سندھ حکومت کا نئے سال کا بجٹ

سندھ حکومت کا نئے سال کا بجٹ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سندھ حکومت نے نئے مالی سال کے لئے869ارب روپے کا بجٹ پیش کر دیا ہے، جس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں وفاقی حکومت کی طرح اضافہ کیا گیا ہے، اِسی طرح کم از کم اُجرت14ہزار روپے ماہانہ مقرر کی گئی ہے، بجٹ میں50ہزار نئی ملازمتیں پیدا کی گئی ہیں،20ہزار بھرتیاں صرف پولیس کے لئے ہوں گی،10ہزار ملازمتیں محکمہ تعلیم کے لئے ہوں گی۔محکمہ صحت میں3500ملازمین بھرتی کئے جائیں گے۔کراچی کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے50ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ بجٹ میں کل آمدنی854ارب روپے ظاہر کی گئی ہے، جسے پورا کرنے کے لئے خدمات پر ٹیکس کا دائرہ بڑھا دیا گیا، تعلیم اور صحت کے لئے243ارب روپے رکھے گئے ہیں، جو کل بجٹ کا تقریباً28.5فیصد ہے، صوبے کی اپوزیشن جماعتوں نے سندھ کے بجٹ کو مسترد کر دیا ہے اور اسے الفاظ کی ہیرا پھیری اور عوام دشمن قرار دیا ہے۔ اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کی گزشتہ آٹھ سال کی کارکردگی سے عوام کو یقین ہو گیا کہ سندھ میں صرف لوٹ مار ہو رہی ہے، بجٹ میں کراچی اور حیدر آباد کے لئے کوئی بڑے منصوبے نہیں رکھے گئے، جو سکیمیں بنائی گئیں یہ اونٹ کے مُنہ میں زیرے کے مترادف ہیں، ماضی میں10فیصد کمیشن کی باتیں ہوتی رہیں، لیکن اب سندھ حکومت سو فیصد کمیشن مافیا بن چکی ہے۔
وفاقی بجٹ کے بعد صوبائی حکومتوں نے اپنے بجٹ پیش کرنے شروع کر دیئے ہیں۔ سندھ حکومت کے بعد13جون کو(آج) پنجاب کا بجٹ پیش کیا جائے گا۔ بعد ازاں باقی صوبائی حکومتیں بھی اپنے اپنے بجٹ پیش کریں گی اور صوبوں کے وسائل کے حساب سے ترقیاتی منصوبے بھی پیش کئے جائیں گے تاہم ایک بات نوٹ کی گئی ہے کہ جس طرح قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے بجٹ کو مسترد کر دیا تھا۔ اسی طرح جو جماعتیں سندھ میں حکومت کی مخالف ہیں انہوں نے بھی سندھ کا بجٹ مسترد کر دیا ہے اِس لحاظ سے وفاقی حکومت اور سندھ حکومت ایک ہی مقامِ بلند پر کھڑی ہیں کہ ان دونوں کی اپوزیشن میں قدر مشترک یہی ہے کہ وہ بجٹ کو مسترد کرنے میں تاخیر نہیں کرتی، وفاق میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت ہے اور یہاں قائد حزب اختلاف کا تعلق پیپلزپارٹی کے ساتھ ہے۔ تحریک انصاف بھی اپوزیشن میں ہے، صوبہ سندھ میں پیپلزپارٹی حکمران جماعت ہے اور ایم کیو ایم بڑی حزبِ اختلاف ہے اور باقی جماعتیں بھی اپوزیشن میں ہیں۔
اس وقت وفاقی بجٹ پر قومی اسمبلی میں بحث جاری ہے، لیکن دوران بحث کوئی ایسا نکتہ اب تک سامنے نہیں آیا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ جو بجٹ وفاقی حکومت نے پیش کیا ہے اسے کس طرح بہتر بنایا جا سکتا تھا، نہ کوئی ایسا لائحہ عمل دیا گیا ہے جس پر عمل کر کے وفاقی حکومت اپنے بجٹ کو بہتر بنا سکے، بجٹ پر جو تقریریں اسمبلی میں ہو رہی ہیں اُن میں بجٹ پر تو دو چار جملے ہوتے