ریاست ِ مدینہ کے قیام کی خام خیالی
یوں معلوم ہوتاہے کہ ہمارے وزیراعظم کچھ دِنوں سے ریاست ِ مدینہ کے قیام کی تکرار چھوڑ چکے ہیں۔شاید کسی سیانے نے ان کو سمجھا دیا ہے کہ آپ ہر تقریر میں ریاست ِ مدینہ کی طرز پر ریاست ِ پاکستان کی تعمیر و تشکیل کا خیال ترک کر دیں۔ وزیراعظم تاریخ کے ایک طالب علم بھی ہیں۔ وہ ایک سے زیادہ بار مختلف کتابوں کا نام لے کر پاکستانیوں کو بتا چکے ہیں کہ ان کتب کا مطالعہ کرو اور ان خطوط پر پاکستان کی تعمیر ِ نو کا فریضہ انجام دو۔
سب سے پہلے میں قارئین کو رسولِ کریمؐ کی مکہ سے مدینہ کے لئے ہجرت کی طرف لے جانا چاہتا ہوں۔کیا وجہ تھی کہ مکہ کی 13سالہ (بعد از اعلانِ نبوت) زندگی میں آپؐ کو یہ خیال نہ آیا کہ اسی مکہ کو ”ریاست ِ مدینہ“ بنا دیا جائے؟ کیا وجہ تھی کہ آپؐ کی مکی زندگی کے بے نظیر ماڈل کو دیکھ کر بھی اہل ِ مکہ اس نئے دین کو قبول نہیں کر رہے تھے؟ کیا وجہ تھی کہ کفارِ مکہ کے تیور دیکھ کر آپؐ نے نئے آفاق ڈھونڈنے کا فیصلہ کر لیا؟ جس دن آپؐ نے مکہ سے نکلنے کا فیصلہ کیا اسی رات کفارِ مکہ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کام تمام (نعوذ باللہ) کر دیا جائے۔یہی سبب تھا کہ آپؐ نے اپنے بستر میں حضرت علی ؓ کو سلایا اور حضرت ابوبکر ؓ کو ساتھ لے کر400 کلو میٹر طویل سفر پر نکل کھڑے ہوئے۔
حضرت ابوبکر ؓ کو آپؐ خود اپنے ساتھ لے گئے یا حضرت ابوبکرؓ نے اصرار کیا کہ مَیں آپؐ کو اکیلا اتنے لمبے سفر پر جانے نہیں دوں گا؟حضرت ابوبکر ؓ عمر میں حضرت محمدؐ سے بڑے تھے۔ ان کو اپنے ہمراہ پیدل سفر پر لے جانے میں کیا مصلحت تھی،اس کا علم تو ذاتِ باری تعالیٰ ہی کو ہو گا۔یہ سفر کتنے روز کا تھا۔ آپؐ نے اور حضرت ابوبکر ؓ نے راستے میں کہاں کہاں قیام فرمایا، وہاں کے لوگوں نے کفارِ مکہ کو جا کر مخبری کیوں نہ کی، ان کو سواری کے لئے کون سے جانور ساتھ دیئے یا نہ دیئے، آپؐ کھانا کہاں کہاں کھاتے رہے اور راتیں کہاں بسر کیں اور جب مدینہ پہنچے تو شہر کی بچیوں کو کس نے مطلع کیا کی نبی آخر الزماں ؐ واردِ مدینہ ہو رہے ہیں۔ اِن سوالوں کے جواب پر بھی غور کیجئے تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ اس طرح کے طویل سفر میں پوشیدگی اور اخفاء کو کیسے قائم رکھا گیا اور اگر سفرِ مدینہ کو خفیہ رکھا گیا تو اس کی الوہی وجوہات کیا تھیں؟
اور پھر جب آپؐ مدینہ تشریف لے آئے تو وہاں یہودی بھی تھے اور نصرانی بھی، ان کی آنکھوں کے سامنے آپؐ نے دائیں بائیں قبائل کے لئے سفارتیں روانہ کیں۔ پھر اگلے سال جب سن 2 ہجری میں غزوہئ بدر کے لئے روانگی ہوئی تو آپؐ کے ساتھ313 مسلمان تھے۔ ان میں بوڑھے بھی، نوجوان بھی اور نو عمر لڑکے بھی تھے۔…… ان کا کوئی اختلاف نہیں تھا اور اِدھر ہمارے پاکستان کے 22کروڑ عوام ہیں کہ جن میں اختلافات ہی اختلافات ہیں۔ ایسے میں یہ پاکستانی قوم ریاست ِ مدینہ کا خواب کیسے دیکھ سکتی ہے؟……
