پھولوں کی حفاظت کیسے کریں؟....(2)

پھولوں کی حفاظت کیسے کریں؟....(2)
پھولوں کی حفاظت کیسے کریں؟....(2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پھول جیسے بچوں کو انتہاپسندانہ منفی رویوں سے دور رکھنے کے لئے مناسب ماحول فراہم کرنا بہت ضروری ہوتا ہے، مناسب ماحول سے مراد ایسا ماحول ہے، جہاںاس کے سامنے منفی کام سرانجام نہ پائیں۔ والدین کو چاہیے کہ اگر ان کے بچے اچھے کاموں کی نقل کریں تو بچوں کی حوصلہ افزائی کی جائے، اس طرح بچہ زندگی کی ان ذمہ داریوں کی نقل کرتا ہے، جن کو وہ پسند کرتا ہے۔بچے کے گرد ایسا ماحول بنانا چاہیے کہ جب بچے کو نقل کرنے کی خواہش ہو تو وہ اپنے سامنے اچھی ہی چیز نقل کے لئے پائے۔مثال کے طور پر منفی رویوں کے تدارک کے ضمن میں سب سے پہلی اور بنیادی شرط گھر کے ماحول کا پُرسکون اور والدین کی اپنی شخصیت و کردار کا مضبوط و متوازن ہونا ہے۔ خصوصاً ماں کو متحمل مزاج ہونا چاہیے، کیونکہ ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔
بچوں میں بہتر رویوں کو جگہ دینے کے لئے انہیں عمر کے لحاظ سے مختلف کیٹیگریز میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔مثلاً دو سے پانچ برس کے بچے نشوونما اور سیکھنے کے مرحلے میں ہوتے ہیں، لہٰذا پوری توجہ، شفقت، محبت اور خوش دلی کے ساتھ اپنے بچے کی پرورش اور تربیت کریں۔گھریلو ماحول کا پُرسکون، مثبت اور تعمیری ہونا بچے کو گھر اور گھر والوں سے بے زار کرکے فرار کی جانب راغب نہیں ہونے دیتا۔ بچے کی زندگی کے یہ قیمتی سال اس کی آئندہ زندگی کی بنیاد بنتے ہیں، انہیں ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ ابتدا ہی سے اپنے بچے کی جسمانی اور نفسیاتی صحت کا خاص خیال رکھیں۔ جس طرح جسمانی تکلیف کی صورت میں چائلڈ اسپیشلسٹ کے پاس بلاجھجک جاتے ہیں، بالکل اسی طرح ذہنی و نفسیاتی مسائل کے حل اور مشاورت کے لیے چائلڈ سائیکالوجسٹ کے پاس جانے میں کسی قسم کی شرم، جھجک ہرگز محسوس نہیں کرنی چاہیے۔اس عمر میں بچوں میں ضد، غصہ، رونا، چڑچڑا پن، لڑنا جھگڑنا جیسے منفی رویّے ذہنی اور نفسیاتی الجھن یا کسی اندرونی دباو اور ڈر و خوف کا بیرونی اظہار ہوتے ہیں۔
 اپنے بچے کو ممتا اور تحفظ کا بھرپور احساس دلائیں۔ اسے وقت اور توجہ دے کر اس کی ذات کو اہمیت دیں۔ بچوں میں ہر وقت سر کھجانا، رالیں ٹپکانا، منہ میں تھوک جمع کرکے غبارے بنانا، نچلا ہونٹ لٹکاکر باتیں کرنا، ماں اور دیگر بڑوں کو نازیبا القابات سے پکارنے اور مشتعل ہوکر ہاتھ پاو¿ں چلانے کے پیچھے بھی والدین کی عدم توجہ، بے جا سختی اور روک ٹوک کارفرما ہوتی ہے۔ ایسے بچے کو بہت تحمل ، پیار اور محبت کے ساتھ غیر محسوس انداز میں کسی اور کام،بات یا کھیل کی طرف متوجہ کرنا چاہیے۔ یوں رفتہ رفتہ وہ اس عادت کو ترک کردے گا۔ اس عمر میںجھوٹ بولنے، گالی دینے، چوری کرنے، یا بات بے بات چھوٹے بہن بھائی کی شکایتیں لگانے والے بچے کو اگر پہلے ہی دن مناسب انداز میں تنبیہ نہ کی جائے تو یہ غفلت اُس کی آئندہ زندگی کی بنیاد بن کر منفی رویوں کو اس کی شخصیت کا حصہ بنادے گی۔ بچے میں عزت نفس کا احساس پہلے دن سے ہی ہوتا ہے، اس لئے بچے کی ایسی باتوں کا ذکر بار بار اس کے سامنے ہرگز نہ کریں۔بچے کے ساتھ بے جا سختی سے
پیش نہ آئیں،نہ دوسروں کے سامنے اسے شرمندہ کریں۔ بچوں کی کمزوریوں، غلطیوں، کوتاہیوں، خامیوں کو تنقید و تحقیر اور طنز و تضحیک کا نشانہ بناکر ہر وقت ا±ن کی عزت ِنفس کو مجروح نہ کریں۔
