محکمہ پولیس اندرونی سیاست کا شکار
پنجاب پولیس اوربیوروکریسی میں رسہ کشی اور"لیگ پولنگ" عروج پر، کوئی بھی افسر ایک جگہ ٹِک کر کام کر نہیں کر سکتا، اسی رسہ کشی کے باعث پولیس افسران اور بیوروکریسی کے تقررو تبادلوں کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔پنجاب پولیس اور بیوروکریسی میں اس وقت کئی گروپ کام کر رہے ہیں، ان گروپس میں کئی افسران وزیر اعلی پنجاب کو اور کئی افسران آئی جی پولیس اور چیف سیکرٹری کو سپورٹ کرتے ہیں،پولیس میں وزیر اعلی پنجاب کے ایک پی ایس او عاطف نزیر وزیر اعلی کی ٹیم کے حامی ہیں جبکہ پی ایس او مبشر میکن آئی جی پولیس کی ٹیم کے حامیوں میں شامل ہیں جبکہ دوسری جانب میجر(ر) اعظم سلیمان خان گروپ، جواد رفیق ملک گروپ، طاہر خورشید گروپ، روحانی گروپ اور ڈی ایم جی نون گروپ بھی فعال ہیں، مذکورہ گروپس آپس میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے رہتے ہیں اور وزیر اعلیٰ کو ایک دوسرے کی شکایتیں بھی لگاتے رہتے ہیں۔آئی جی پولیس کی ٹیم میں شامل زیادہ تر افسران کا تعلق نون لیگ کے حامیوں میں شامل ہے،آئی جی پولیس پنجاب نے اپنی ٹیم کے خاص افسران کو ہدایت کر رکھی ہے کہ وہ حکمران جماعت اور اس کے اتحادیوں کے اہم عہدیداروں اوراسمبلی ممبران کا خاص خیال رکھیں تاکہ ان کے خلاف کسی کو وزیر اعلی کے ہاں شکایت کرنے کا موقعہ نہ مل سکے تاہم آئی جی پولیس کے حامی افسران بڑے سمجھ دار اور انتہا کے عقلمند ہیں انھوں نے حکمران جماعت اور اس کے اتحادیوں سمیت نون لیگ کے حامیوں کو بھی پورا پروٹوکول دے رکھا ہے تاکہ نون لیگ کے آنے پر بھی انھیں پریشانی نہ ہو جبکہ وزیر اعلی پنجاب یہ چاہتے ہیں کہ تمام آفیسر عمران خان کے ویژن کے مطابق میرٹ کا خاص خیال رکھیں،چاہے سفارشی کاتعلق حکمران جماعت سمیت کسی بھی جماعت سے ہوغلط کام نہ کیا جائے۔آئی جی پولیس پنجاب پی ٹی آئی سمیت کسی بھی اتحادی جماعت کو ناراض نہیں کر نا چاہتے وہ اپنی مدت ملازمت ہر صورت بطور آئی جی پولیس مکمل کر نا چاہتے ہیں۔
سب سے افسوس ناک صور حال یہ ہے کہ وزیر اعلی پنجاب اور بیوروکریسی میں مکمل طور پر ہم آہنگی نہیں پائی جاتی جس سے اداروں میں تصادم کی فضا قائم ہے،مبصرین اسے وزیر اعلی پنجاب کی ناکامی قرار دے رہے ہیں۔ درحقیقت اداروں کی تباہی کا سبب قابل افسران کو فیلڈ میں تعینات کر نے کی بجائے دفاتر میں بٹھا دیا گیا ہے بہت سارے ایسے افسران بھی ہیں جن کے ساتھ نون لیگ اپنے دور اقتدار میں ناانصافی کرتی رہی اوراب پی ٹی آئی کے دور میں بھی ان کے ساتھ نا انصافی کا عمل جاری ہے یہ ہی وجہ ہے کہ اداروں میں سیاسی مداخلت کے بڑھ جانے سے ادارے تباہ ہو کر رہ گئے ہیں۔کوئی اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے چکر میں اور کوئی پوسٹنگ ٹرانسفر کے چکر میں لگا ہوا ہے، ادارے کی سر بلندی کی کسی کو پرواہ نہیں لیکن تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی جاوید اقبال کے پاکستان میں بطور آئی جی پولیس کام کرنے سے آج بھی ہر کوئی ان کی تعریف کرنے پر مجبور ہے جبکہ مشتاق سکھیرا کی تعیناتی نے ادارے کا جو بیڑا غرق کیا اسے بھی کوئی بھولنے کو تیار نہیں، کیپٹن عارف نواز کی کمانڈ پر جوانمردی بھی فورس اور دلیر آفیسر