دوسری بات یہ تھی کہ ان313 صحابیوں میں کوئی بھی سابق فوجی نہ تھا، قبائلی طرزِ جنگ میں قائم افواج کا تصور ہی نہ تھا۔فوج اور سویلین آبادیوں میں کوئی تقسیم و تفریق نہ تھی۔ سب سویلین تھے اور سب کسی روائتی یا گوریلا طرزِ جنگ سے واقف نہیں تھے۔لیکن ساری مسلمان قوم ایک تھی اور ان کا لیڈر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ایسا قائد تھا جس نے خود کسی لڑائی یا جھڑپ میں اس سے پہلے کبھی حصہ نہیں لیا تھا۔بس آپؐ نے فیصلہ کیا اور سارے مسلمان اس فیصلے پر سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے آپؐ کے ساتھ ہو لئے۔لیکن کیا یہ ماڈل، آج کی ریاست ِ پاکستان پر منطبق کیا جا سکتا ہے؟ اگر نہیں تو عمران خان صاحب کو سوچنا چاہئے کہ وہ ریاست ِ مدینہ کے ماڈل کا ذکر بار بار کیوں کرتے ہیں؟…… وزیراعظم انصاف اور عدل کے جس نظام کا حوالہ دیتے ہیں وہ نظام313 افراد میں تو ہو سکتا تھا، 22کروڑ کی کثیر آبادی میں کہ جس میں فرقے ہی فرقے ہیں،ذاتیں ہی ذاتیں ہیں، اپنی اپنی پارٹی کے منشور ہیں، آئین کی اپنی اپنی تشریحات ہیں، تو ایسے میں اس انصاف کی صورت کیا ہو گی جو سن دو ہجری سے سن 10ہجری کے نو، دس برسوں میں تھی؟…… ریاست ِ مدینہ میں تو یکجہتی تھی، اتفاق و اتحاد تھا،ایک لیڈرؐ پر ایمانِ کامل تھا، ایک فرد دوسرے فرد پر جان قربان کرنے کو تیار رہتا تھا، مرنے مارنے کا ذکر کرنا ہو تو حضرت ابوبکر ؓ اور ان کے بیٹے کا وہ مکالمہ یاد کیجئے جب بیٹا غزوہئ بدر میں کفارِ مکہ کی طرف سے شریک ِ جنگ تھا۔ جب وہ مسلمان ہو گیا تو باپ سے کہنے لگا:”ابا جی! کئی دفعہ ایسا ہوا کہ آپ بدر میں میری تلوار کی زد میں آئے،لیکن میں نے آپ پر اس لئے وار نہ کیا کہ آپ میرے والد تھے“…… یہ سن کر حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: ”بیٹا! خدا کی قسم! اگر تم اس غزوے میں میری تلوار کی زد میں آ جاتے تو میں تمہاری گردن کاٹنے سے دریغ نہ کرتا!“…… سبحان اللہ! ایمان کی پختگی اور عزمِ صمیم کا اندازہ دیکھئے اور پھر اپنے پاکستان کو یاد کیجئے۔یہاں تو ایک خاندان میں آدھے لوگ دریا کے اس طرف ہیں اور آدھے دوسرے کنارے پر ہیں۔
ریاست ِ مدینہ کی یکجہتی اور اتحاد کہاں ہے؟ عمران خان کس ریاست ِ مدینہ کی بات کرتے ہیں؟ ان کا جذبہ بے شک صادق ہو گا، ان کا ایمان و یقین بھی بے شک اسلام کے اصولوں کے عین مطابق ہو گا،لیکن جب تک ریاست ِ مدینہ کا وہ ماحول، فضا اور وہ کیفیت ِ احوال نہیں ہو گی جو آنحضورؐ کے زمانے میں تھی اُس وقت تک اس ریاست کے ماڈل کی تقلید کیسے کی جا سکے گی؟
