امریکی اور ناٹو افواج کے لئے رسد کی بحالی(4)

امریکی اور ناٹو افواج کے لئے رسد کی بحالی(4)
 امریکی اور ناٹو افواج کے لئے رسد کی بحالی(4)

  

ہم چند مثالوں سے بات کو واضح کرنا چاہیں گے:

1- مشرف کے دور میں امریکا سے کیا معاہدات ہوئے، نیز کن کن اُمور پر کوئی قول و قرار ہوا، اس سے وزارتِ دفاع، وزارتِ داخلہ اور وزارتِ خارجہ نے پارلیمنٹ اور قومی سلامتی کی کمیٹی کو مطلع نہیں کیا اور ہمیشہ یہی کہا کہ کوئی چیز ریکارڈ پر نہیں ہے۔ حالانکہ حکومت کے ضابطہ¿ کار میں یہ موجود ہے کہ معاہدات تحریری ہوتے ہیں جن کی منظوری کوئی فرد نہیں ،بلکہ کابینہ دیتی ہے، اور جو اُمور صرف زبانی طے ہوتے ہیں ان کی بھی تحریری روداد رکھی جاتی ہے اور وہ ریکارڈ کا حصہ ہوتی ہے۔ صرف سلالہ کے واقعے کے بعد وزارتِ دفاع مجبور ہوئی اور بڑے ردوکد کے بعد دو معاہدات کے کچھ مندرجات سے کمیٹی کو آگاہ کیا۔ ایک مفاہمتی یادداشت (MOU) 1۹جون 2002ءکی ہے جو وزارتِ دفاع اور ایساف (ISAF) کے درمیان ہے جس پر ایساف کی طرف سے برطانیہ کی حکومت نے دستخط کیے ہیں۔ دوسرا ۹فروری 2002ءکا امریکا کی وزارتِ دفاع کے ساتھ ہے جو فروری 2012ءمیں اپنی 10 سالہ مدت پوری کرکے ختم ہوگیا ،لیکن کمیٹی کو بھی 2012ءسے پہلے اس کی کوئی ہوا نہیں لگنے دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ کمیٹی نے سختی سے یہ ہدایت دی ہے کہ امریکا ہی نہیں، کسی بھی ملک یا ادارے سے جو بھی معاہدہ ہے وہ لازماً تحریری شکل میں ہونا چاہیے، تمام متعلقہ وزارتوں کے مشورے سے ہونا چاہیے، کابینہ کی منظوری سے ہونا چاہیے، اور پارلیمنٹ یا کم از کم قومی سلامتی کی کمیٹی کو اس سے مطلع ہونا چاہیے۔

مشرف حکومت نے خفیہ معاملہ کرنے (secret dealing) کا جو ریکارڈ قائم کیا تھا اس حکومت نے بھی اسے باقی رکھا، اور چار برسوں پر پھیلے ہوئے اس جرم میں یہ بھی برابر کی شریک ہے۔