کے لیے کسی فخرسے کم نہیں موجودہ آجی پولیس کو بھی ایسے کام کرنے چاہیں کہ ادارے کا سر فخر سے بلند رہے سابق سی سی پی او لاہور بی اے ناصر کو بھی کئی ایک تجزیہ نگاروں نے بڑا تنقید کا نشانہ بنایا تھا مگر انھوں نے کسی کی پرواہ کیے بغیر اپناکام جاری رکھا اور بلیک میلنگ میں نہیں آئے آج وہ ہی لوگ ان کے دور کو اچھا گردانتے ہیں کہ ان کے ادوار میں کسی کو قانون کو ہاتھ میں لینے کی جرات نہ ہوسکی ان کے ادوار میں قانون ہاتھ میں لینے پرسابق وزیر اعلی شہباز شریف پر دہشت گردی کے مقدمات بھی درج کیے گئے نوازشریف کی ریلی پر بھی کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی جرات نہ ہوئی۔آئی جی پولیس خود کواس عہدے کا اہل سمجھیں اپنی تعیناتی میں ایسا کام کرکے دکھائیں کہ لوگ اور یہ فورس آپ کو ہمیشہ اچھے الفاظ میں یاد رکھیں ورنہ تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی ویسے اس حکومت میں کسی کو ساتھ ماہ سے زائد کام کرنے کا شرف حاصل نہیں ہے جتنے دن جس کا جہاں رزق اور سفر لکھا ہے اسے کوئی ختم نہیں کر سکتا۔
ذوالفقار حمید کو لا ہور میں کام کرنے کا اور اشفاق احمد خان اور ایس ایس پی فیصل شہزادکو آپریشنل میں کام کرنے کا خاصا تجربہ حاصل ہے،یہ سب دیانت دار اور محنتی پولیس آفیسرز ہیں ہمیں ان کے تجربات سے فائد ہ اٹھانا چاہیے وزیر اعلی پنجاب اور آئی جی پولیس پر لازم ہے کہ وہ اپنی فورس،ادارے کی ویلفیئر کے ساتھ لوگوں کی مشکلات کا خاص خیال رکھیں رب کریم کی زات آپ کا خیال رکھے گی وزیر اعلی پنجاب کو اس بات کا بھی نوٹس لینا چاہیے کہ جو آفیسرز سابق حکمرانوں کے دور میں زیر عتاب رہے ہیں اب ان کے ساتھ ناانصافی کیوں ہو رہی ہے پنجاب میں حکومت نے محدود مدت میں چار آئی جی تبدیل کیے، کلیم امام نگران حکومت میں آئی جی تعینات ہوئے، ان کے ایک ماہ بعد محمد طاہر، پھر انہیں ہٹا کرامجد جاوید سلیمی اور ان کے کچھ ہی عرصہ بعد عارف نواز کو آئی جی تعینات کیا گیا، انہیں بھی چند ماہ بعد ہی ہٹا کر شعیب دستگیر کو تعینات کردیا گیا لیکن اب بھی آئے روز آئی جی کے تبادلوں کی افواہیں سنائی دیتی ہیں پرنسپل سیکرٹری ٹو وزیر اعلیٰ بار بار تبدیل ہو ئے ہیں۔ پنجاب میں اس وقت غیر یقینی کی صورتحال ہے اور کسی افسر کو کوئی پتہ نہیں کہ کب اور کیسے وہ بیوروکریسی کی اندورنی سیاست کا شکار ہو جائے۔حکمران جماعت نے ایڈیشنل آئی جی پولیس انعام غنی کو جنوبی پنجاب میں بطور پولیس سربراہ بنانے کا اچھا فیصلہ کیا ہے وہ ایک تجربہ کار آفیسرز ہیں ان کی تعیناتی عوام اور حکمران جماعت کے لیے خوش آئند ثابت ہو گی۔اسی طرح آئی جی پولیس کی ہدایت پر آرپی او گوجرانوالہ ریاض نزیر گاڑھا اور نئے سی پی او گوجرانوالہ رائے بابر سعید کی تعیناتی بھی حکومت اور وہاں کی عوام کے لیے بہتری لائے گی سب سے اہم بات کہ آئے روز سوشل میڈیا پر آرپی او گوجرانوالہ ریاض نزیر گاڑھا کی تبدیل ہونے کی خبریں گردش کرتی رہتی ہیں فی الحال وہ کہیں نہیں جارہے وہ ایک دیانت دار اور انتہائی محنتی ہونے کے ساتھ محب الوطن اور پیشہ وارانہ مہارت کے حامل آفیسرز ہیں آئی جی پولیس پنجاب اور وزیر اعلی پنجاب نے مل کر ان کی تعیناتی کی ہے ان کو تبدیل کیے جانے کی خبریں بالکل جھوٹی اور بے بنیاد ہیں۔