارے میں یہی کہا کہ کچھ دنوں میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ خیر، جب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گا تو اس وقت پتہ چل جائے گا کہ اس سارے مسئلہ میں دودھ کتنا تھا اور پانی کتنا۔ اتفاق کی بات ہے کچھ مہینے پہلے جب وفاقی مشیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو بھی اسی طرح اچانک ہٹایا گیا تھا تو اس وقت بھی مبینہ طور پر کمیشن کا تذکرہ ہی سننے میں آیا تھا۔ اس وقت بھی ڈاکٹر صاحبہ نے کہا تھا کہ جلد ہی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔
ہم اس وقت سے دودھ اور پانی کے علیحدہ علیحدہ ہونے کا انتطار کر رہے ہیں لیکن ڈاکٹر صاحبہ اس وقت کے بعد سے ہی منظرِ عام سے غائب ہیں۔ دیکھتے ہیں اجمل خان وزیر آگے چل کر کیا کرتے ہیں کیونکہ بہر حال وہ بھی ایک سیاست دان ہیں اور خاموشی سیاسی کیرئیر کے لئے زیادہ مفید نہیں ہوتی۔ ہر وقت خبروں میں رہنا سیاسی مجبوری ہوتی ہے اور کوئی ایسا نہ کر سکے تو آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کی طرح وہ بھی لوگوں کے ذہنوں سے محو ہو جاتا ہے۔ اجمل خان وزیر کو فارغ کئے جانے کے کچھ ہی گھنٹوں کے بعد گورنر شاہ فرمان کو بھی ہٹائے جانے کی اطلاعات گردش کرنے لگیں۔ ابھی سر دست یہ قیافہ شناسی مشکل ہے کہ یہ دونوں علیحدہ علیحدہ واقعات ہیں یا ان کا آپس میں کوئی تعلق موجود ہے۔ یہ وہی گورنر صاحب ہیں جن کی عجیب و غریب باتوں سے اکثر ان کا مذاق اڑتا رہتا تھا اور غالباً کسی مخلص مہربان کے مشورہ کے بعد سے وہ زیادہ تر چپ رہنا شروع ہو گئے تھے۔ مزاحیہ اور لال بجھکڑ ٹائپ بیانات اور توجیحات پیش کرنے میں اجمل خان وزیر کے پیش رو شوکت یوسف زئی کا بھی کوئی ثانی نہیں تھا اور ایک وقت آیا کہ وہ اپنی پارٹی اور حکومت کیلئے اکثر شرمندگی کا باعث بننے لگے تو انہیں بھی خیبرپختونخوا کے وزیر اطلاعات کے عہدہ سے ہٹا دیا گیا تھا۔
وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے اجمل خان وزیر کے ہٹائے جانے پر کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی سب پر نظر ہوتی ہے،اس لئے اجمل خان وزیر کے خلاف شکائت ملنے پر انہیں ہٹا دیا گیا۔ انقلابی اور جمہوری جدوجہد کے ماتھے کا جھومر احمد فراز مرحوم کے صاحبزادے محترم شبلی فراز اپنے والد گرامی کا نام روشن کرنے میں رات دن مصروف ہیں، لیکن ان کی مجبوری یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے انہیں جو عہدہ تفویض کیا ہے، شبلی فراز اسے ایک ہی صورت میں برقرار رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہر وقت اور موقع بے موقع اپوزیشن کے لتے لیتے رہیں۔ وزیراعظم عمران خان اپوزیشن کے خلاف جس طرح کی زبان سننا چاہتے ہیں وہ ان کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل اور پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان بھرپور استعمال کرتے رہتے ہیں۔ فواد چودھری اگرچہ اپوزیشن پر تنقید بہت کرتے تھے، لیکن ان کی گفتگو بہر حال تہذیب کے دائرہ میں رہتی تھی کہ ان کا خاندان چار پانچ نسلوں سے قومی اور صوبائی سیاست میں ہے اور یہ ان کی خاندانی تربیت کا ہے کہ وہ تنقید ضرور کرتے تھے، لیکن الفاظ کا چناؤ مناسب ہوتا تھا۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا بھی یہی مسئلہ تھا کہ پرانی سیاسی کارکن تھیں اِس لئے ان کی طرف سے اپوزیشن پر کی گئی تنقید میں ہمیشہ ایک آنچ کی کسر رہ جاتی تھی۔ وزیراعظم عمران خان کی چونکہ بقول سینیٹر شبلی فراز، ایک ایک بندے پر نظر ہوتی ہے اِس لئے وہ دونوں ان کی توقعات پر پورے نہ اتر سکے۔ اب ڈاکٹر شہباز گل عین وہی الفاظ اور زبان استعمال کرتے ہیں، جس کی وزیراعظم عمران خان ان سے توقع رکھتے ہیں۔
