مکہ کا فاتح ، دلوں کا فاتحؐ
اللہ کی بے پایاں نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ماہ رمضان ہے۔ رمضان جب بھی آتاہے اپنے ساتھ فیوض و برکات اور رحمت و انعامات لے کر آتاہے۔
وہ رمضان تو تاریخ میں یادگار ہے جب اللہ کے آخری نبیؐ بیت اللہ میں بیٹھے رحمت کا دریا بہا رہے تھے۔ رمضان کی برکات اپنی جگہ مگر حضورؐرحمتوں کا جو خزانہ بانٹ رہے تھے وہ اپنی مثال آپ تھا۔رمضان کے پہلے دو عشرے ختم ہو چکے تھے۔
آخری عشرہ شروع ہو گیا۔
حرم مکی میں زمین سے لے کر آسمان تک نور ہی نور تھا۔ نو ر وحی اور نور نبوت کے سنگم نے عجیب سماں باندھ رکھا تھا ! رحمت کا دریا جوش میں تھا۔ پیاسے خوب سیراب ہو رہے تھے۔ جس مکہ سے اہل ایمان کو ظلم و ستم کے ساتھ نکال دیا گیا تھا آج وہ اسلام کے سامنے سرنگوں اور مفتوح ہو چکاتھا۔
آٹھ سال کی مختصر مدت میں وہ عظیم الشان انقلاب برپا ہو گیا تھا جس کی نظیر تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔ کمزور اور بے بس، اللہ کی نصرت سے آج غالب تھے اور طاقتور اور بے پناہ وسائل کے مالک آج مغلوب ہو چکے تھے۔
دنیا کی تاریخ میں فتوحات بھی بہت ہیں اور فاتحین بھی کثیر، مگر یہ فتح بھی منفرد ہے اور یہ فاتح بھی بے مثال!جن لوگوں نے دشمنی کی آخری حدود پھلانگ لی تھیں انھیں سب سے زیادہ نواز ا گیا۔ حکم ہوا سب کے لئے عام معافی کا اعلان کر دو۔ آج کسی سے بدلہ نہ لیا جائے گا۔ ہجرت کی شب حضورؐ کے گھر کا محاصرہ کرنے والے چودہ سرداروں میں سے گیارہ سردار ٹھیک چھے سال قبل انھی دنوں میں رمضان۲ھ میں معرکہ بدر میں تہ تیغ ہو چکے تھے۔
جو تین بدر کے میدان سے غیر حاضر رہے وہ زندہ سلامت موجود تھے، ان کا نام لے کر حکم نبوی یوں صادر ہوا: ’’ابوسفیان بن حرب، حکیم بن حزام اور جُبَیر ابن مُطْعِم کو امان دے دی گئی ہے۔ ان کی دیوار کے سائے میں بھی جو بیٹھ جائے اسے بھی امان ہے۔‘‘
قریش کے سبھی سردار آج مکے میں موجود تھے مگر ایک اہم شخصیت غائب تھی۔ جب سب ہتھیار ڈال چکے تھے اس وقت بھی وہ اکیلا مقابلے پر ڈٹا ہوا تھا۔ 28قریشی قتل اور دو اہل ایمان معمولی جھڑپ میں شہید ہوئے۔ مقابلہ کرنے والا بے بس ہو گیا۔ مکہ فتح ہو گیا تو اس نے حسرت بھرے الفاظ میں کہا: ’’اگر خالد بن ولید کئی سال قبل ساتھ نہ چھوڑ چکا ہوتا تو شاید یہ نوبت نہ آتی۔
‘‘ یہ بھی محض ایک خیال تھا۔ خالد بھی ہوتا تو کیا ہو سکتاتھا، فیصلہ تو اوپر سے صادر ہوتا ہے اور وہ ہو چکا تھا۔ بھلا اللہ سے کون مقابلہ کر سکتاہے؟ بہر حال وہ شہر چھوڑ کر نامعلوم منزل کی جانب نکل گیا۔ یہ بھی مہاجر تھا مگر اپنی انا کے راستے میں ہجرت کرکے گیا، اللہ کی راہ میں نہیں! اللہ کے رسولؐ نے سب سرداروں کو اپنے سامنے موجو د پایا مگر اس سخت جان مزاحم سردار کا نام و نشان نہ تھا۔
آنحضوؐراس کے بارے میں اپنے دل میں سوچتے رہے۔ آج حرم مکی میں آسمان سے رحمتیں نازل ہو رہی تھیں اور زمین پر فیوض و برکاتِ نبوت کا دریا پورے جوبن پر تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ بابِ بنو شیبہ سے ایک خاتون حرم میں داخل ہوئی۔ اس کے ساتھ اس کے بچے بھی تھے۔
یہ خاتون قریش کی معزز ترین خواتین میں سے تھی۔اس کا نام اُمِّ حکیم بنت حارث مخزومیہ تھا۔ اس کے والد ابو جہل کے حقیقی بھائی اور اس کی والدہ فاطمہ بنت ولید خالد بن ولید کی حقیقی بہن تھی۔ وہ ابو جہل کے بیٹے عکرمہ کی بیوی تھی۔ رسولِ خداکے سب سے بڑے دشمن ابو جہل کی بہو بھی اور بھتیجی بھی !
