پسند کی شادی: ایک شخص قتل، دولہا بھائی سمیت زخمی
لاہور پولیس کی ناکامی نہیں تو اور کیا ہے کہ معاشرہ بحیثیت ِمجموعی بے پناہ حد تک عدم تحفظ کا شکار ہوچکا ہے۔شہروں، دیہاتوں، جنگلوں اور ویرانوں میں چہار دانگ، جابجاڈاکو، راہزن، چور، موالی اور دیگر ہر طرح کے جرائم کارعناصر آزاد اور بے لگام دندناتے پھرتے ہیں اوراپنی من مانیوں میں مگن پولیس ایسے مجرموں کی بلاجھجک پشت پناہی کرتی نظر آتی ہے۔ بااثر مجرموں، سیاستدانوں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور صنعتکاروں کے ساتھ پولیس کے کارندوں کی بخشیش و تحائف کی روایت اور پولیس افسران کی اپنے ان آقاؤں پر نوازشات کی ثقافت ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے دیسی بھنگڑے کی انگلش بِیٹ پر دیوانہ وار ناچ رہی ہیں۔ ریاست کے تمام پولیس اسٹیشنز تھانیداروں کے ذاتی ڈیروں اور تھوک پرچون کی دکانوں کا روپ دھارچکے ہیں۔وہاں صرف ان ہی کی داد رسی ہوتی ہے جن کی یا تو کوئی بہت بڑی سفارش ہو یا ان کی جیبوں میں نوٹوں کی گڈیاں چمکتی ہوں‘ اس کے بغیر ان دکانوں پر جو بھی جاتا ہے سوائے بے عزتی اور بدسلوکی کے کچھ نہیں پاتا۔یہ وطیرہ بھی پولیس ہی کا ہے کہ مخالف پارٹیوں سے رقم ان ہی مظلوم اورکمزور لوگوں کو چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کر کے گھروں سے اٹھالیا جاتا ہے اور ان پرناکردہ جرائم ڈال کر بڑے بڑے خطرناک مقدموں میں پھنسا دیا جاتا ہے جن میں کچھ تو اپنے گھر بار بیچ کر جان بخشی کروالیتے ہیں اور بعض عمر بھر جیلوں میں سڑتے رہتے ہیں، یا پھر پولیس تشدد اور مقابلوں میں ماردیے جاتے ہیں جب کہ اصل مجرموں کو تفتیشوں اور انکوائریوں میں پاک دامن ثابت کرکے قانون کے شکنجوں سے بچا لیا جاتا ہے۔پولیس میں اکثر و بیشتر ناجائز اختیارات استعمال کرنے والوں کی اعلیٰ حکام کی طرف سے حوصلہ افزائی انہیں مزید شیطانیاں کرنے کی طرف راغب کرتی ہے، اور کبھی کبھار معمولی سی ڈانٹ ڈپٹ بھی رسمی طور پر ہوجائے تو ہوجائے۔ آجکل افسران ِبالا کی اسی طرح کی سرزنش سے بچنے کے لیے کوئی بھی تھانہ ڈکیتی کی ایف آئی آر کاٹنے کو تیار نہیں بلکہ صریحاً ڈکیتی کی وارداتوں کو بھی چھوٹی موٹی چوریوں کی وارداتوں میں تبدیل کردیا جاتا ہے، اور یہی اگر کسی کے خلاف انتقامی کارروائی مطلوب ہو تو معمولی سی چوری کو بھی خطرناک ڈکیتی کا رنگ دیدیا جاتا ہے۔ مقدمات کا اندراج بغیر رشوت کے ممکن نہیں رہا۔ رشوت تو اب پولیس کلچر کا اٹوٹ انگ بن چکی ہے۔
باہر حال اس بگڑے ہوئے نظام کو درست سمت لے جانا میرے بس کی بات نہیں قارئین کی نظر شیخوپورہ فیصل آباد روڈ پر قائم تھانہ بھکھی کی حدود میں واقع قصبہ نواں کوٹ میں قتل کی ایک لرزہ خیز واردات کی روداد پیش کرنے جا رہا ہوں شائد کسی فرض شناس پولیس آفیسر، یا نیا پاکستان اور ریاست مدینہ بنانے والی حکومت کے کسی دعویدار کی نظر اس تحریر پر پڑ جائے اور غریب خاندان کی دادرسی ہو جائے۔ واقعات کے مطابق نواں کوٹ کی رہائشی شعبان کی بھابھی اور اس مقدمہ کی مدعی فرزانہ بی بی کے بقول اس کے دیور شعبان نے شیخوپورہ کے محلہ رحمان پورہ کی رہائشی لڑکی سے 29.2.2020 کو کورٹ میرج کی اور دونوں نے فیصلہ کیا کہ وہ دونوں اپنی زندگی کی شروعات اپنے والدین اور رشتہ داروں کی مرضی سے ہی کریں گے،لڑکی اپنے گھر چلی گئی جہاں اس نے اپنے والدین کو بتایا کہ اس نے اپنی مرضی سے نواں کوٹ کے رہائشی نوجوان شعبان سے پسند کی شادی کر لی ہے اور اسی کے ساتھ زندگی بسر کرے گی جس پر لڑکی کے والدین اور بھائی نے طیش میں آ کر لڑکی پر زندگی تنگ کر دی اور اپنے دیگر عزیز و اقارب سے ہم مشورا ہو کر لڑکے کو شادی کرنے کا سبق سیکھانے کی ٹھان لی جس کے بعد انہوں نے بڑے منظم طریقہ کار سے ایک گروپ ترتیب دیا اور اس دوران لڑکے کے عزیز و اقارب کو لڑکی کو طلاق دینے کا کہتے رہے اور ساتھ ساتھ لڑکے شعبان کو جانی نقصان پہنچانے کا بھی پروگرام بناتے رہے آخر کار 27.3.2020 کو چار رکنی ملزمان نے مسلح ہو کر لڑکے کو جان سے مارنے کی خاطر رات گئے حملہ آور ہو گئے اور تاریکی میں نوجوان شعبان اور اس کے بھائی عرفان کو مار مار کر شدید زخمی کر دیا گیا وقوعہ کی اطلاع ہیلپ لائن 15 پر دی گئی پولیس نے دونوں زخمیوں کو سرکاری وین میں بٹھا کر میڈیکل رپورٹ طلب کی میڈیکل رپورٹ موصول کرنے کے بعد نا تو ملزمان کے خلاف مقدمہ کا اندراج کیا گیا اور نا ہی کسی ملزم کو تھانہ میں بلانے کی زحمت کی گئی اس دوران زخمی ہونے والے دونوں لڑکوں کے ورثاء تھانہ کے چکر لگا لگا کر تھک گئے مگر پولیس نے ایک نا سنی آخر کار ملزمان نے دوبارہ مورخہ 19.4.2020 کی رات لڑکے پر رات گئے حملہ کیا اس دوران محلے داروں کے جاگ جانے کی وجہ سے کسی قسم کا بڑا نقصان ہونے سے بچ گیا ارادہ قتل کی نیت سے کئے جانے والے اس دوسرے حملہ کی بابت بھی ایس ایچ او تھانہ بھکھی عمر شیراز گھمن کو مل کر بتایا گیا اور ملزمان کے گرد گیرہ تنگ کرنے کی استدعا کی گئی مگر پولیس جو کہ ملزمان کے ساتھ مکمل ساز باز کر چکی تھی کو تحفظ دیتے ہوئے اس واردات کا مقدمہ بھی درج نا کیا اور الٹا مدعی پارٹی کو ہی برا بھلا کہا گیا اور لڑکے پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ لڑکی کو فوری طلاق دے کر اس کے والدین اور رشتہ داروں سے معافی مانگ لے اس دوران ملزمان نے کورٹ میرج کرنے والی لڑکی (ز) جو کہ ان کی تحویل میں ہی تھی کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور لڑکے سے بذریعہ عدالت طلاق لینے پر مجبور کیا گیا لڑکی کے انکار کرنے پر ملزمان نے لڑکی کو قتل کرنے کا پروگرام بنایا جس کے بعد چاروں اطراف سے مایوس ہو کر اور پولیس رویہ سے تنگ آ کر کورٹ میرج کرنے والے جوڑے نے فرار ہونے کا پروگرام بنا لیا جو 11.5.2020 کو فرار ہو کر روپوش ہو گئے جس کے بعد ملزمان زاہد جو کہ لڑکی کا بھائی ہے نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ دن دیہاڑے نواں کوٹ جا کر لڑکے کے رشتہ داروں کو قتل کی دھمکیاں دیں اور فوری لڑکی واپس کرنے کا کہا لڑکی اور لڑکا جو کہ روپوش ہو چکے تھے جن کے بارے کسی کو علم نا تھا لڑکی اور لڑکے بارے معلومات نا ملنے اور لڑکی کے واپس نا