اجمل خان وزیر کی بطور مشیر اطلاعات خیبر پختون خوا ک کی ٹیلی ویژن پر باتیں سنتا رہتا تھا۔ اتفاق سے خیبر پختونخوا آبادی کے تناسب کے اعتبار سے پاکستان میں کورونا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ ہے۔ خیبر پختونخوا میں پچھلے سات سال سے پی ٹی آئی حکومت ہے، لیکن وہاں صحت کا شعبہ دوسرے صوبوں سے زیادہ دگرگوں حالت میں ہے۔ کورونا سے متاثر ہونے والے اور اس سے موت کا شکار ہونے والوں کی شرح خیبر پختونخوا میں باقی دو بڑے صوبوں پنجاب اور سندھ دونوں سے زیادہ ہے۔ اجمل خان وزیر کی میڈیا بریفنگ میں عام طور پر کورونا کے خلاف صوبائی حکومت کی طرف سے کئے گئے اقدامات کا ذکر ہوتا تھا اور ان کی میڈیا بریفنگ زیادہ تر کورونا کے گرد ہی گھومتی تھی۔میں نے بہت کم دیکھا کہ کسی میڈیا بریفنگ میں انہوں نے اپوزیشن کی ایسی تیسی کی ہو۔ بس کام سے کام رکھنے والا انداز تھا جس کی وجہ سے میں کبھی کبھی سوچتا تھا کہ یہ کیسا مشیر اطلاعات ہے جو اپوزیشن کے خلاف موقع بے موقع بد زبانی نہیں کر رہا۔
اب وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کی اس وضاحت کے بعد میری تسلی ہو گئی ہے کہ واقعی وزیراعظم کی نظر ایک ایک بندے پر ہوتی ہے۔ کسی بھی حکومت میں اطلاعات کے وزیر یا مشیر کی ذمہ داری عموماً حکومتی پالیسیوں کو عوام میں اجاگر کرنا اور حکومت کی اچھے انداز میں امیج بلڈنگ ہوتی ہے تاکہ لوگوں میں حکومت کے بارے میں اچھا تاثر قائم رہے اور وہ حکومتی معاملات سے مطمئن رہیں۔ البتہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت میں حکومتی کارکردگی کا دفاع اور امیج بلڈنگ ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ وفاق یا پی ٹی آئی کی حکومت والے کسی بھی صوبے میں وہی وزیر یا مشیر اطلاعات اپنی جگہ برقرار رکھ سکتا ہے جو الزام تراشی اور دشنام تراشی میں ماہر ہو اور ہر وقت اپوزیشن کو رگڑتا رہے۔ عمران خان کی حکومت کے دو سال میں یہ بات اب کھل کر واضح ہو چکی ہے۔ اجمل خان وزیر نے کرپشن کی کوشش کی یا نہیں کی، لیکن بہر حال انہوں نے اپوزیشن کو رگڑا نہیں دیا اِس لئے ان کا گھر جانا یقینی تھا۔
وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز کا میرے دل میں ان کے عظیم والد گرامی کی وجہ سے احترام ہے اس لئے ان کے کہے گئے الفاظ پر میں یقین کرتا ہوں۔ یقینا وزیراعظم عمران خان کی ایک ایک بندے پر نظر ہو گی، اسی لئے کوئی سرکاری افسر اپنی پوسٹ پر دو چار مہینوں سے زیادہ نہیں ٹک پاتا۔ سب کو معلوم ہی ہے کہ وفاق اور پی ٹی آئی کی حکومت والے دونوں صوبوں میں اعلی سرکاری افسر جن میں چیف سیکرٹری، آئی جی اور محکمانہ سیکرٹریز اور افسران شامل ہیں آئے دن تبدیل کر دئیے جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ اسے صوبائی کارستانیاں بتاتے ہیں، لیکن دیکھا جائے تو وفاق میں بھی یہی حال ہے۔ ایف بی آر اور سرمایہ کاری بورڈ جیسے اہم اداروں میں بھی دو سالوں میں پانچ پانچ سربراہ تبدیل کئے جا چکے ہیں۔ بھارت کے مرحوم وزیر اعظم پنڈٹ جواہر لعل نہرو 1950ء کی دہائی میں پاکستان میں بار بار وزیراعظم تبدیل ہونے پر پھبتی کسا کرتے تھے کہ وہ اتنی جلدی اپنی دھوتی تبدیل نہیں کرتے جتنی جلدی پاکستان میں وزیراعظم تبدیل ہو جاتا ہے۔