معیشت یا خودداری

 معیشت یا خودداری
 معیشت یا خودداری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 پاکستان کی 75 سالہ تاریخ سیاسی بحران سے عبارت ہے آج تک کسی وزیراعظم نے پانچ سال کی مدت پوری نہیں کی کچھ عرصے سے ہم نے البتہ اتنی سیاسی پختگی حاصل کر لی ہے کہ پارلیمنٹ پانچ سال پوری کر سکے دوسری بات یہ کہ ہر دفعہ حکومت یا وزیراعظم کی چھٹی کروانے کے چکر میں ہم نے پورے سیاسی نظام اور اقتصادیات کو تہہ و بالا کیا ہے نتیجے کے طور پر ہر دفعہ آنے والی حکومت کی یہی چیخ و پکار رہی کہ ہمیں خزانہ خالی ملا ہے لہٰذا ہم سے کوئی مثبت اُمید نہ رکھی جائے، موجودہ حکومت بھی یہی دہائی دے رہی ہے کہ ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں کیونکہ سابق حکومت معیشت تباہ کر گئی ہے سابق حکومت کا بھی یہی نعرہ تھا کہ ہمیں خزانہ خالی ملا ہے۔ ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ عموماً موجودہ صورت حال پر فوکس کرکے سیاسی اور اقتصادی صورتحال کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ گویا موجودہ صورت حال سے ماضی اور مستقبل کا کوئی تعلق نہیں حالانکہ ایسا بالکل نہیں، موجودہ بحران کا ہی جائزہ لیں تو زیادہ پیچھے نہ بھی جائیں تو 2013ء اور 2018ء کے درمیان مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے معاملہ شروع کر لیا جائے تو صورتحال کافی واضح ہو جائے گی، اس حکومت کے تین سال گزرنے کے بعد وزیراعظم نوازشریف کے خلاف سپریم کورٹ میں قانونی کارروائی شروع ہوئی اور انہیں اقامہ رکھنے کی بنیاد پر معزول کرکے جیل میں ڈال دیا گیا اس ساری کارروائی پر تبصرے کی یہاں گنجائش نہیں۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو بھی ملک سے بھاگنا پڑا اگرچہ بقیہ مدت کے لیے مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم رہی اور شاہد خاقان عباسی وزیراعظم رہے لیکن اس ساری کارروائی سے کوئی احمق ہی توقع کر سکتا تھا کہ ملک کی سیاست اور اقتصادیات پر کوئی مضر اثر نہیں پڑے گا۔ اس حکومت کے ابھی دو سال باقی تھے تو اُس وقت اقتصادی ترقی کی رفتار 5.7 تھی اور موڈیز عالمی بینک اور اکانومسٹ جیسے ادارے یہ پیش گوئی کر رہے تھے کہ آئندہ عشرے میں پاکستان دنیا کی بیسویں بڑی معیشت بن سکتا ہے۔ پھر 2018 ء کے انتخابات میں عمران خان آ گئے تو انہیں روایتی طور پر خزانہ خالی ملا اور ملک کی جی ڈی پی صفر یا ایک فیصد تک جا پہنچی۔ ساڑھے تین سال کے بعد یہی جی ڈی پی پھر ایک دفعہ 6 فیصد تک آ پہنچی توپھر عمران خان کو فارغ کر دیا گیا لہٰذا اب پھر بے یقینی کی کیفیت طاری ہے اور موجودہ حکومت ”خالی خزانے“ کے ساتھ ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔


