کپتان کو کس سے خطرہ ہے؟
مولانا فضل الرحمن کراچی میں آصف زرداری سے مل آئے ہیں تصویر میں آصف زرداری نے جس طرح خود کو کورونا سے بچانے کے لئے سخت حفاظتی اقدامات اٹھا رکھے ہیں، اس سے صاف لگتا ہے کہ ان کا مستقبل قریب میں باہر نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں، دوسری طرف مولانا فضل الرحمن ہیں جو تصویر میں کسی بھی احتیاطی تدبیر سے مبرا نظر آتے ہیں صرف اسی بات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن کی سوچ میں کتنا فرق ہے مگر اس کے باوجود مولانا فضل الرحمن کی بے چینی انہیں ٹک کر بیٹھنے نہیں دے رہی وہ مارے مارے پھر رہے ہیں کہ کسی طرح حکومت کے خلاف کسی تحریک کا سماں پیدا ہو جائے۔ وہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سے امید باندھے بیٹھے ہیں اس حقیقت کے باوجود کہ یہ دونوں سیاسی جماعتیں فی الوقت کسی عوامی حمایت سے بالکل محروم نظر آتی ہیں،
پھر ان کے ایسے نا سمجھ میں آنے والے مسائل ہیں کہ جنہیں ان کی قیادت خود بھی حل کرنے سے قاصر ہے۔ خاص طور پر مسلم لیگ ن تو بے چارگی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ شہباز شریف کو یہ خوف کھائے جا رہا ہے کہ وہ باہر نکلے تو نیب کے شکنجے میں آ جائیں گے۔ مریم نواز نے پہلے ہی چپ کی چادر اوڑھ رکھی ہے اور کبھی کبھار ٹویٹ کر کے وہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں رہ گئی دوسرے درجے کی قیادت تو وہ آئے روز بہتری ٹامک ٹوئیاں مارتی ہے مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ ایسے میں صرف مولانا فضل الرحمن ایک بے چین روح کی طرح بھٹک رہے ہیں وہ روزانہ ہی ٹی وی پر آکر قوم کو یہ وارننگ دیتے ہیں کہ موجودہ حکومت اگر مزید مسلط رہی تو ملک کا دیوالیہ نکل جائے گا۔ مگر اُن کی اس وارننگ کو خود سیاسی جماعتیں سنجیدگی سے نہیں لیتیں اور لطیفہ سمجھ کر ہوا میں اڑا دیتی ہیں۔
یہ تو ماننا پڑے گا کہ اپنا پیارا کپتان بہت خوش قسمت ہے ایسے حالات میں حکمرانی کر رہا ہے، جب اپوزیشن نام کی کوئی چیز کہیں نظر نہیں آتی۔ یوں بڑھکیں مارنے والے بہت ہیں، جی کا جانا ٹھہر گیا ہے آج گیا یا کل گیا مگر حقیقت یہ ہے کہ کپتان کے سوا واقعی اس وقت کوئی چوائس موجود نہیں حد درجہ بری پرفارمنس کے باوجود کوئی ایسا متبادل انتظام نظر نہیں آتا، جسے بروئے کار لا کے موجودہ حکومت کو چلتا کیا جائے۔ کپتان کی عوام میں مقبولیت آج بھی موجود ہے۔ اگرچہ اس میں کمی ضرور آئی ہے، خاص طور پر مہنگائی نے عوام کے جو کس بل نکال دیئے ہیں وہ اس حکومت کا سب سے منفی حوالہ ہے، لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پر عوام یہ چاہتے ہیں کہ پھر وہی لوگ آ جائیں جنہوں نے ملک کو لوٹ کر اس حال تک پہنچایا ہے یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ اب مسلم لیگ ن ہو یا پیپلزپارٹی کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ ملک میں کوئی غیر آئینی تبدیلی آئے۔ آصف علی زرداری تو بالکل یہ نہیں چاہیں گے اور انہوں نے واضع اعلان کر بھی دیا ہے کہ وہ عمران خان کی حکومت کو ختم کرنے کے حق میں نہیں۔
اصل میں قصہ یہ بھی ہے کہ اب ہمارے سیاستدانوں میں اس حد تک تو بالغ نظری آ گئی ہے کہ برا بھلا جمہوری سیٹ اپ کسی غیر نمائندہ یا غیر آئینی سیٹ اپ سے بدرجہا بہتر ہے۔ یہ بات نجانے مولانا فضل الرحمن کو کیوں سمجھ نہیں آ رہی، وہ مسلسل اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ کوئی غیبی طاقت اس جمہوری سیٹ اپ پر کلہاڑا چلائے اور کسی طرح نئے انتخابات کی صورت نکل آئے۔ وہ انتخابات کو گلی ڈنڈے کا کھیل سمجھتے ہیں، 2018ء کے انتخابی نتائج کو تو انہوں نے پہلے دن ہی مسترد کر کے نئے انتخابات کا مطالبہ کر دیا تھا لوگ آج بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر وہ خود الیکشن جیت کر اسمبلی میں پہنچ جاتے تو کبھی ایسے غیر جمہوری مطالبے نہ کرتے۔