2- کمیٹی کے بار بار کے مطالبات کے باوجود وزارتِ دفاع نے ان ہوائی اڈوں کے بارے میں کوئی معلومات کمیٹی کو نہیں دیں جو امریکی افواج کے زیراستعمال تھے، بلکہ ہردفعہ یہی کہا گیا کہ کسی تحریری معاہدے کے بغیر یہ سہولت دی گئی تھی جو اب جاری نہیں۔ بس ٹریننگ کے لئے کچھ سہولتیں باقی ہیں، لیکن 26نومبر 2011ءکے واقعے کے بعد بلوچستان میں شمسی ایئربیس کو خالی کرانے کا اقدام کیا گیا اور گیلانی زرداری حکومت اس کا کریڈٹ لے رہی ہے، لیکن سوال خالی کرانے کا نہیں، سوال جنوری 2012ءتک اس حکومت اور اس فوجی قیادت کی ناک تلے اس ایئربیس کی موجودگی، اس پر امریکا کی مکمل مطلق حاکمیت (sovereignty) کہ اس کی حدود میں پاکستانی فوج اور ایئرفورس کا سربراہ بھی پَر نہیں مار سکتا تھا، کی جواب دہی اسی حکومت کو کرنا ہوگی۔ کم از کم اس اڈے کے حوالے سے تو اب یہ اعتراف کیا جا رہا ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس اڈے سے 26نومبر 2011ءتک ڈرون حملے کیے جاتے رہے۔ کیا حکومت کو 26نومبر کے بعد اس اڈے کا علم ہوا اور یہ بھی ایبٹ آباد میں اسامہ کے موعود قیام گاہ کی طرح اس کی نظروں سے اوجھل رہا؟ یا یہ اس کی مرضی سے امریکا کے زیرتصرف تھا اور حکومت قوم اور پارلیمنٹ کو گمراہ (mislead) کر رہی تھی؟ قوم اور پارلیمنٹ کے ساتھ یہ دھوکا دہی غداری (high treason) کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کی جواب دہی کون کرے گا؟

3- امریکا کی خفیہ ایجنسیوں کی پاکستان کی سرزمین پر سرگرمی اور امریکی سفارت کاروں کا کردار بھی قومی سلامتی کو متاثر کرنے والے اہم امور میں سے ایک ہے۔ اس سلسلے میں بلاتحقیق ویزے جاری کیے جانا اور اس حوالے سے واشنگٹن میں پاکستان کے سفارت خانے اور دبئی میں پاکستان کے سفارت خانے کا کردار بھی ایسا نہیں جسے قومی جواب دہی کے سلسلے میں نظرانداز کیا جاسکے۔

4- امریکا نے افغانستان میں تو جو کچھ کیا، وہ سب کے سامنے ہے اور ہمارا کردار اس میں بالواسطہ ہے جس نے افغان عوام کو ہم سے بدگمان کیا اور افغانستان پر امریکی قبضے کا مقابلہ کرنے والے تمام عناصر کو ہمارا بھی دشمن بنا دیا، حالانکہ سارے اختلافات اور مختلف پاکستانی قیادتوں کی کوتاہیوں اور غلط پالیسیوں کے باوجود، افغان عوام بحیثیت مجموعی پاکستان کے بہترین دوست تھے۔ ان مواقع پر بھی جب ہمارے تعلقات افغان حکومت سے کشیدہ تھے۔ جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو افغان حکومت نے واضح طور پر یقین دلایا کہ آپ اپنی ساری توجہ بھارت کی سرحد پر رکھیں، افغان سرحد سے آپ کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا، اور اپنے اس قول پر وہ پکے رہے، لیکن مشرف کے زمانے میں جو کردار ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کا رہا اور جس کا تسلسل زرداری گیلانی دور میں باقی رہا، اس نے دوستوں کو دشمن بنا دیا اور جنھیں ’بنیاد پرست‘ سمجھ رہے تھے وہ دشمنوں سے بھی بدتر نکلے۔ اس ہمالیہ جیسی غلطی کی ذمہ داری موجودہ حکومت پر بھی اتنی ہی ہے جتنی مشرف حکومت پر تھی ،بلکہ اس سے بھی زیادہ کہ اسے تبدیلی کا جو موقع ملا تھا، اس نے اسے ضائع کر دیا اور جو دباﺅ نائن الیون کے معاً بعد تھا اس دباﺅ کے کم ہوجانے کے باوجود ملک کی آزادی، خودمختاری، سلامتی، عزت اور وقار کی حفاظت کے لئے اس نے کچھ نہ کیا۔ اور جو تحقیروتذلیل پہلے دن ہورہی تھی یا بہت کم تھی وہ اب سکہ رائج الوقت بن گئی۔