ملک کا ہر شہری اس صورت حال سے پریشان ہے اور اس سوچ میں گم ہے کہ آخر اس صورت حال کا حل کیا ہے؟ عام طور پر لوگ سیاستدانوں کو ہی مطعون کرتے ہیں اور کم از کم اس وقت کرپشن کو سارے مسئلے کی جڑ سمجھتے ہیں۔ عمران خان کی حکومت اسی بیانیے کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی کہ وہ تین ماہ میں کرپشن کا خاتمہ کر دیں گے اور لُوٹا ہوا پیسہ واپس لائیں گے اس سے ملک کے تمام معاشی مسائل ہمیشہ کیلئے حل ہو جائیں گے کاش ایسا ہو جاتا لیکن نعروں اور خوابوں پر تو کوئی پابندی نہیں، زمینی حقائق بڑے تلخ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کرپشن پاکستان کا مسئلہ نمبر 1 نہیں بلکہ سیاسی عدم استحکام اور نتیجے کے طور پر پالیسیوں میں عدم تسلسل سب سے بڑا مسئلہ ہے اب سیاسی عدم استحکام کا کون ذمہ دار ہے، کون حکومتیں توڑتا ہے اور کون نئے چہرے متعارف کراتا ہے میرے خیال میں اب یہ باتیں کوئی راز نہیں رہیں، ہماری قسمت کا فیصلہ کرنے والوں کی طرف سے ایک حل اکثر یہ پیش کیا جاتا ہے جس کا ایک بار پھر چرچا ہو رہا ہے وہ یہ کہ سیاستدان نالائق اور کرپٹ ہیں اور یہ ملک کی تباہی کے ذمہ دار ہیں لہٰذا مسئلے کا حل یہ ہے کہ کم از کم تین سال کے لیے قابل اور ایماندار ٹیکنکو کریٹس پر مشتمل حکومت بنائی جائے تاکہ سیاست اور اقتصادیات کو ہمیشہ کے لیے درست بنیادوں پر استوار کیا جا سکے اس خوبصورت تجویز کی راہ میں آئین رکاوٹ ہے لیکن اس آئین کو ہم نے ماضی میں کھلونا ہی بنائے رکھا ہے ایک دفعہ پھر سہی۔ یہ حل تو انہی کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے جو ہماری قسمت کے مالک ہیں لیکن پڑھے لکھے عام شہریوں کے پاس بھی بڑے حل ہیں مثلاً سو دو سو آدمیوں کو پھانسی چڑھا دیا جائے یہ سوچے بغیر کہ جو پھانسیاں دے گا اُس کا ہاتھ کون روکے گا کون اُسے راہ راست پر رکھے گا ویسے بھی پھانسی سے جرائم رک سکتے تو معاشرے میں قتل کا جرم تو ختم ہو چکا ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ دوسری تجویز یہ ہے کہ کوئی مسیحا آئے اور حضرت عمرؓ کی یاد تازہ کر دے اِسی خیال میں ریاست مدینہ بھی بناتے بناتے تھوڑی سی کسر رہ گئی تھی یہ سوچ خواب سے بھی کچھ آگے کی سوچ ہے۔


حقیقت یہ ہے کہ ہمیں کسی ہیرو کی راہ دیکھنی چاہئے نہ ڈکٹیٹر شپ کو برداشت کرنا چاہئے ہمارے مسئلے کا واحدحل یہی ہے کہ جو سیاسی نظام ہم نے اپنایا ہوا ہے اور صرف ہم نے نہیں اپنایا بلکہ دنیا کے بڑے حصے میں یہی نظام کامیابی سے چل رہا ہے لہٰذا ہم تہیہ کر لیں کہ اس نظام میں کسی کو کسی قیمت پر رخنہ نہیں ڈالنے دیں گے اور ہر پانچ سال بعد شفاف انتخابات کو یقینی بنایا جائے گا۔ انتخابات کی چھلنی اور سیاسی شعور کے ذریعے اچھے اور بُرے عناصر کی بتدریج چھانٹی کی جا سکتی ہے لیکن اس کے لئے ذرا صبر سے کام لینا ہو گا راتوں رات کچھ نہیں ہو سکتا کسی ہیرو اور مسیحا کی نہ کوئی گنجائش ہے اور نہ ہمیں ضرورت ہے ہمیں اس رومانس سے نکلنا چاہئے، ہمیں قومی اتفاق رائے سے اچھے مینجرز کی ضرورت ہے جو خاموشی سے کام میں جتے رہیں اور کچھ ڈلیور کریں ورنہ پانچ سال بعد وہ نظر نہیں آئیں گے۔ سیاستدانوں کے درمیان مقابلہ دعوؤں اور بیانیے کا نہیں بلکہ ڈلیوری کا ہونا چاہئے ہمیں بلندوبانگ بیانیوں کی ضرورت نہیں صرف کام کی ضرورت ہے۔سوشل میڈیا پر ایک ریٹائرڈ جنرل صاحب فرما رہے تھے کہ پہلے خودداری کے حصول اور پھر معیشت کی بہتری کے بارے میں سوچنا چاہئے پتہ نہیں کہ جب کاروبار حکومت چلانے کے لیے ہر وقت بھیک مانگنا پڑتی ہو تو ایسے میں خودداری کیسے ممکن ہے؟  بھارتی ایجنٹ، امریکی ایجنٹ، یہود و ہنود کی سازشیں اور اس جیسے لایعنی نعروں سے لوگوں کو بے وقوف بنانے کی رسم ختم ہونی چاہئے بیانیے کی اس جنگ نے سوسائٹی کو محاذآرائی اور سیاست کی ہیوی ڈوز دی ہے جس سے فائدہ تو بالکل نہیں ہوا البتہ معاشرہ بُری طرح متار ہوا ہے۔ سیاستدانوں اور اُن کے والیوں سے گزارش ہے کہ اِس ملک پر رحم کریں پہلے ہم ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر لیں پھر ہم یہودوہنود کی سازشوں سے بھی نپٹ لیں گے اور خودداری کے تقاضے بھی پورے کرلیں گے۔

مزید :

رائے -کالم -