پی ٹی آئی جیت گئی
سپریم کورٹ کے اعلان کردہ فیصلے کے مطابق بحیثیت مجموعی تحریک انصاف کو بہت سی چیزیں مل گئی ہیں ایسی چیزیں جو الیکشن کمیشن نے ان سے چھین لی تھیں مثلاً انتخابی نشان اور پھر اس کے بعد اقلیتوں اور خواتین کی مخصوص نشستیں۔ سپریم کورٹ نے 25جنوری 2024ء میں ایک فیصلہ صادر کیا تھا کہ تحریک انصاف نے اپنے ہی آئین، پارٹی قواعد و ضوابط کے مطابق پارٹی انتخابات منعقد نہیں کرائے جس سے وہ الیکشن قواعد کی مخالفت کرنے کی ذمہ دار قرار پائی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اسی فیصلے کی بنیاد پر پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بھی چھین لیا اور اس کے نمائندگان یا امیدواروں کو آزاد قرار دیا۔ اس طرح پی ٹی آئی 2024ء کے انتخابات سے تقریباً آؤٹ ہو گئی۔ الیکشن ہوئے، پی ٹی آئی کے امیدواران آزاد حیثیت میں شریک ہوئے ان کے حامیوں نے چن چن کر اپنے آزاد امیدواران کو ووٹ دیئے اس طرح پی ٹی آئی بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی تشریح کرتے ہوئے آزاد امیدواران کو کسی بھی سیاسی جماعت میں شمولیت کا آپشن دیا۔ پی ٹی آئی کے آزاد امیدواران، نجانے کس کے مشورے اور کس کے حکم سے سنی تحریک میں شامل ہو گئے۔ سنی تحریک کی قومی اسمبلی میں ایک بھی سیٹ نہیں تھی۔ حد تو یہ ہے کہ سنی تحریک کے قائد نے خود بھی اپنی جماعت کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑنا قبول نہیں کیا تھا اس طرح مخصوص نشستوں کا معاملہ اور بھی گمبھیر ہو گیا۔ سنی تحریک کے اپنے ضوابط کے مطابق کوئی غیر مسلم ان کا ممبر نہیں ہو سکتا ہے اس طرح مخصوص نشستوں کا حصول اور بھی گمبھیر ہو گیا۔ سنی تحریک نے مخصوص نشستوں کے لئے اپلائی بھی نہیں کیا تھا الیکشن کمیشن میں کوئی لسٹ بھی جمع نہیں کرائی تھی اس طرح الیکشن کمیشن نے 77مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں میں تقسیم کر دیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے میں ایسے تمام فیصلوں کو کالعدم قرار دے کر پی ٹی آئی کو سیاسی جنگ میں فاتح بنا دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس بات پر تو کھل کر لکھا ہے کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے 25جنوری کے فیصلے کی تشریح درست نہیں کی لیکن یہ نہیں کہا کہ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی اس تشریح کو چیلنج نہ کرکے جونااہلی دکھائی ہے اس کے الیکشن 2024ء پر جو اثرات مرتب ہوئے اس کا ذمہ دار کون ہے۔ پھر تحریک انصاف کے ممبران کو آزادقرار دینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ تو غلط ہے لیکن تحریک انصاف نے اپنے ممبران کو ایک ایسی جماعت میں شامل کرکے جس حماقت کا ثبوت دیا، جس کی اسمبلی میں نمائندگی ہی نہیں تھی، اس کا ذمہ دار کون ہے بہرحال سپریم کورٹ نے معاملات کو درست کرنے یا معاملات کی سمت درست کرنے کی کوشش کی ہے ان معاملات میں بگاڑ کی ابتداء سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح سے ہوئی تھی جسے اب سپریم کورٹ نے درست کرنے کی کاوش کی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ نے اہم معاملے پر فیصلہ اس قدر شفاف اور واضح کیوں نہیں کیا اس کی غلط تشریح کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔ ویسے سپریم کورٹ نے اب اپنے حالیہ فیصلے میں معاملات کو صراط المستقیم پر لانے کی جوکوشش کی ہے اس سے جو سیاسی ہلچل پیدا ہوگی۔ مستحکم ہوتا نظام ایک بار پھر متزلزل ہو سکتا ہے،مخصوص نشستوں کی چھینا جھپٹی اور ری ایلوکیشن کے ذریعے نمبر گیم میں ہونے والی تبدیلی معاملات میں بگاڑ بھی پیدا کر سکتی ہے تو ایسے میں ذمہ دار کون ہو گا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے پی ٹی آئی کے موقف کو تقویت ملے گی کہ الیکشن کمیشن ایک پارٹی ہے اسے مستعفی ہوجانا چاہیے اور موجودہ حکومت حقیقتاً عوام کی نمائندہ نہیں ہے بلکہ فارم 47کی پیداوار ہے اور ہم اسے نہیں مانتے۔ ویسے تو شہباز شریف کی حکومت کو اس کی اتحادی پیپلزپارٹی بھی حقیقتاً کامیاب اور عوامی حکومت تسلیم نہیں کرتی ہے۔
ہماری سرکاری مشینری اور اس سے جڑے اہلکار، معاملات کو درست کرنے اور عوامی مسائل حل نہ کرنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں کسی بھی معاملات کو حل کرنے کی طرف لے جانے کی بجائے اسے الجھانے میں انہیں مہارت حاصل ہوتی ہے کسی بھی معاملے میں حجتیں نکالنا، اسے بحث طلب بنانا بھی سرکاری مہارت کہلاتی ہے جو شخص لکھت پڑھت کر کے لمبا نوٹ لکھے، اچھی انگریزی میں بات کرے، چاہے اس میں مفہوم ہو یا نہ ہو، لیکن اسے قابل اور ماہر تصور کیا جاتا ہے۔ ایسی ہی سوچ کے باعث جو ایکشن سامنے آتا ہے وہ معاملات کو مزید الجھا دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے عوامی خدمات مہیا کرنے والے ادارے، عوام کو خدمات فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں۔ ہمارے ہاں اسی فکر و عمل کے باعث ہر سال اربوں کھربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود، عوامی سہولیات کی فراہمی کا معیار انتہائی ناقص ہے۔ تعلیم کا شعبہ ہویا طب کے معاملات،پانی کی فراہمی کے معاملات ہوں یا نکاسی آب کے مسائل، کچھ بھی درست نہیں ہے اور اربوں روپے خرچ کرتے چلے جانے کے باوجود بھی ان معاملات میں درستگی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے۔ حالات بگاڑ کی طرف جا رہے ہیں،واقعات بھی ایسے ہی ظاہر ہو رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے 25جنوری کے فیصلے کی تشریح نے ایک مسئلہ کھڑا کیا تھا تحریک انصاف اس میں بہہ گئی تھی تتربتر ہوتی نظر آنے لگی تھی سب سے زیادہ پاپولر ووٹ حاصل کرنے کے باوجود اسمبلیوں میں اس کی حیثیت نظر نہیں آتی تھی۔ اب سپریم کورٹ نے ایک بار پھر اپنے تئیں معاملات کو درست کرنے کی کوشش کی ہے حالیہ فیصلے سے الیکشن کمیشن کی حیثیت متنازعہ نظر آ رہی ہے اس طرح الیکشن 2024ء کی حیثیت ہی مشکوک ہو سکتی ہے۔ گویا سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے سیاسی عدم استحکام کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ پاکستان معاشی عدم استحکام کے دور سے گزر رہا ہے معاشی استحکام کی راہیں، سیاسی استحکام سے جڑی ہوئی ہیں جو دن بدن کمزور ہوتا نظر آ رہا ہے۔ معاملات درست سمت میں نہیں جا رہے ہیں۔ واقعات بھی ایسے ہی رونما ہو رہے ہیں جو عدم استحکام کو ہوا دے رہے ہیں۔