انہوں نے لکڑیوں کا گٹھا اُٹھایا تو دیکھنے والے حیرت زدہ رہ گئے۔ گھر میں ابھی بے شمار لکڑیاں موجود تھیں، حتیٰ کہ کافی تعداد میں غلام بھی دیکھ بھال کرنے کے لئے ہر وقت خدمت بجا لانے کے لئے تیار رہتے تھے۔ جب اِرد گرد کے لوگوں نے دیکھا تو کہا کہ اے ابو یوسف! تیرے گھر میں لکڑیاں موجود تھیں، تیرے غلام بھی اس کام کے لئے موجود تھے۔ پھر یہ تردد، مشقت اور اتنی محنت کیوں کر رہے ہیں؟ اُن کے جواب کی طرف آنے سے پہلے بتاتا چلوں کہ یہ ہستی عالم اسلام کی بے مثل اور ماہ کامل کی طرح چمکتی دمکتی شخصیت تھی۔ اسلام لانے سے پہلے حصین بن سلام کے نام سے پورے مدینہ میں مشہور تھے۔ آپؓ ایک معروف یہودی عالم تھے اور پورے مدینہ میں ان کا اثرو رُسوخ مانا جاتا تھا۔ حصین بن سلام نے اپنے وقت کو ہمیشہ تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا جن میں ایک حصہ گرجے میں وعظ و نصیحت اور عبادت میں مشغول رہتے اور دوسرے حصے میں اپنے باغ اور کھجوروں کی باغبانی کے لئے خود کو مصروف عمل رکھتے تھے،جبکہ تیسرے حصے میں تورات پر غور و تدبر کے لئے وقت مخصوص کر رکھا تھا۔ جب اسلام قبول کیا تو دونوں جہاں کے سردار حضرت محمد مصطفی ؐ نے اُن کا نام حصین بن سلام سے تبدیل کر کے حضرت عبداللہؓ بن سلام رکھ دیا۔ جب آپؓ نے اسلام قبول کر لیا تو لوگوں میں مرتے دم تک یہ بات مشہور رہی کہ ”جو کوئی کسی جنتی کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ عبداللہ بن سلامؓ کو دیکھ لے“۔
اسی طرح جب لوگوں نے آپؓ کو بے شمار لکڑیاں اُٹھاتے دیکھا تو آپؓ سے کہنے لگے کہ اے ابو یوسفؓ! تیرے گھر میں لکڑیاں اور غلام دونوں موجود ہیں مگر پھر یہ محنت اور مشقت کس وجہ سے ہو رہی ہے؟ اُن کے جواب میں حضرت عبداللہ بن سلامؓ نے فرمایا اس لئے کہ ”میں اپنے نفس کا امتحان لے رہا ہوں کہ کہیں یہ ان کاموں کو بُرا تو نہیں سمجھتا۔حضرت معین الدین چشتی اجمیری ؒ فرمایا کرتے تھے ”کہ اللہ تعالیٰ اور انسان کے درمیان ایک ہی حجاب حائل ہے، جس کا نام نفس ہے“۔ نفس ایک ایسی چیز ہے، جس کے بارے میں ہمارے اکابرین اور علماہمیشہ سے ہمیں تنبیہ کرتے رہے کہ نفس اور شیطان انسان کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ شیطان زیادہ تر نفس کو استعمال کرکے انسان پر حملہ آور ہوتا ہے۔ چند ماہ پہلے کتاب ”خود سے خدا تک“ کے چند اقتباس میری نظر سے سوشل میڈیا پر گزرے اور میں ان کو پڑھ کر متاثرہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اس کے ساتھ ہی میں نے کتاب کا آرڈر دے دیا۔ میں عام طور پر کوئی بھی کتاب پانچ یا چھ دنوں تک پڑھ کر اُس سے سیکھنے والی چیزیں اخذ کر لیتا ہوں مگر اس کتاب نے مجھے دو ماہ تک اپنی گرفت میں جکڑے رکھا۔ 90 فیصد سے زیادہ کتابوں میں صرف پند رہ سے بیس صفحے ہی پڑھنے اور ازبر کرنے کے قابل ہوتے ہیں، مگر اس کتاب نے مجھے حیرت میں مبتلا کیے رکھا۔
اس کتاب کے مصنف محمد ناصر افتخار نے قرآن پاک سے چھوٹے چھوٹے رنگین موتی چُن کر ایک لڑی میں پرو دیئے ہیں۔ اس کتاب کا بنیادی ہدف نفس کو سمجھنا، اس کی ہماری زندگی میں کیا اہمیت ہے اور اس دشمن سے ہم خود کو کیسے بچا سکتے ہیں۔ مصنف کے مطابق نفس تین بنیادی چیزوں پر مشتمل ہے، جن میں پہلی چیز جسم ہے، جس کا انحصار خوراک اور نسل انسانی پر ہے اور دوسری چیز حواس خمسہ ہیں، جس میں دیکھنا، سننا، چکھنا، سونگھنا، اور محسوس کرنا،یعنی چھونا شامل ہے۔ تیسر ی چیز ذہن ہے جو کہ جسم اور حواس خمسہ دونوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ بڑی مرغوبیت اور دل پذیری کے ساتھ مصنف نے پڑھنے والے کو ہر ایک جملے میں سوچنے اورغور و فکر کرنے پر مجبور کیا ہے۔ یہ کتاب بنیادی طور پر اُن لوگوں کے لئے ہے جو خدا کو پانا چاہتے ہیں، اُس تک پہنچنا چاہتے ہیں۔یہ کتاب موجودہ حالات کے مارے ہوئے انسان کے لیے مایوسی، پریشانی و ڈپریشن، گھروں کی ناچاقیاں، لڑائی جھگڑے، غیبت و چغلی، حسد اور ہوس وغیرہ سے نمٹنے کا ہنر سکھاتی ہے۔ اس کتاب میں بے شمار ہیرے جواہرات اکٹھے کر کے 454 صفحات میں بند کر دیئے گئے ہیں جس میں کبھی نفس تو کبھی جبلیات نفس کی باتیں ہوتی ہیں، کبھی تربیت ِ نفس اور اعلیٰ شعور تک رسائی کیسے حاصل کی جائے اُس پر مدلل قرآن و حدیث، سائنس و فلسفہ اور نفسیات کے ذریعے محمد ناصر افتخار ایک عام قاری سے لے کر آج کے ایک جدید عالم اور فلسفی کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