پرویز مشرف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت،حکومت کو اپیل کے لیے 15روز کی مہلت
کراچی (اےن اےن آئی ، اے اےن اےن)سندھ ہائیکورٹ نے سابق صدر پروےز مشرف کا نام ای سی اےل سے نکالنے کی درخواست منظور کرلی ہے اور اس کے خلاف سپرےم کورٹ مےں اپےل کےلئے مخالف فرےقےن اور وفاق کو پندرہ دن کی مہلت دی ہے۔پروےز مشرف نے سندھ ہائےکورٹ کے فےصلے کی روشنی مےں وفاقی سےکرٹری داخلہ کو خط لکھا ہے جس مےں کہا گےا ہے کہ سابق صدر کو بےرون ملک جانے کی اجازت دی جائے۔ وزےراعظم نوازشرےف نے اس معاملے پر اپنے سےاسی ساتھےوں سے مشاورت کا فےصلہ کےا ہے جبکہ وہ وفاقی وزےرقانون اور اٹارنی جنرل سے قانونی رائے بھی لےں گے۔اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ کا کہنا ہے کہ سپرےم کورٹ مےں اپےل دائر کی جائے گی۔تفصےل کے مطابق سندھ ہائی کورٹ نے سابق صدر جنرل(ر)پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست منظور کرتے ہوئے بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دے دی ہے،وفاق اور مخالف فریقین نے15روز کے اندر سپریم کورٹ سے رجوع نہ کیا تو پرویز مشرف بیرون ملک جانے میں آزاد ہونگے،ہائی کورٹ کا فیصلہ15روز تک معطل رہے گا۔سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس شاہ نواز طارق پر مشتمل بینچ نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے سے متعلق درخواست فریقین کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد 29 مئی کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ گذشتہ سماعت پر پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے موقف اختیار کیا کہ وفاقی حکومت نے حقائق چھپائے جو بدنیتی پر مبنی ہےں۔آئین کے مطابق کسی کو انفرادی طور پر آئین پامال کرنےکا ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا، پرویز مشرف نے تین نومبر کی ایمرجنسی وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ کی مشاورت سے لگائی۔ تمام شواہد و حقائق کا ریکارڈ موجود ہے لیکن اسے غائب یا ختم کیا جا رہا ہے۔ جواب میں موقف اختیار کیا گیا کہ سابق صدر کی والدہ علیل ہیں اور ریڑھ کی ہڈی میں فریکچر ہے ،علاج اور تیمارداری کےلئے وہ باہر جانا چاہتے ہیں ۔بیرسٹر فروغ نسیم نے دلائل دیے کہ سپریم کورٹ کا 31مارچ2014کاتفصیلی فیصلہ آنے کے بعد 8 اپریل 2013 کا عبوری حکم ختم ہوگیا ،اس لیے پروےزمشرف کا نام ای سی ایل سے نکالا جائے ۔ اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے موقف اختیار کیا کہ سنگین غداری کے مقدمے کی تفتیش کے لئے پرویز مشرف کی ملک میں موجودگی ضروری ہے۔ سنگین غداری کے مقدمے کی سزا موت یا عمر قید ہے اور یہ سیاسی جرائم کے زمرے میں آتاہے۔انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ نے 8 اپریل 2013 کو اپنے حکم میں دو ہدایات دیں۔ ایک یہ کہ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے اور اس حکم کو عدالت کی کسی ترمیم یا نظر ثانی تک برقرار رکھا جائے ۔دوسری ہدایت یہ تھی کہ وفاق کے تمام ادارے پرویز مشرف کو ملک سے باہر نہ جانے دیں۔ اٹارنی جنرل نے سندھ ہائی کورٹ کے اختیار سماعت پر بھی اعتراض برقرار رکھا۔ عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جو جمعرات کو سنایا گیا۔ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس شاہنواز طارق پر مشتمل سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے سابق صدر پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی تاہم عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 15 دن تک اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں اگر حکومت کو فیصلے پر کوئی اعتراض ہے تو وہ 15 دن کے اندر اندر فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرسکتی ہے۔