پانی کامسئلہ کسی سیاسی جماعت کے منشور میں شامل نہیں
پاکستان میں نئے ڈیموں کی تعمیر اور پانی کی قلت پر قابو پانے کی مہم عروج پر پہنچ گئی ہے، اسی تناظر میں سپریم کورٹ نے پانی سے متعلق مقدمات کی سماعت کا اعلان کیا ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ یہ واٹر بم کا معاملہ ہے۔ ہم پانی کے معاملے کو بہت سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔ پانی ہمارے بچوں کا بنیادی حق ہے۔
ہماری ترجیحات میں سب سے اہم پانی ہے۔ فاضل عدالت نے باور کرایا کہ بھارت کے کشن گنگا ڈیم کے باعث نیلم جہلم خشک ہوگیا۔ ہم نے اپنے بچوں کو پانی نہ دیا تو کیا دیا۔ فاضل عدالت نے اس سلسلے میں وفاقی حکومت سے تحریری جواب بھی طلب کرلیا۔ حال تو یہ ہے کہ پانی کے مسئلے کا حل کسی بھی سیاسی جماعت نے اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا۔
کسی پارٹی کے منشور میں بھی پانی کا ذکر نہیں، جبکہ پانی کے ایشو سے زیادہ کوئی ایشو اہم نہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس وقت سوشل میڈیا پر پینے کے صاف پانی کی قلت، کالاباغ ڈیم اور نئے ڈیموں کی تعمیر کے لئے زورشور سے مہم جاری ہے، جس پر چیف جسٹس سپریم کورٹ نے پانی کی فراہمی کی کمی کا ازخود نوٹس لیا ہے۔
پاکستان کی 30 فیصد شرح ترقی پانی پر منحصر ہے، مگر گزشتہ 48 سال سے ملک میں کوئی نیا ڈیم تعمیر نہیں ہو سکا۔ دوران سماعت فاضل عدالت نے بھارت کی جانب سے نئے ڈیموں کی تعمیر پر تشویش کا اظہار کیا اور ریمارکس دیئے کہ آج سے ہماری ترجیحات میں اولین ترجیح پانی ہے۔
ہماری قومی سیاسی قیادتوں کو قومی جذبے سے سرشار ہو کر اپنے حصے کے پانی کے حصول اور مختلف ڈیموں کے ذریعے اس پانی کو بروئے کار لاکر جامع، ٹھوس اور قابل عمل پالیسی طے کرنا چاہیے تھی، جسے ایک دوسرے پر پوائنٹ سکورنگ اور بلیم گیم والی سیاست کی زد میں آنے سے مکمل محفوظ رکھا جاتا اور کوئی سیاسی جماعت اور اس کا لیڈر پانی پر کسی قسم کی مفاہمت کا سوچ بھی نہ سکتا، مگر بدقسمتی سے مفاد پرستی کی سیاست قومی سلامتی کی سیاست پر حاوی ہوگئی اور سیاست دانوں کے ایک طبقے نے، جس کی ڈوریاں ہماری سلامتی کے درپے بھارت کی جانب سے ہی ہلائی جارہی تھیں، کالاباغ ڈیم کو متنازعہ بنایا، اس کے علاوہ بھی کوئی نیا ڈیم تعمیر ہونے دیا، نہ اس کی جانب کسی قسم کی پیش رفت کی۔
جب بھارت نے مقبوضہ وادی میں پہلی بار دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم کی تعمیر شروع کی تو ہمارے حکمران اور آبی ماہرین نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے رکھیں اور اس پر عالمی بنک میں کسی قسم کا اعتراض نہ اٹھایا، جب اس ڈیم کی تعمیر مکمل ہوگئی تو ہمارے منصوبہ سازوں کو ہوش آیا اور انہوں نے اس ڈیم کے خلاف عالمی بینک سے رجوع کیا، مگر وہاں اس لئے شنوائی نہ ہو سکی کہ اب تو ڈیم تعمیر بھی ہوچکا ہے، جسے گرانے کا حکم دینا مناسب نہیں۔
یہ تلخ حقیقت اپنی جگہ پر موجود ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہماری دھرتی پر موجود پانی کے ذخائر میں حیرت ناک حد تک کمی واقع ہورہی ہے اور زیرزمین پانی کی سطح بہت تیزی سے نیچے گررہی ہے۔ آبی ماہرین اسی تناظر میں خطرے کی گھنٹی بجاچکے ہیں کہ 2025ء تک زیرزمین پانی تک ہماری دسترس ختم ہو جائے گی۔ اس وقت بھی ملک کے بیشتر حصوں، بالخصوص سندھ میں پانی کی اس حد تک قلت ہوچکی ہے کہ لوگ پانی کے حصول کے لئے ٹکریں مارتے نظر آتے ہیں۔ اس کا واحد حل پانی ذخیرہ کرنے کے ذرائع پیدا کرنا ہے، مگر ہمارے حکمران طبقات اس بصیرت سے محروم ہیں، جو بھارتی آبی دہشت گردی کے خلاف اپنا مضبوط کیس تیار کرنے کے بھی اہل نہیں۔
ملک میں نئے ڈیموں کی تعمیر نہ ہونے کے باعث ہرسال 34 ملین ایکٹر فٹ پانی سمندر برد ہوکرضائع ہورہاہے، جس کی وجہ سے پاکستان کاشمار دنیا کے ایسے 15 ممالک میں ہونے لگاہے، جہاں پر پانی کی دستیابی مشکل کاشکار ہے۔
ایشیئن ڈویلپمنٹ بینک کے مطابق پاکستان کاشمار ایسے ممالک میں ہوتاہے، جہاں بین الاقوامی پیمانے کے مطابق ایک ہزار دنوں کی ضرورت کے مطابق پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے، مگرحکومت کی جانب سے نئے ڈیموں کی تعمیرکے حوالے سے عدم دلچسپی کے باعث محض پاکستان تیس دنوں کی ضرورت کاپانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔
آب پاشی کے ماہرین کے مطابق پاکستان کے پاس اس وقت 13 ملین ایکٹر فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے اورہرسال 34 ملین ایکٹر پانی سمندرمیں گرکرضائع ہورہاہے، جسے ماہرین ناقص منصوبہ بندی کانتیجہ قراردیتے ہیں۔ گذشتہ حکومت نے لیزرسے زمین ہموار کرنے کے آلات دینے اورڈرپ اریگیشن کے پروگرام شروع کئے تھے، لیکن معلوم نہیں ان کا کیابنا۔
آب پاشی کے ذرائع کے مطابق اگرحکومت نے پانی کی کمی کی طرف توجہ نہ دی تو یہ صرف ملک کی داخلی سلامتی ہی نہیں، بلکہ خطے کے امن کے لئے بھی خطرہ بن سکتاہے۔
آبادی میں تیزی سے اضافہ اورزرعی معیشت رکھنے والے ملک میں پانی کی قلت خوراک کی کمی کے بحران کو جنم دے سکتی ہے۔ ملک بھرمیں جوچندایک ڈیم بنائے بھی جارہے ہیں، وہ تھوڑی بہت بجلی پیداکرسکتے ہیں، لیکن پانی ذخیرہ کرنے کی کوئی خاص گنجائش نہیں رکھتے۔ ماہرین کے مطابق تقریباً ہرسال سیلاب کے باعث پاکستان میں بربادی کی ایک نئی داستان رقم ہوتی ہے، لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اس کے باوجود پاکستان پانی کی کمی کاشکارہورہاہے۔