کالاباغ ڈیم ۔ حقیقت کیا ، فسانہ کیا ؟ ( 14)
اگر صرف پانی ذخیرہ کرنے کے لئے کالا باغ ڈیم (Storage Dam) بنایا جائے ، تب بھی واپڈا چوری چُھپے اِس ڈیم سے نہریں نکال کر زیریں علاقوں کیلئے دریا ئے سندھ کے پانی کے بہاؤ کو کم کر دے گا۔اس تصور کے حق میں مثال دی جاتی ہے کہ پنجاب نے 1985ء میں چشمہ جہلم لنک کینال یکطرفہ طور پر کھول لی تھی۔جہاں تک 31سال پہلے چشمہ جہلم لنک کینال میں پانی چھوڑنے کا تعلق ہے ،تو قارئین کو یہ بات مدِّ نظر رکھنی چاہئے کہ اُس وقت پانی کی تقسیم کا معاہدہ طے نہیں پایا تھا۔ چشمہ جہلم لنک کینال سندھ طاس متبادل منصوبوں کے تحت تعمیر کی گئی تھی اور اِس نہر کو بھی تونسہ پنجند لنک کینال کی طرح سندھ طاس معاہدے کے نتیجے میں مشرقی دریاؤں میں پیدا ہونے والی پانی کی کمی کا ازالہ کرنے کیلئے استعمال میں لایا جانا تھا۔ چشمہ اور تونسہ بیراج سے نکلنے والی اِن دو نہروں نے دریائے سندھ کو دریائے جہلم اور دریائے چناب سے ملاکر جنوبی پنجاب میں واقع نہری نظام کو پانی فراہم کرنا تھا۔سال1985 ء میں گرمی کا موسم بہت خشک تھا اور اس پر مستزاد یہ کہ دریائے جہلم اور دریائے چناب میں آنے والا پانی اتنا کم تھا کہ تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ 1970 ء سے1984ء تک اپریل سے جون کے دوران پانی کے ماہانہ اوسطاً بہاؤ کے مقابلے میں 1985 ء کے اسی دورانیہ میں دریائے سندھ، دریائے جہلم اور دریائے چناب میں پانی کے ماہانہ اوسطاّ بہاؤ میں بالترتیب 28.5فیصد، 31.4فیصد اور 43.4 فیصدکمی واقع ہوئی۔
جنوبی پنجاب کے ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں واقع اُن علاقوں میں جہاں تریموں اور تونسہ بیراج کے ذریعے آبپاشی کی جاتی ہے، صورتِ حال ابتر ہوگئی اور خریف کی فصلوں کی بوائی بُری طرح متاثر ہوئی۔ صرف کپاس کی فصل کا ذکر کیا جائے تو اس کی کاشت کا رقبہ کم ہوکر نصف رہ گیاتھا۔28 فروری 1985 ء کے غیرجماعتی انتخابات کے بعد وفاق اور صوبوں میں حکومتیں قائم ہوئے بہت تھوڑا عرصہ گزرا تھا۔ اسمبلیوں میں نہ تو فلور کراسنگ پر کوئی پابندی تھی اور نہ ہی عدم اعتماد کی تحریک کے دوران کسی کے حق یا مخالفت میں ووٹ دینے پر کوئی قدغن تھی۔ ایسی صورت میں پانی کے حقوق کے تحفظ کیلئے صوبوں کی سیاسی قیادت سے وہاں کی عوام نے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر رکھی تھیں۔ اُس وقت کے وزیر اعلیٰ محمد نواز شریف کا تعلق لاہور سے تھا۔ اِس سے پہلے پنجاب کے جتنے وزرائے اعلیٰ گزرے، اُن میں سے بیشتر جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔ جنوبی پنجاب سے تعلق نہ ہونے کی بنا پر محمد نواز شریف اُس علاقے میں پانی کی کمی کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے شدید دباؤ کا شکار تھے۔ انہوں نے مسئلے کی نوعیت معلوم کرنے کے بعد وزیراعلیٰ سندھ سید غوث علی شاہ سے مذاکرات کئے تاکہ چشمہ جہلم لنک کینال جو 9 مئی 1985 ء کو بندکر دی گئی تھی، میں پانی کی فراہمی شروع کی جاسکے۔ یہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے اور معاملہ وفاقی حکومت کو بھجوا دیا گیا۔ اِسی دوران وزیراعلیٰ پنجاب نے خشک سالی کے شکار جنوبی پنجاب کے تینوں ڈویژن کیلئے دو دو لاکھ روپے کی مالی امداد کا اعلان کر دیا۔ پنجاب اسمبلی میں 7 تحاریک استحقاق پیش کی گئیں جبکہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ارکان نے پنجاب اسمبلی میں تندوتیز تقاریر کرتے ہوئے پانی کا مسئلہ حل نہ کرنے پر صوبائی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔دریں اثنا سندھ اسمبلی میں بھی استحقاق کی 3 تحاریک پیش کی گئیں جن میں سندھ حکومت سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ پنجاب اسمبلی کے ارکان کے بیانات کا نوٹس لے۔