ہیں باقی اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی ہیں، حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ حزبِ اختلاف کے ارکان بھی تیاری کر کے اسمبلی میں آتے،بہت سے ارکان نے تو شاید بجٹ کو پڑھنا تو درکار اُسے سونگھا تک نہیں ہو گا، کیونکہ بجٹ والے دن جب اجلاس ملتوی ہوا تو پورے ہال میں بجٹ دستاویزات کے پلندے اسی طرح بندھے بندھائے پڑے تھے، جس طرح انہیں اسمبلی میں لایا گیا تھا۔ اب چند روز بعد اسمبلی کا عملہ اِن پلندوں کو ردی میں بیچ دے گا۔
سندھ کے بجٹ پر اپوزیشن کا ردعمل بھی اسی طرح کا ہے اس فرق کے ساتھ کہ وفاقی حکومت کو پیپلزپارٹی کی اپوزیشن کا سامنا ہے، اور سندھ کی حکومت کی اپوزیشن ایم کیو ایم ہے۔ دونوں اپوزیشنوں نے دونوں حکومتوں پر ایک ہی طرح کے الزامات لگائے ہیں۔ گویا بجٹ کی حد تک کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ سندھ حکومت نے پچاس ہزار نئی ملازمتیں مختلف شعبوں میں پیدا کی ہیں،اگر میرٹ پر تعیناتیاں ہوں اور اہل لوگوں کو بھرتی کیا جائے تو پولیس اور محکمہ تعلیم کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ سندھ پولیس پر سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ اس میں سفارشی لوگوں کو بھرتی کر لیا جاتا ہے، جو ملازم ہو کر اپنے سیاسی سرپرستوں کے سیاسی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور خود بھی کرپشن میں ملوث ہو جاتے ہیں، پولیس کے اعلیٰ افسر بھی اِس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ اگر پولیس کی کارکردگی زوال پذیر ہے تو اس کی بڑی وجہ بھرتی کے وقت میرٹ کو نظر اندازکرنا ہے۔ اگر بھرتیاں خالصتاً اہلیت کی بنیاد پر ہوں تو یہی پولیس نتائج دے سکتی ہے۔اب دیکھنا ہو گا کہ بجٹ میں پولیس کی جو بیس ہزار آسامیاں رکھی گئی ہیں وہ کیسے پُر ہوتی ہیں۔
پولیس کے بعد سب سے زیادہ ملازمتیں محکمہ تعلیم میں رکھی گئی ہیں یہاں بھی یہ حال ہے کہ سرکاری سکولوں میں ایسے اساتذہ بھرتی کر لئے جاتے ہیں جو سکولوں میں حاضر تک نہیں ہوتے اور صرف تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔ایک زمانے میں سندھ میں تعلیمی سروے کیا گیا تھا، جس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ آٹھویں جماعت کے بچے وہ کتابیں نہیں پڑھ سکتے جو پانچویں جماعت کا امتحان پاس کرنے والا بچہ آسانی سے پڑھ لیتا ہے یا اُسے کم از کم اس قابل ہونا چاہئے کہ وہ یہ کتابیں پڑھ سکے۔ اس سے صوبے میں معیارِ تعلیم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سندھ میں گھوسٹ سکول بھی موجود ہیں جن کی عمارتیں ہیں نہ سکولوں کا نام و نشان، لیکن کاغذوں میں بچے ان سکول میں جاتے بھی ہیں، اساتذہ پڑھاتے بھی ہیں اور باقاعدگی سے تنخواہیں بھی لیتے ہیں۔ ان سکولوں میں فرنیچر اور دوسری ضروریات بھی باقاعدگی سے خریدی جاتی ہیں، ایسے میں تعلیم کا جو حشر ہو گا وہ سب کے سامنے ہے۔ اب اگر نئی ملازمتیں اہلیت پر پُر کی جائیں اور گھوسٹ سکولوں کا خاتمہ کر دیا جائے تو حالات میں بہتری آ سکتی ہے۔