5- قوم کے علم میں اب یہ بھی آجانا چاہیے کہ مشرف دور میں اور اس کے بعد موجودہ دور میں کوئی کوشش کسی بھی سطح پر ایسی نہیں ہوئی کہ امریکا کو جو جو مراعات اور سہولتیں آنکھیں بند کرکے دے دی گئی تھیں، اور جن کی وجہ سے ملک معاشی، سیاسی اور تہذیبی، ہراعتبار سے تباہی کا شکار تھا ان کا ازسرِنو جائزہ لیا جائے، بلکہ جن دو معاہدات کا ذکر ہم نے اُوپر کیا ہے خود ان پر امریکا اور ایساف سے جو ٹیکس اور خدمات کا معاوضہ وصول کیا جاسکتا ہے اور جو سالانہ اربوں روپے میں ہوسکتا ہے، ان کے بارے میں کوئی کوشش کی جائے۔ امریکا ہر ٹرک اور کنٹینر پر جو وسط ایشیا کے ذریعے افغانستان پہنچاتا تھا آٹھ سے دس ہزار ڈالر خرچ کر رہا تھا، جب کہ پاکستان میں اس کا خرچ صرف 250 ڈالر فی کنٹینر تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے کہیں زیادہ رقم سرکاری، نیم فوجی اور دوسرے مفاد پرست عناصر وصول کر رہے تھے، لیکن ملک کے خزانے کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا تھا۔ ہماری نگاہ میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘کے نام پر افغانستان پر قبضے کے اس شرم ناک کھیل میں کسی بھی شکل میں تعاون کوئی جائزعمل نہیں تھا ،لیکن جو اس کھیل میں شریک تھے اور رہے ہیں، ان کی عقل کو کیا ہوگیا تھا کہ ع قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند!

معاشی امداد کی بھیک مانگتے رہے اور ان ’خدمات‘ کا کوئی معاوضہ وصول نہ کیا۔ ان کی جنگ میں شرکت پر اپنے غریب عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر (تقریباً 135ارب روپے سالانہ) خرچ کرتے رہے جس کی ادایگی امریکا بڑی ردوکد اور کٹوتیوں کے بعد سال دوسال کے بعد کرتا رہا اور یہ اپنے پروفیشنلزم پر بغلیں بجاتے رہے___مشرف اور زرداری و گیلانی اور کیانی کسی کو نظر نہ آیا کہ ع ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا!

6- وزیردفاع احمدمختار صاحب نے ایک شام خاموشی سے یہ اعلان بھی فرمایا: امریکا اور ناٹو کی رسد رسانی پر پابندی صرف زمینی راستے سے ہے، فضائی راستے سے کبھی پابندی نہیں لگائی گئی حالانکہ کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی کے اعلان کے مطابق پابندی کلّی تھی۔ قومی سلامتی کمیٹی کے سامنے بھی کبھی یہ بات نہیں آئی کہ فضائی راستے سے رسد جاری ہے، بلکہ کمیٹی کی اولین سفارشات میں یہ شامل تھا کہ: ”پاکستان کے کسی اڈے یا فضائی حدود کے غیرملکی فوجوں کے استعمال کے لئے پارلیمنٹ کی منظوری کی ضرورت ہوگی“۔

وزارتِ دفاع نے کمیٹی کو کبھی اس امر سے آگاہ نہیں کیا کہ فضائی حدود کا استعمال ہورہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سلامتی کمیٹی کی ان ترمیم شدہ سفارشات میں سے جو 12اپریل 2012ءکو منظور ہوئی ہیں، یہ جملہ نکال دیا گیا ہے۔

کم از کم یہ چھے اُمور ایسے ہیں جن پر موجودہ حکومت کو بھی قوم اور پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہی کرنا ہوگی اور آیندہ انتخابات میں قوم ان سے پوچھے گی کہ مشرف نے تو جو کیا، وہ کیا___یہ بتائیں کہ خود آپ کا ریکارڈ کیا ہے؟(جاری ہے)

مزید :

کالم -