حسین نواز تصویر لیکس ، جے آئی ٹی کا اقرار ، مجرم کا نام پیش کرنے سے انکار
اسلام آباد( مانیٹرنگ ڈیسک228 ایجنسیاں)سپریم کورٹ میں پاناما لیکس عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی جانب سے کہا گیا ہے کہ مختلف اداروں کا ریکارڈ تبدیل( ٹمپر) کرنے کے ساتھ ساتھ جے آئی ٹی کے حوالے کرنے میں پس وپیش سے کام لیا جا رہا ہے۔ جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ میں درخواست پیش کی جس میں کہا گیا ہے کہ تحقیقات مقررہ ساٹھ دنوں میں نہیں ہوسکتی۔ ریاستی ادارے ریکارڈ کی فراہمی میں تاخیر کررہے ہیں، تیس دن سے زائد کاوقت گزر چکا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے معاملے پر حسین نواز کے وکیل اور اٹارنی جنرل آفس سے جواب طلب کرلیا ہے ۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ کچھ اداروں پر ریکارڈ تبدیل کرنے کا الزام سنگین ہے، عدالت نے استفسار کیا کہ ریاستی اداروں کے سربراہ تحقیقات کے بعد عدالت کو خط کیوں لکھتے ہیں؟پاناما کیس کے خصوصی بینچ نے کہا کہ جے آئی ٹی کے پاس وقت انتہائی کم ہے،مسائل اور دشواریاں پیدا کرنے سے بڑی مشکل پیدا ہوجائے گی۔ تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پر جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا نے تصویر لیکس پر رپورٹ بینچ کے روبرو پیش کی۔ تینوں ججز نے تصویر لیکس پر باہمی مشاورت کی ۔ مشاورت کے بعد جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ سیکشن 161اور 162میں ویڈیو ریکارڈنگ کی ممانعت نہیں نہ ہی کہیں ویڈیو ریکارڈنگ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ویڈیو ریکارڈنگ بطور شہادت استعمال نہیں ہوتی ۔ البتہ ریکارڈ کی درستگی کے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی کے پاس وقت کم ہونے کے باعث وہ ریکارڈنگ کرتی ہے۔ ویڈیو ریکارڈنگ کے معاملے پر اٹارنی جنرل سے جواب لے لیتے ہیں، عدالت نے استفسار کیا کہ ریاستی اداروں کے سربراہ تحقیقات کے بعد عدالت کو خط کیوں لکھتے ہیں؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ اگر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں تو ٹائم فریم میں کام مکمل نہیں ہو گا۔جے آئی ٹی نے وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کی تصویر لیک ہونے کے حوالے سے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی ، میڈیا رپورٹس کے مطابق جے آئی ٹی نے اس حوالے سے تصویر کا اقرار کیا مگر مجرم کا نام پیش کرنے سے انکار کیا ۔ حسین نواز کی تصویر لیک ہونے سے متعلق سر بمہر رپورٹ جمع کرائی۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث جے آئی ٹی کی پیش کردہ رپورٹ کا جائزہ لے رہے ہیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ ہمیں جے آئی ٹی پر تحفظات ہیں ایک مسئلہ جے آئی ٹی میں ویڈیو ریکارڈنگ کا بھی ہے، جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ویڈیو ریکارڈنگ پر کوئی قانونی پابندی نہیں ، ویڈیو ریکارڈنگ کا مقصد انٹرویو کا ٹرانسکرپٹ تیار کرنا ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی کو محدود وقت میں کام مکمل کرنے کا کہا گیا ہے جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آپ جے آئی ٹی کا جواب پڑھے بغیر دلائل دینا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی ہے، آپ جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراضات بھی جمع کرا سکتے ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو اعتراض نہ ہو تو خواجہ حارث کو رپورٹ دی جاسکتی ہے، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل رپورٹ کا جائزہ لے لیں، جس نے تصویر لیک کی اس کے خلاف کیا کارروائی کی جاسکتی ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے کہا کہ جے آئی ٹی کو رپورٹ پبلک کرنے پر اعتراض نہیں۔عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو تصویر لیک ہونے کے معاملے پر رپورٹ کا جائزہ لینے کی ہدایت کی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی ڈیڈ لائن میں کام کررہی ہے، اگر کارروائی میں رکاوٹ ڈالی گئی تو جے آئی ٹی کیسے کام کرے گی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ جے آئی ٹی میں بیان ریکارڈ کرانے والے سرکاری افسر بعد میں سپریم کورٹ کو خط لکھتے ہیں اوروہ خط میڈیا کو جاری کردیے جاتے ہیں اس معاملہ کے قانونی پہلو کا بھی جازۂ لیا جائے کیا ایسا کیا جاسکتا ہے ۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب حکومت کو یہ زیب دیتا ہے کہ جے آئی ٹی کے خط کو میڈیا کے حوالے کرے؟جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ اٹارنی جنرل آپ فیڈریشن کی نمائندگی کریں نہ کہ ایک شخص کی۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ سیکشن 162 کے تحت ویڈیو ریکارڈنگ پر کوئی پابندی نہیں جسٹس اعجاز الالحسن نے کہا کہ ویڈیو ریکارڈنگ کسی گواہ کے خلاف استعمال نہیں ہوسکتی۔بعدازاں عدالت نے اٹارنی جنرل اور حسین نواز کے وکلا کو جے آئی ٹی کے جواب پر جواب الجواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے خواجہ حارث کو کہا کہ آپ کا جواب پرسوں سن لیں گے۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جے آئی ٹی نے تصویر لیکس سے متعلق بیشتر الزامات مسترد کر دیئے ہیں ۔جسٹس اعجاز افضل نے حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث سے مکالمے میں کہا کہ ان کو جے آئی ٹی کا جواب دیکھنا چاہیے، کیا جے آئی ٹی کا جواب پڑھے بغیر جواب دینا چاہتے ہیں؟جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو اعتراض نہ ہو تو خواجہ حارث کو رپورٹ دی جاسکتی ہے، اٹارنی جنرل رپورٹ کا جائزہ لیں، جس نے تصویر لیک کی اس کے خلاف کیا کارروائی کی جاسکتی ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل اور حسین نواز کے وکلا کو جے آئی ٹی کے جواب پر جواب الجواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت 14 جون تک ملتوی کردی۔
جے آئی ٹی۔سپریم کورٹ