اس کے بعد چھ سے آٹھ برس کی عمر کے بچوںکا مرحلہ آتا ہے۔ اس عمر کے بچوں میں بعض اوقات جذباتی عدم ِتوازن کے باعث دونوں طرح کی انتہائی صورتیں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً کھیل کود میں عدم دلچسپی یا ہر وقت کھیلتے رہنا،،، اور بہت زیادہ کھانا یا بالکل نہ کھانا وغیرہ۔ ایسے بچوں کو خصوصی توجہ اور اہمیت دینے کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ نہ ہر وقت کھیلنا اور کھانا درست ہے اور نہ ہی کھانے اور کھیل سے عدم دلچسپی نارمل رویہ ہے۔ ہر وقت کھیلنے والے بچے کو وقت، تعلیم اور دیگر کاموں کی ضرورت و اہمیت کا احساس دلاکر ٹائم ٹیبل کا پابند بنانا چاہیے اور بالکل نہ کھیلنے والے بچے کو کھیل کی طرف راغب کرنے کے لئے خود بھی اس کے ساتھ ہلکے پھلکے کھیل کھیلنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔اس عمر کے بچوں کو اپنے جذبات و احساسات کے اظہار کا موقع دینا چاہیے۔بچوں کی جائز ضروریات اور خواہشات کی تکمیل میں غیر ضروری تاخیر درست نہیں،کیونکہ ایسا کرنے سے بچے کے اندر احساسِ محرومی، حرص، ندیدہ پن اور لالچ پیدا ہوجاتا ہے۔
اس کے بعد نو سے بارہ سال کی عمر کے بچوںکیٹیگری آتی ہے، جس میں بچے خصوصاً لڑکیاں عمر کے ایک انتہائی نازک دور میں داخل ہوجاتی ہیں۔اس عمر میں ماو¿ں کی خصوصی توجہ، مناسب رہنمائی اور دوستانہ رویہ ان کی جذباتی، جسمانی اور ذہنی صحت کے ضامن بنتے ہیں۔اس عمر میں لگائی بجھائی، غیبت اور کن سوئیاں لینا وغیرہ جیسے منفی رویّے بچیوںکی شخصیت کو مسخ کرنے کا باعث بن سکتے ہیں، اس لئے والدین کو چاہیے کہ بچیوں کے سامنے ہرگز کسی کی برائی نہ کریں، نہ ہی بچیوں کو دوسروں کی ٹوہ میں لگے رہنے اور لگائی بجھائی کرنے کی ترغیب دلائیں۔ اس سلسلے میں پہلے ہی دن بچی کو مناسب تنبیہ کرنا اس رویّے کو پنپنے نہیں دیتا۔
دوسری جانب تیرہ سے سولہ برس کی عمر کے بچوں کے ساتھ ماں اور باپ دونوں کا مثبت، دوستانہ اور محبت و شفقت بھرا رویہ جذباتی آسودگی پیدا کرتا ہے۔اس عمر میں بچے کی جائز ضروریات و خواہشات کی تکمیل ضرور کرنی چاہیے اور ان کی طرف سے غافل بالکل نہیں ہونا چاہیے۔والدین کو چاہیے کہ وہ ہر ماہ باقاعدگی سے سکول جاکر اساتذہ سے ملیں اور بچوں کی کارکردگی کی مکمل رپورٹ لینا ہرگز نہ بھولیں، اس طرح جہاں والدین بچے کی تعلیمی کارکردگی سے باخبر رہیں گے وہیں اساتذہ کے اخلاق و کردار سے بھی بخوبی آگاہ ہوں گے۔اس عمر میں جلد مشتعل ہوجانے والے، غصیلے، متشدد اور جارحانہ پن کا مظاہرہ کرنے والے بچوں کو نہایت تحمل و برداشت اور پیار و محبت کے ساتھ رام کرنا چاہیے، ورنہ بچے مکمل طور پر بغاوت پر اتر آتے ہیں۔ خصوصاً اشتعال کی حالت میں گھر کا کوئی پسندیدہ فرد سامنے آکر غیر محسوس انداز میں بچے کی توجہ کسی اور دلچسپ کام،چیزیا بات کی طرف مبذول کروادے اور غصے کا سبب بننے والے فردیا چیز کو سامنے سے ہٹادے تو بچے کو باغی بننے سے روکا جاسکتا ہے۔
قارئین کرام!! اپنے بچوں کی ذات کو اہمیت دینا، انہیں پوری توجہ، شفقت ، محبت اور خوش دلی کے ساتھ پروان چڑھاکر مثبت، متوازن اور پسندیدہ شخصیت کا حامل انسان بناناہماری ذمہ داری بھی ہے اور وقت کی ضرورت بھی۔یہ بچے بجا طور پر ہمارے لئے پھولوں سے کم نہیں ہیں، کیونکہ گلشنِ ہست و بود انہی بچوں کے دم سے ہے، انہی بچوں کے دم سے رنگ بکھرتے اور نور برستا ہے۔ جس دن نئے پھول کھلنا بند ہوگئے، سمجھ لیں تب اس ”گلشن“ کی حیثیت کسی مہمان سے زیادہ نہیں ہوگی۔ اس دن رنگ بکھرنا اور نور برسنا بند ہوجائے گا۔ تب قدرت کی جانب سے یہ اشارہ ہوگا کہ اب اس دنیا کی مزید ضرورت نہیں رہی۔اس لئے اگر ہم اس گلشن کو آباد دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے پھولوں کی حفاظت کا فن بھی سیکھنا ہوگا۔ہمیں اپنے ” پھولوں“ کو اپنے ہی ہاتھوں سے مسلے جانے سے بچانا ہوگا! (ختم شد)

[کالم نگار رکن قومی اسمبلی، قائمہ کمیٹی برائے داخلہ امور، پانی و بجلی، قانون و انصاف ہیں] ٭

مزید :

کالم -