اِس پس منظر میں وفاقی حکومت، جسے یہ مسئلہ پہلے ہی بھجوایا جاچکا تھا، نے معاملے کو اپنے ہاتھ میں لیا اور اُس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو کی ہدایت پر 8 جون 1985ء کی شام چشمہ جہلم لنک کینال کھول دی گئی، تاہم نہر میں بہت ہی کم یعنی 4 ہزار کیوسک پانی چھوڑنے کی اجازت دی گئی جبکہ اس نہر کی گنجائش 21 ہزار 700 کیوسک تھی۔ صورتِ حال کی نزاکت کے پیش نظر پانی اور بجلی کی وزارت کو یہ ہدایت جاری کی گئی کہ وزیراعظم کے مذکورہ احکامات کو منظرِعام پر نہ لایا جائے۔غور طلب بات یہ ہے کہ اُس وقت محمد خان جونیجو وزیراعظم، میرظفراللہ خان جمالی وفاقی وزیربرائے پانی و بجلی، قاضی عبدالمجید عابد وفاقی وزیر برائے خوراک و زراعت، کیپٹن یو اے جی عیسانی وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری جبکہ وہاب ایف شیخ وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی تھے اور ان میں سے کسی کا تعلق بھی صوبہ پنجاب سے نہیں تھا۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو کی جانب سے چشمہ جہلم لنک کینال کھولنے کے فیصلے کا حکم ریکارڈ پر ہے اور اِس کی تصدیق خود وزیراعلیٰ سندھ سید غوث علی شاہ نے کی، جنہوں نے صوبائی اسمبلی کے فلور پر کہا کہ ’’مجھے آج صبح بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم محمد خان جونیجو کے حکم پر نہر کو دوبارہ کھول دیا گیا ہے‘‘۔ قابلِ احترام وزیراعلیٰ نے مزید کہا ’’۔۔۔ یہ حقیقت ہے کہ چشمہ جہلم لنک کینال کو دوبارہ کھولنے سے قبل سندھ سے مشاورت نہیں کی گئی۔ اگرچہ یہ نہر ایک ایسے وقت میں کھولی گئی ہے، جب تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح ایک ایسے مقام تک پہنچ چکی ہے، جس سے صوبہ سندھ کی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں‘‘۔(بحوالہ روزنامہ ڈان۔ 12جون 1985ء۔اخبار کے تراشے کا عکس واپڈا کی ویب سائٹ پرموجود ہے۔) وزیراعظم محمد خان جونیجو اُس وقت کے پیرصاحب پگاڑا کے مُریدین میں شامل تھے۔پیرصاحب پگاڑا ، وزیراعظم پر ہونے والی کسی بھی ممکنہ تنقید کا راستہ روکنا چاہتے تھے۔ چنانچہ اُنہوں نے تمام تر حقائق کے برعکس گورنر پنجاب پر یہ الزام عائد کردیا کہ انہوں نے یکطرفہ طور پر نہر کھولنے کے احکامات جاری کئے ہیں۔ سندھ میں اس بیان کی بہت زیادہ تشہیر ہوئی اور جو لوگ پنجاب کے حوالے سے ہمیشہ ہی اپنے خوف، اندیشوں اور وسوسوں کے تحت کسی ایسی ہی بات پر یقین کرنا چاہتے تھے ، اُنہوں نے اس بیان کو فوراً سچ تسلیم بھی کرلیا۔اِس معاملے کا مرکزی محور یہ تنازعہ تھا کہ سندھ حکومت کی مرضی کے بغیر چشمہ جہلم لنک کینال کو کھولا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اِس نکتے پر اختلافِ رائے میں سندھ کے پاس یہ جواز موجود تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو جب وزیراعظم تھے تو سندھ اور پنجاب کے درمیان ہونے والے معاہدے میں یہ لکھا تھا کہ اگر وزیراعلیٰ سندھ اعتراض کریں گے تو اِس نہر میں پانی نہیں چھوڑا جائے گا۔ گو یہ معاہدہ ایک مخصوص مدت کیلئے تھا اور اس پر وفاقی حکومت کی جانب سے عبدالحفیظ پیرزادہ کے دستخط تھے مگر چونکہ خشک سالی کے غیرمعمولی حالات تھے تو معاملات کو وفاقی حکومت نے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اِس حوالے سے وزیر اعلیٰ پنجاب کے اُس بیان کی سندھ میں بڑی منفی تشہیر کی گئی،جس میں مبینہ طور پر اُنہوں نے سندھ حکومت کے ویٹو کے حق کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اس منفی تشہیر کے جواب میں وزیراعلیٰ پنجاب نے ایک طویل وضاحتی بیان جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ چشمہ جہلم لنک کینال کھولنے کا حتمی اختیار وفاقی حکومت کو حاصل ہے۔ اپنے بیان میں اُنہوں نے سندھی بھائیوں کو ایک بارپھر یقین دہانی کرائی کہ اگر کبھی اُن کی نہریں خشک ہوئیں تو پنجاب اپنے لہو سے اُن کی اراضی سیراب کرے گا۔(بحوالہ روزنامہ ڈان۔12جون 1985 ء)
پانی کے معاملات پر عدم اتفاق ہوسکتا ہے اور اِس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ یہی وجہ تھی کہ وفاق نے معاملہ حل کرنے کی کوشش کی ،لیکن ریکارڈ دیکھنے کے بعد یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ وفاق کی کسی بھی اکائی نے یا وفاق کے زیرانتظام کسی بھی ادارے نے کبھی اپنے طور پر یکطرفہ کارروائی نہیں کی۔ پاکستان کے وفاقی نظام میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی صوبے کی مرضی کے خلاف کوئی منصوبہ منظو رکیا گیا ہو اور اس کیلئے فنڈز مختص کئے گئے ہوں۔ اگر ایسی بات ہوتی تو آبادی کے لحاظ سے اکثریتی صوبہ پنجاب ،پلاننگ کمیشن سے کالاباغ ڈیم منظور کرا لیتا۔وفاقی اکائیوں کی جانب سے کی جانے والی مخالفت ہی کے باعث کالاباغ ڈیم منصوبہ ابھی تک منظور نہیں ہوا۔ دوسری جانب دیامر بھاشا ڈیم کا منصوبہ جس کی تعمیرنہایت مشکل کام ہے، اُس پر عملدرآمدجاری ہے کیونکہ اس منصوبے کو وفاق کی چاروں اکائیوں کی منظوری حاصل ہے۔میں نے اِن تفصیلات کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ کالاباغ ڈیم منصوبے کے مخالفین اپنے دلائل میں ایسے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں، جن سے آئین اور وفاق کے ڈھانچے کی نفی ہوتی ہے۔ اس تصورکے بارے میں کہ اگر کالاباغ ڈیم بن گیا تو خیبر پختونخوا یا پنجاب اس ڈیم سے نہریں نکال لے گا، وضاحت کرتا چلوں کہ اول تو جیسا کہ قسط نمبر 9میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ ڈیم کے ماہرین اُسے پہلے ہی ناقابلِ عمل قرار دے چکے ہیں اور پھر بھی اگراس بارے میں سوچا جائے تو نہر تعمیر کرنے کے منصوبے کو درج ذیل مراحل سے گزرنا ہوگا:
الف۔منصوبہ بندی کا مرحلہ (دو سال)
ب۔منظوری کا مرحلہ اورٹھیکہ(ایک سال)
ج۔تعمیر کا مرحلہ (چار سال)
علاوہ ازیں اس طرح کے بڑے منصوبوں کی منظوری قومی اقتصادی کونسل میں دی جاتی ہے۔ جہاں صوبائی حکومتوں کی رضامندی کے بغیر ایسا ممکن نہیں۔یہاں اِس بات کا ذکر مناسب ہوگا کہ اب صوبہ خیبرپختونخوا کے جن علاقوں کو اِس مجوزہ نہر سے سیراب کرنا تھا اُس کے لئے بہت سال پہلے چشمہ رائٹ بینک لفٹ کینال کا منصوبہ منظور ہوا اور چند ہفتے پہلے اس پر وفاق اور صوبہ کے درمیان عمل درآمد کا معاہدہ بھی ہوچکا ہے اور ڈیرہ اسماعیل خان کے جلسہ عام میں وزیراعظم پاکستان اِس کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔اب اس سوچ کا جواز ہی باقی نہیں رہاکہ کالاباغ ڈیم بننے کے بعد اِس میں سے نہر نکالے جانے کا خدشہ رہے گا۔