کرنے پر رنجش دل میں رکھتے ہوئے ملزمان زاہد علی، عنصر علی ورک، افتخار عرف شوکت اور تین نامعلوم ملزمان نے مورخہ 15.5.2020 کوگھر میں گھس کر شادی کرنے والے نوجوان کے بڑے بھائی محمد اکرام ولد اشرف قوم سندھوکو گولیاں مار کر زخمی کر دیا اور فرار ہو گئے اس وقت فوری ہیلپ لائن 15 پر کال کی گئی اور پولیس کی مدد طلب کی گئی پولیس نے اکرام کے زخمی ہونے کا میڈیکل کروایا اور ملزمان کو ریلیف دینے کے لئے بلا وجہ ایس ایچ او عمر شیراز گھمن مقدمہ درج کرنے میں لیت و لعل سے کام لیتا رہا اور ایک ہفتہ بعد مقدمہ کا اندراج کیا گیااور پولیس کی طرف سے ملزمان کو بجائے گرفتار کرنے کے الٹا مدعی پارٹی کو ہی پریشان کیا جانے لگایہاں تک کہ بڑی جدوجہد کے بعد مضرو ب جو کہ ہسپتال میں زندگی کی آخری سانسین گن رہا تھا کے بیان بھی بمشکل پولیس کو ساتھ لے جا کر کروائے گئے جس نے واضع طور پر ملزمان زاہد، عنصر ورک، شوکت وغیرہ کو وقوعہ ھذٰا میں شناخت کر کے نامزد کروایا تھا زخمی نوجوان اکرام اشرف جو کہ بعد میں ہسپتال میں دم توڑ گیا اس حوالہ سے مقتول کی بیوہ فرزانہ بی بی نے بتایا کہ 11 جون کو میرا شوہر وفات پا گیا تو پولیس نے مقدمہ کو قتل کی دفعات میں تبدیل تو کر لیا ہے اور ملزمان زاہد، عنصر ورک، افتخار عرف شوکت علی وغیرہ کو گرفتار کر کے تھانہ میں وی آئی پی پروٹوکول سے نوازہ جا رہا ہے اور انہیں مسلسل ریلیف پہنچانے کی غرض سے مختلف حیلوں بہانوں سے کام چلایا جا رہا ہے پولیس نے ایک نامزد ملزم افتخار عرف شوکت کو ہمیں بتائے بغیر ہی چھوڑ بھی دیا ہے اور جو ملزمان گرفتار ہیں انہیں بجائے مقدمہ میں گرفتاری ڈال کر مقدمہ کی تفتیش کو آگے بڑھانے کے ایک ماہ سے تھانہ میں مہمان بنا کر رکھا ہوا ہے جبکہ ملزمان کے دیگر ورثاء مقدمہ کی پیروی سے روکنے کے لئے ہمیں قتل کی دھمکیاں دے رہے ہیں جبکہ مقدمہ کا تفتیشی آفیسر ملک اختر جاوید اور ایس ایچ تھانہ بھکھی عمر شیراز گھمن ملزمان سے ساز باز ہو کر مبینہ طور پر بھاری رشوت وصول کر چکے ہیں جس وجہ سے وہ بھی ہمیں پریشان کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں اور ملزمان کی گرفتاری ڈال کر ان سے اسلحہ برآمد کرنے اور ا نہیں جیل بھیجنے سے انکاری ہیں مقتول کی بیوہ اور دیگر رشتہ داروں نے وزیر اعظم عمران خان، وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، آئی پولیس پنجاب، ڈی آئی جی پنجاب پولیس، اور ڈی پی او شیخوپورہ سے اپیل کی ہے کہ گرفتار ملزمان کی مقدمہ میں فوری گرفتاری ڈلوائی جائے اور مقدمہ کی تفتیش کو آگے بڑھایا جائے تاکہ انصاف کے تما م تقاضے پورے ہو سکیں، مقتول کی بیوہ فرزانہ بی بی نے یہ بھی بتایا کہ تفتیشی آفیسر ملک اختر جاوید نے مجھے پریشان کرنے کی غرض سے الٹا میرے موبائل نمبر کا ڈیٹا لے کر میری ہی تفتیش کر رہا ہے اور مجھے پریشان کر رہا ہے مجھے خدشہ ہے کہ پولیس مجھے مقدمہ کی پیروی سے روکنے کے لئے میرے کسی عزیز رشتہ دار کو ہی اس مقدمہ میں نا مزد نا کر دے کیوں کہ پولیس ملزمان سے مکمل ساز باز کر کے بھاری رقم وصول کر چکی ہے۔
٭٭٭