آج کا سب سے بڑا سچ!
٭....کیا تم بتا سکتے ہو کہ آج کا سب سے بڑا سچ کیا ہے؟....ہاں ہاں کیوں نہیں، سب کو معلوم ہے کہ آج کا سب سے بڑا سچ کیا ہے٭....بتاو¿ بھی سہی، باتیں ہی کئے جاو¿ گے۔.... آج کا سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ ملک میں لوڈشیڈنگ نے لوگوں کا جینا عذاب بنا دیا ہے٭....گھامڑ، یہ کون سا سچ ہے، لوڈشیڈنگ تو ہماری زندگیوں کا حصہ بن گئی ہے۔....اگر تم اسے سب سے بڑا سچ نہیں مانتے تو اس بات کو مانو گے کہ کرپشن اب ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا سچ ہے٭.... یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو؟....دیکھو ناں! کوئی کام بھی رشوت کے بغیر نہیں ہوتا۔ حکومتی سطح پر بھی کرپشن کے قصے تم روزانہ ہی سنتے ہو، اس لئے اب یہی سب سے بڑا سچ ہے۔٭....تم بھی عجیب آدمی ہو، سب سے بڑے جھوٹ کو سب سے بڑا سچ کہہ رہے ہو، او بھئی! مَیں جانتا ہوں کہ تم جیسے لوگ کبھی سچ تک پہنچ ہی نہیں سکتے۔....کیوں ہم کیوں نہیں پہنچ سکتے، کیا ہماری آنکھیں، کان اور دماغ نہیں ہے۔٭....مَیں کب کہہ رہا ہوں تم اندھے، بہرے یا پاگل ہو، مَیں تو صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ تم سچ تک نہیں پہنچ سکتے۔.... اگر ہم نہیں پہنچ سکتے تو کیا تم پہنچ سکتے ہو، کیا تم نے سقراط کا جھوٹا پی رکھا ہے۔٭....ارے بھئی! مَیں کب کہہ رہا ہوں کہ سچ تک پہنچ سکتا ہوں۔ البتہ مجھے یہ پتا ہے کہ میرے پاس اجادو کی چھڑی ضرور ہے، جو ہر سچ تک پہنچ جاتی ہے....تمہارے پاس اور جادو کی چھڑی!٭....او بھئی! محاورتاً، یہ بات کی ہے، دراصل میں ایک اینکر پرسن کا نوکر ہوں اور صاحب جس وقت چاہیں سچ کو سامنے لا سکتے ہیں اور اکثر لے بھی آتے ہیں۔ب کہی، اُن کے پاس کیا گیدڑ سنگھی ہے۔ کیا کرتب ہے کہ سچ کو سامنے لے آتے ہیں۔٭....یہ تو مجھے پتہ نہیں، البتہ جب وہ شام کو پروگرام کرنے کے لئے گھر سے نکلتے ہیں تو اکثر جاتے ہوئے بیگم صاحبہ سے کہتے ہیں:” آج تم دیکھنا مَیں کتنا بڑا دھماکہ کرنے والا ہوں، ایک ہی سچ جو ملک ہلا دے گا“۔....کمال ہے، تمہارے صاحب کیا ملک ہلانے کے لئے پروگرام کرتے ہیں۔٭....ابے نہیں یار!بس جوش میں آ کر ایسا بول جاتے ہیں۔....تمہارے صاحب کو سچ بتاتا کون ہے؟٭....یہ راز تو مجھے بھی نہیں معلوم، تاہم مَیں نے یہ ضرور دیکھا ہے کہ انہیں کہیں نہ کہیں سے کسی بڑے آدمی کا فون آجاتا ہے۔ پھر وہ بھاگے بھاگے اسکے پاس جاتے ہیں، واپسی پر اتنے خوش ہوتے ہیں کہ خواہ مخواہ مجھے ہزار دو ہزار انعام دے دیتے ہیں۔ پھر جاتے ہوئے بیگم صاحبہ سے کہتے ہیں: ”دیکھنا بیگم آج مَیں کیا دھماکہ کرنے والا ہوں“۔....تمہاری باتیں میری سمجھ سے تو باہر ہیں۔ کیا کبھی تمہارے صاحب کو کسی غریب آدمی نے بھی فون کر کے بلایا ہے؟٭....لگتا ہے تمہارا دماغ بالکل ہی چل گیا ہے۔ وہ عام آدمی کا فون نہیں سنتے، تم غریب آدمی کی بات کر رہے ہو۔ خیر چھوڑو یہ باتیں، مَیں تم سے پوچھ رہا تھا کہ آج کا سب سے بڑا سچ کیا ہے اور بات تم کہاں لے گئے۔....