اب لوگ اس نکتے پر بھی سوچ رہے ہیں کہ حکومت کرنے کے اتنے ساز گار حالات کے باوجود وزیر اعظم عمران خان مختلف محاذوں پر ناکام کیوں نظر آتے ہیں خاص طور پر گورننس اور معیشت کے حوالے سے ان کی کارکردگی غیر متاثر کن کیوں ہے۔ اسمبلی میں تو انہیں کوئی چیلنج درپیش نہیں حتیٰ کہ سینٹ میں بھی درپیش نہیں جہاں ان کی اکثریت بھی نہیں ہے۔ جو بجٹ بنایا اسے آسانی سے منظور کرا لیا۔ پھر ایسا کیوں ہے کہ ان کے فیصلوں میں مصلحت موجود ہے۔ چھوٹے موٹے کرداروں کو تو وہ مکھن میں سے بال کی طرح نکال دیتے ہیں جیسے انہوں نے خیبرپختونخوا کے مشیر اطلاعات اجمل وزیر کو عہدے سے برطرف کیا ہے کیونکہ ان کی کرپشن کا ایک ثبوت سامنے آ گیا تھا۔
مگر جیسے کہ اپوزیشن بھی کہہ رہی ہے کہ عمران خان بڑی مچھلیوں کو بچانے کے لئے چھوٹی مچھلیوں کی قربانی دیتے ہیں اور اصل کرداروں کو بچا لیتے ہیں جیسے چینی آٹے سکینڈل میں صرف پنجاب کے صوبائی وزیر سمیع اللہ کو قربانی کا بکرا بنا کر باقی سب کرداروں کو بچا لیا گیا، حالانکہ وہ عمران خان کے اردگرد بیٹھے ہیں سب اس بات کو مانتے ہیں کہ خان صاحب کی حکومت کو دو باتوں نے کمزور کیا ہے ایک بری معیشت اور دوسرا حکومت میں موجود غیر نمائندہ شخصیات، ان تمام شخصیات پر انگلیاں اٹھتی رہی ہیں۔ پاور سیکٹر کے مشیر ندیم بابر کو بالآخر عہدے سے ہٹایا گیا لیکن وہ حکومت کے امیج کو کتنا نقصان پہنچا گئے اس بارے میں عمران خان کو سوچنا چاہئے۔ وہ اس نکتے پر سوچیں کہ جب انہوں نے پٹرول سستا کیا تھا اگر وہ عوام کو کھلے عام ملتا ر ہتا تو ان کی حکومت کے بارے میں عوام کے اندر ایک خوشگوار تاثر پیدا ہوتا، لیکن پٹرول کو نایاب کر کے جو نقصان پہنچایا گیا، اس کا ازالہ مستقبل قریب میں ممکن نہیں کیونکہ عوام یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ملک میں ایک منتخب حکومت کا نہیں مافیاز کا راج ہے جو عوام کے حق میں حکومت کے ہر فیصلے کو ناکام بنا دیتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں اپوزیشن متحد ہوتی، اس کا عوام میں کوئی اثر و رسوخ ہوتا، تو اس سے زیادہ سازگار حالات نہیں مل سکتے کہ جو اس حکومت نے اپنی ناکامیوں اور حماقتوں کیو جہ سے فراہم کئے یہ تو وہ ملک ہے جہاں آٹا مہنگا ہونے پر تحریکیں چلتی رہی ہیں اور حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پڑتے، اب تو ہر روز مہنگائی کا نیا بم گرتا ہے، آٹا مہنگا ہو جاتا ہے، وزیر اعظم کے احکامات ہوا میں اڑا دیئے جاتے ہیں وزیر اعظم بھی مڑ کر نہیں دیکھتے کہ انہوں نے مہنگائی کم کرنے کے لئے جو حکم جاری کیا تھا اس کا کیا بنا۔ اپوزیشن کی ساری گردان اس جملے کے گرد ہے کہ نیب نیازی گٹھ جوڑ کی وجہ سے سیاسی مخالفین کو تنگ کیا جا رہا ہے۔ اس بیانیئے سے عوام کو کیا غرض ہے۔ وہ تو اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں کیا یہ اپوزیشن کی سب سے بڑی ناکامی نہیں کہ 25 دن عوام کو پٹرول نہیں ملا مگر اپوزیشن ایک ڈھنگ کا احتجاجی مظاہرہ نہیں کرا سکی۔ پوری اپوزیشن کے مقابلے میں جماعت اسلامی کہیں بہتر ہے کہ عوامی مفاد کے لئے احتجاج بھی کرتی ہے اور دھرنے بھی دیتی ہے۔ کراچی میں کے الیکٹرک کی بے رحمانہ لوڈشیڈنگ کے خلاف جماعت اسلامی کے دھرنے کا یہ اثر ہوا کہ وفاقی وزیر اسد عمر کو کراچی جا کے یہ اعلان کرنا پڑا کہ آج سے کراچی میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نہیں ہو گی۔ حکومت کو گھر بھیجنے کے علاوہ بھی کئی مطالبات ہوتے ہیں، جن کے ذریعے حکومت پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ عوام کو ریلیف فراہم کرے، مگر اس وقت اپوزیشن اس معاملے میں بالکل لاتعلق نظر آتی ہے۔ ایسی اپوزیشن سے وزیر اعظم عمران خان کو واقعی کوئی خطرہ نہیں مگر انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ کسی حکمران کو سب سے بڑا خطرہ اس کی بڑی کارکردگی سے ہوتا ہے اور یہ خطرہ کپتان کے گرد مستقبل منڈلا رہا ہے۔