پولیس اور محکمہ تعلیم کے بعد 3500ملازمتیں محکمہ صحت کے حصے میں آئیں گی۔ یہاں بھی ماضی میں یہ شکایت رہی ہے کہ بھرتیاں میرٹ پر نہیں ہوتیں، بلکہ عدالت میں ایک کیس کی سماعت کے دوران یہ دلچسپ صورتِ حال سامنے آئی کہ دایوں کی آسامی پر ’’میل نرس‘‘ کو ملازم رکھ لیا گیا۔ اگر مقدمہ عدالت تک نہ پہنچتا تو شاید کسی کو پتہ بھی نہ چلتا، لیکن اس واقعہ کے منظرِعام پر آنے سے یہ تو معلوم ہو گیا کہ آسامیاں کام لینے کے لئے نہیں محض خانہ پُری کے لئے ہوتی ہیں اور ان کا مطلب کسی نہ کسی کو نوازنا ہوتا ہے۔
سندھ کے وزیر خزانہ سید مراد علی شاہ نے بجٹ کو عوام دوست قرار دیا تو اپوزیشن نے اسے عوام دشمن قرار دے کر مسترد کر دیا۔ یہی صورت حال وفاقی بجٹ کے وقت درپیش تھی جب حکومت اپنے بجٹ کو عوام دوست قرار دے رہی تھی اور اپوزیشن اسے عوام دشمن کہہ کر مسترد کر رہی تھی۔ اب ان دونوں آرا میں سے کون سی درست ہے یہ فیصلہ تو عوام نے کرنا ہے، لیکن دونوں جگہ اپوزیشن کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ بجٹ کے ’’عوام دشمن‘‘ حصوں کو سامنے لائے تاکہ عوام کو بھی تو کچھ پتہ چلے کہ اُن کے ساتھ کہاں کہاں دشمنی کی جا رہی ہے۔ سرسری طور پر بجٹ کو پڑھے اور سُنے بغیر مسترد کر دینا کوئی اچھی روایت نہیں ہے۔
سندھ میں پیپلزپارٹی2008ء سے حکمران چلی آ رہی ہے۔ یہ اس کا نواں بجٹ ہے اس نے اپنی حکومت کے آٹھ سال مکمل تو کر لئے ہیں، لیکن افسوس ہے کہ ’’گڈ گورننس‘‘ کے کوئی ایسے نمونے پیش نہیں کئے، جو دوسرے صوبوں کے لئے لائقِ تقلید ہوں۔ اس عرصے میں صوبے کی حالت تبدیل ہو جانی چاہئے تھی، لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ اندرون سندھ غربت، جہالت اور بے چارگی پہلے کی طرح موجود ہے، تھر میں غذائی قلت کی وجہ سے بچوں اور عورتوں کی اموات اِسی طرح ہو رہی ہیں، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔تھر میں پانی کے کنوؤں میں بھی کرپشن سامنے آ رہی ہے۔ پیپلزپارٹی وفاقی حکومت کو جن امور پر ہدف تنقید بناتی ہے اپنے ہاں اُن کا کوئی بہتر ماڈل پیش نہیں کرتی، کاشتکاروں کو شکایت ہے کہ شوگر ملیں اُن سے گنا مقررہ سرکاری قیمت پر نہیں خریدتیں، جنہیں دور کرنے کی طرف توجہ نہیں دی جاتی، لیکن اگر وفاقی حکومت کسانوں کے لئے کھاد سستی کرتی، زرعی ادویات کی قیمتیں کم کرتی یا کسانوں کو ٹیوب ویلوں کے لئے سستی بجلی فراہم کرتی ہے تو اِسے ’’پنجابستان‘‘ کا بجٹ قرار دے دیا جاتا ہے، حالانکہ اس سے پورے مُلک کے کاشتکار مستفید ہوں گے، سندھ کے بجٹ میں حکومت کا کوئی ایسا کارنامہ سامنے نہیں آیا جسے وہ وفاقی حکومت کے مقابلے پر پیش کر کے کہہ سکے کہ یہ ہوتا ہے بجٹ، حالانکہ ایسے چند کارنامے تو سامنے لائے جا سکتے تھے جسے حکومت اپنی اس قیادت کے وژن کے طور پر پیش کرتی، جو وفاقی حکومت پر نکتہ چینی میں پیش پیش ہے، لیکن لگتا ہے دوسروں پر تنقید تو فراخ دلی سے کی جاتی ہے عملاً خود کچھ کر کے دکھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔

مزید :

اداریہ -