اگلے ہفتے سعودی حکومت ایک بار پھر غیر ملکیوں پر بجلیاں گرانے والی ہے
ریاض(مانیٹرنگ ڈیسک) سعودی حکومت نے اپنے شہریوں کو زیادہ سے زیادہ روزگار فراہم کرنے کے لیے ”سعودائزیشن پروگرام“شروع کر رکھا ہے جسے ”قانون نطاقت “ بھی کہا جاتا ہے، تاہم اسے اس میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی جس کی کئی وجوہات ہیں۔ اب سعودی وزارت محنت نے اس پروگرام پر کامیابی سے عملدرآمد کے لیے اس میں کچھ ترامیم کر دی ہیں اور اس نئے قانون کا نام ”متوازن قانون نطاقت“ رکھا گیا ہے جو آئندہ ہفتے سے لاگو کر دیا جائے گا۔ عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق نئے قانون کے تحت تمام پیشوں کی درجہ بندی کی جائے گا جس کی بنیاد متعلقہ پیشے میں موجود سعودی ملازمین کی تعداد پر ہو گی۔ اس کے علاوہ بھی اس میں کئی عوامل شامل کیے گئے ہیں جن اہم ترین اوسط تنخواہ اورمتعلقہ پیشے میں خواتین کی شمولیت شامل ہیں۔ وزیرمحنت مفرج الحقبانی کا کہنا ہے کہ ” فہرست میں سعودی ملازمین کا محض نام درج کرنا مو¿ثر ثابت نہیں ہو رہا۔ اس کے نام کے ساتھ ساتھ اس کی تنخواہ، ملازمت کی مدت اور ملازمت کی قسم بھی درج کی جائے گی۔ یہ فیصلہ ریاست کے ویژن 2030ءکے تحت سعودی شہریوں کو زیادہ سے زیادہ برسرروزگار بنانے کی حکمت عملی کے پیش نظر کیا گیا ہے جس کا مقصد لیبرمارکیٹ میں خواتین کی شمولیت کوبڑھا کر 30فیصد تک کرنا ہے، جو اس وقت 22فیصدہے۔ ریاست اپنی معیشت کا انحصار تیل سے دیگر ذرائع آمدن پر منتقل کرکے اس میں تنوع پید اکرنا چاہتی ہے اور اسی مقصد کے تحت یہ قانون متعارف کروایا گیا ہے۔“مفرج الحقبانی کا کہنا تھا کہ ”اس وقت پرائیویٹ سیکٹر میں 17لاکھ سعودی شہری ملازمت کر رہے ہیں جن میں صرف4لاکھ 77ہزار خواتین شامل ہیں اور لیبر مارکیٹ میں خواتین کی یہ تعداد تسلی بخش نہیں ہے۔ ہم اسے مزید بڑھانا چاہتے ہیں۔ گزشتہ سال کے اعدادوشمار کے مطابق سعودی شہریوں میں بیروزگاری کی شرح 11.5فیصد تھی جبکہ سعودی خواتین میں یہ شرح 34فیصد تھی۔“