بات مَیں نہیں تم کہیں اور لے گئے ہو، اپنے صاحب کا ذکر چھیڑ کر آخر تم پر بھی اُن کا اثر تو ہونا ہی تھا، وہ بھی تو بات مشرق سے شروع کر کے مغرب میں لے جاتے ہیں۔٭....یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو؟.... بلاوجہ بہتان نہ لگاو¿۔....تمہاری اس بات پر مجھے ہنسی آگئی ہے۔ تمہارے صاحب کا تو روزگار ہی بہتان طرازی سے چلتا ہے اور تم مجھے الزام دے رہے ہو۔٭....مَیں سمجھا نہیں۔....اب تم یہی بتاو¿ کہ الزام بیٹے پر لگے اور ہدف باپ کو بنالیا جائے تو اسے تم کیا کہو گے؟ چلو یہ تو پھر بھی کوئی بے تکی بات نظر نہیں آتی، مگر اصل بے تکی بات تو یہ ہے کہ ایک شخص الزام لگا رہا ہے اور آپ اس کے الزامات کو نشر کرنے کے لئے لاو¿ڈ سپیکر بن جاتے ہیں، نہ تحقیق کرتے ہیں اور نہ ہی یہ سوچتے ہیں کہ جس پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ کروڑوں عوام کی اُمید ہے۔ ایک ایسے شخص کی خاطر ، جس کی پہچان صرف دولت ہے۔ آپ جب پورے نظام کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں، تو اس سے بڑی بہتان طرازی اور کیا ہو سکتی ہے۔٭....تم نے تو اچھی خاصی تقریر جھاڑ دی ہے۔ میرے صاحب کا یہ مشن ہے کہ سچ سامنے آنا چاہئے، چاہے اس کے لئے کچھ بھی کرنا پڑے۔.... لیکن یہ بھی ہے کہ ایسا سچ کسی کھرب پتی کی زبان سے نکلا ہو، کبھی کسی غریب کے سچ کو بھی تمہارے صاحب نے نشر کیا ہے۔ خود اُن کے کھرب پتی سقراط کے خلاف سینکڑوں سچ گردش کر رہے ہیں، انہیں تو کبھی سامنے لانے کی زحمت نہیں کی۔٭....ہر بندے کا ایک معیار ہوتا ہے، اچھا خیر چھوڑو یہ بحث، یہ بتاو¿ کہ آج کا سب سے بڑا سچ کیا ہے؟.... آج کا سب سے بڑا سچ تو یہی ہے کہ ہر کوئی جھوٹ بول رہا ہے۔٭....کیا مطلب؟....کس کس کی بات کرو گے۔ وزیراعظم نے یہ جھوٹ کہا ہے کہ چیف جسٹس، اُن کے بیٹے کا کیس سنیں۔ اُن کے کسی بیٹے کا کیس ابھی سپریم کورٹ تک گیا ہی نہیں۔ یہ صرف ایک طنز ہے۔ جو اتنے بڑے منصب پر بیٹھے شخص کو زیب نہیں دیتا۔ یہ بھی جھوٹ ہے کہ اس بار فلاحی بجٹ پیش کئے گئے ہیں۔ جب سب کچھ استحصال اور کرپشن کے سہارے چل رہا ہو، تو فلاح کیسے ہو سکتی ہے۔ اس میں بھی کوئی سچائی نہیں کہ ملک میں جمہوریت کا دور دورہ ہے۔ یہ چند فیصد طبقے کی آمریت ہے اور کچھ نہیں۔ یہ بات بھی جھوٹ ہے کہ حکمران عدالتوں اور قانون کا احترام کرتے ہیں۔ ہاں ایک سچ ضرور ہے کہ اب اس ملک میں ہر آدمی کے خلاف سازش ہو سکتی ہے۔ اس میں نہ وردی والے محفوظ ہیں اور نہ کوٹ والے۔٭....بات کا بتنگڑ بنانا تو کوئی تم سے سیکھے، تمہیں تو کسی چینل کا اینکر پرسن ہونا چاہئے یا پھر سٹیج ڈرامے کا جگت باز۔ مَیں تم سے آج کا سب سے بڑا سچ پوچھ رہا ہوں اور تم جھوٹ پر جھوٹ بولے جا رہے ہو۔....تم ٹھیک کہتے ہو، آج واقعی مَیں جھوٹ پر جھوٹ بولے جا رہا ہوں، جہاں کوے کو سفید کہنے والے زیادہ ہوجائیں، وہاں سچ بولنے والے جھوٹے ہی کہلائیں گے۔ اس لئے تم جو سچ مجھ سے بلوانا چاہ رہے ہو، مَیں اُس میں اپنے جھوٹ کو شامل کر کے گناہ گار نہیں بننا چاہتا۔ ٭