15 دن تک فیصلہ معطل رہے گا اور سابق صدر پرویز مشرف بیرون ملک نہیں جاسکیں گے ۔اگر وفاق اور مخالف فریقین سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کرتے تو پرویز مشرف بیرون ملک جانے میں آزاد ہونگے۔فیصلے کے بعد پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا تو اس کو سندھ ہائیکورٹ نے کالعدم قرار دے دیا اور سابق صدر کی طرف سے دی گئی درخواست منظور کرلی ۔ ساتھ ساتھ یہ بھی عدالت نے کہا ہے کہ پرویز مشرف کو وفاقی حکومت سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں نہ کسی ایف آئی اے اہلکار کے آگے ہاتھ جوڑنے کی ضرورت ہے ۔ ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ سابق صدر کا نام ای سی ایل میں ڈالنا غیر مناسب تھا کیونکہ سپریم کورٹ کا 8 اپریل 2013ءکے آرڈر کا سہارا لیا گیا تھا وہ ایک عبوری حکم تھا جو فائنل آرڈر آنے کے بعد ختم ہوگیا ۔ انہوں نے کہاکہ31 مارچ 2014ءکے سپیشل کورٹ کے آرڈر کا حوالہ دیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ پرویز مشرف جہاں چاہیں جاسکتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ 15 دن تک ہائیکورٹ نے اپنا آرڈر معطل کردیا ہے آج کا آرڈر 15 دن بعد نافذ العمل ہوگا، 15 دن تک وفاقی حکومت کا صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکال بھی سکتی ہے اور سپریم کورٹ میں اپیل بھی کرسکتی ہے اگر وفاقی حکومت کا کوئی انتقامی ایجنڈا نہیں تو اب ہائیکورٹ نے واضح طور پر ای سی ایل سے نام نکالنے کی درخواست منظور کرلی ہے اب انہیں کوئی نہیں کہے گا یا کوئی ابہام نہیں ہوگا ۔ انہوں نے کہاکہ حسین حقانی کا میں نے عدالت کے سامنے حوالہ دیا تھا تو اٹارنی جنرل نے کہاکہ حسین حقانی بھاگ گئے ہیں۔ میں نے اٹارنی جنرل جو میرے اچھے دوست بھی ہیں کو کہا کہ وفاقی حکومت نے حسین حقانی کو روکنے کےلئے کیا اقدامات کئے تھے ، صاف شفاف ٹرائل کے تصور کو پامال نہ کیا جائے ۔ انہوں نے کہاکہ سابق صدر کی والدہ شدید علیل ہیں وفاقی حکومت کہتی ہے کہ ہم ان کی والدہ کو پاکستان بلالیتے ہیں لیکن وہاں کے ڈاکٹر کہتے ہیں کہ پرویز مشرف کی والدہ سفر نہیں کرسکتیں، حق تو یہ ہے کہ 15 دن گزرنے سے پہلے حکومت فراخدلی دکھائے پرویز مشرف واپس آئیں گے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنا نام کلیئرکرانا چاہتے ہیں ان کے آنے جانے پر پابندی نہیں ہونی چاہیے ان کو اپنا دفاع کرنے کا موقع ملنا چاہیے ۔ انہوں نے کہاکہ خصوصی عدالت کی ڈائریکشن کے مطابق پوری دستاویزات نہیں دی جاتیں میری درخواست ہے کہ پوری دستاویزات تو فراہم کی جائیں تاکہ صاف شفاف ٹرائل ہوسکیں میں پہلے بھی کہتا رہا ہوں اور آج بھی کہتا ہوں کہ ہماری عدلیہ آزاد ہے اور ثابت کرکے دکھایا ہے وکلاءکےلئے آج کا دن بہت بڑا ہے ہم وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ عدلیہ آزاد ہے آئندہ بھی عدلیہ فیصلے آزادانہ طور پر دے ۔دریں اثناءغداری کیس میں پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے متعلق فیصلے کے د وحصے ہیں ، پہلے حصے میں ای سی ایل آرڈرکو کالعدم قرار دیاگیاہے جو خوش آئند ہے دوسرے حصے میں حکومت کو پندرہ دن کے اندر اپیل کی مہلت دی گئی ہے ۔حکومت اگر پندرہ دن کے اندر سپریم کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے تو رجوع کرسکتی ہے ۔میرے پچاس سالہ تجربے میں اس قسم کی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ جہاں اپنے فیصلے کو مو¿خر کیا جائے، فیصلے کو مو¿خر کرنے کا کوئی جوازنہیں۔انہوں نے کہاکہ پہلے بھی کہتا رہا ہوں اور آج بھی واشگاف الفاظ میں کہہ رہا ہوں کہ سابق صدر پرویز مشرف پر مقدمات سیاسی ہیں جیسے ہی سیاست میں تبدیلی آتی ہے مقدمات بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
پروےز مشرف اجازت