تیسرے اس نکتے پر بھی غور کیجئے کہ سرکارِ دو عالمؐ کے مدینہ میں ایامِ جنگ میں امام اور مبتدی میں کوئی فرق نہ تھا۔ سب کے سب جہاد کی کال پر لبیک کہتے ہوئے میدانِ کار زار میں اُتر جاتے تھے۔کیا آج پاکستان میں ایسا ماحول ہے؟…… میرے ایک دوست میجر سعید ٹوانہ مرحوم نے یہ واقعہ مجھے کئی بار سنایا کہ میں 6ستمبر 1965ء کو صدر ایوب کی تقریر سن رہا تھا۔ اس وقت ظہر کی نماز کا وقت تھا، میں کمانڈرانچیف کی تقریر سن کر سیدھا گھر پہنچا، وردی زیب تن کی(وہ فوج سے ریٹائر ہو چکے تھے) اور سیدھا محاذ کی طرف روانہ ہو گیا۔ راستے میں اتفاق سے وہ امام مسجد جن کے پیچھے میں نے نماز ادا کی تھی، مسجد سے نکل کر گھر جا رہے تھے۔ میں نے انہیں کہا: ”حضرت! آیئے، قوم آپ کو جہاد پر بُلا رہی ہے۔“…… وہ سن کر فرمانے لگے:”لڑنا جھگڑنا ہمارا کام نہیں، یہ فوج کا کام ہے۔آپ جانیں اور انڈیا جانے۔ہم اگر جنگ میں چلے گئے تو جہاد کو موٹیویشن کون دے گا؟ ہم تو قوم کو جہاد پر ابھارتے اور آپ کا حوصلہ بلند کرتے ہیں۔ہم نہیں ہوں گے تو ہمارا یہ کام کون کرے گا؟“……دورِ نبویؐ میں اس قسم کا کوئی وتیرہ یا روائت نہ تھی، ساری قوم قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہو جاتی تھی۔ کوئی محمود اور کوئی ایاز یا کوئی امام اور کوئی مبتدی نہ تھا۔ سب ایک تھے اور یہی ریاست ِ مدینہ تھی!
اب تو زمانہ بدل گیا۔فوج اور سول دو جداگانہ ادارے بن گئے۔جذبہئ جہاد تقریباً فوت ہو چکا ہے۔اب صرف وہ لوگ اپنے بچوں کو فوج میں بھیجتے ہیں جو خود شوقِ شہادت سے سرشار ہوتے ہیں۔کیا کسی سیاست دان یا کسی وزیر کو آپ نے دیکھا کہ اس نے اپنے بچوں کو فوج میں بھیجا اور ریاست ِ مدینہ کی روایات کی پیروی کی؟
چوتھے یہ کہ ریاست ِ مدینہ کتنی دیر تک چل سکی؟ خلافت راشدہ کا عرصہ صرف32برس ہے۔اس کے بعد طرزِ حکومت کیوں تبدیل ہوا؟ خلافت سے بادشاہت اور پھر آمریت سے جمہوریت تک کا سفر سینکڑوں ہزاروں برسوں پر محیط ہے۔ان برسوں میں اسلام کے نام لیواؤں نے کیا کیا چغے اور چولے نہیں بدلے اور کیا کیا روپ نہیں دھارے۔آپ گردشِ ایام کو پیچھے کی طرف دوڑا بھی دیں تو وہ لوگ جو1450 برس قبل مدینہ میں موجود تھے، وہ آج پاکستان میں کہاں سے ہاتھ آئیں گے؟
ہاں اگر وزیراعظم نے ریاست ِ مدینہ کی طرف مراجعت کرنی ہے تو اس کے اصول و ضوابط کی روح کو سمجھیں اور اس کو آج کے ماحول میں رکھ کر عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ کا وہ تصور پیش کریں جس کا لب ِ لباب مبنی بر انصاف و عدل ہو۔…… اس نکتے پر گہرے غورو فکر کی ضرورت ہے۔خدارا ہر دوسرے روز ریاست ِ مدینہ کی رَٹ لگا کر جگ ہنسائی سے گریز کیجئے۔