عکرمہ آخری وقت تک مقابلہ کرنے کے بعد مکہ سے بھاگ کر چلا گیا تھا۔ اس کے بیوی بچے پریشان اور اداس تھے۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ یہ عکرمہ کے بیوی بچے ہیں تو آپ ؐ نے گرمجوشی سے استقبال کیا اور اپنی طرف سے ان کے ساتھ محبت و شفقت کا بھر پور اظہار فرمایا۔ پھر پوچھا: ’’ان بچوں کا باپ کہاں ہے؟‘‘ تو بتایا گیا کہ وہ یمن کی طرف بھاگ گیاہے۔
اُمِّ حکیم نے مزید عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! کیا اسے بھی امان مل سکتی ہے؟‘‘ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیوں نہیں، جاؤ میں نے اسے بھی امان دے دی ہے۔‘‘ اُمِّ حکیم کا دل ایک جانب اس معافی سے مطمئن ہوگیا، دوسری جانب اسے فاتح ؐکی عظمت کا پتا چل گیا کہ وہ کتنے بڑے دل گردے کا مالک اور کس قدر رحیم و مہربان ہے۔
عکرمہ جو جدہ کے ساحل سے کشتی میں سوار ہو کر راہ فرار اختیار کر چکا تھا، کشتی کے شدید طوفان میں پھنس جانے کی بدولت خواب غفلت سے بیدار ہو گیا۔ خشکی پر جو عقدہ سالوں میں نہ کھلا وہ سمندر میں چند لمحوں میں کھل گیا۔
ملاحوں نے مسافروں سے کہا: ’’ایک اللہ وحدہٗ لاشریک کو مدد کے لئے پکارو۔‘‘ قرآن مجید میں یہ مضمون کئی مقامات پر بیان ہوا ہے کہ جب کشتی بھنور میں پھنس جاتی ہے تو ایک اللہ کو پکارتے ہیں، دین کو اسی کے لئے خالص کرتے ہوئے۔ یہاں ہم سورۂ یونس آیت ۲۲کا ترجمہ یاددہانی کے لئے لکھ رہے ہیں:
وہ اللہ ہی ہے جو تم کو خشکی اور تری میں چلاتاہے۔ چنانچہ جب تم کشتیوں میں سوار ہو کر بادِموافق پر فرحاں وشاداں سفر کررہے ہوتے ہو اور پھر یکایک بادِ مخالف کا زور ہوتا ہے اور ہر طرف سے موجوں کے تھپیڑے لگتے ہیں اور مسافر سمجھ لیتے ہیں کہ طوفان میں گھِر گئے، اس وقت سب اپنے دین کو اللہ ہی کے لئے خالص کرکے اس سے دعائیں مانگتے ہیں: ’’اگر تو نے ہم کو اس بلا سے نجات دے دی تو ہم شکرگزار بندے بنیں گے۔
‘‘ مگر جب وہ ان کو بچا لیتا ہے تو پھر وہی لوگ حق سے منحرف ہوکر زمین میں بغاوت کرنے لگتے ہیں۔ لوگو، تمھاری یہ بغاوت تمھارے ہی خلاف پڑرہی ہے۔ دنیا کی زندگی چند روزہ مزے ہیں(لوٹ لو) پھر ہماری طرف تمھیں پلٹ کر آنا ہے، اس وقت ہم تمھیں بتا دیں گے کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو۔
عکرمہ نے سوچا کہ یہی تو جھگڑا تھا جس نے گھر وں سے بے گھر کر دیا۔ کل ہمارے دشمنوں کو اور آج مجھے۔ دل نے فیصلہ کر لیا کہ اگر خشکی پر پہنچا تو واپس مکہ چلا جاؤں گا۔ پنجابی زبان میں ضرب المثل ہے کہ ’’مکے گیاں گل مکدی نئیں جے دلوں ناں مکائیے۔
‘‘ یہ محض مکہ کی جانب واپسی نہ تھی، یہ فطرت اور حقیقت کی جانب رجوع تھا۔ جو بات آج تک سمجھ نہ آئی تھی وہ اللہ نے طوفان میں سمجھا دی۔
جب یہ قریشی سردار واپس پہنچا اور بارگاہ نبوی میں حاضری دی تو آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو بے پناہ مسرت ہوئی۔ آپ ؐ نے گرم جوشی سے مرحبا کہتے ہوئے اس کا استقبال کیا۔ اس کی واپسی محض مکہ کی طرف نہ تھی بلکہ دل کی دنیا میں ایک حقیقی انقلاب پیدا ہوچکا تھا۔ یہ واقعہ حضرت عکرمہ نے خود بیان کیا ہے کہ وہ جامع الترمذی ہے۔
عکرمہ نے ایسا فاتح کہاں دیکھا تھا، صدق دل سے اسلام قبول کیا اور پھر ساری زندگی جہاد کے لئے وقف کر دی۔ شام و روم کے معرکوں کے دوران دونوں میاں بیوی جہاد میں شریک رہے۔
جنگ یرموک میں عکرمہؓ بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے اور اُمِّ حکیمؓ بیوہ ہو گئیں۔ یہ وہی جنگ تھی جس میں تین جان بازوں نے پانی کی پیاس کے باوجود دوسرے بھائی کی آواز سن کر پیالہ آگے بڑھا دیا۔ تینوں تشنہ کام ہی حوض کوثر کو چل دیے مگر ایثار کا وہ نمونہ پیش کیا جو تاریخ انسانی میں ایک ہی بار ظہور پذیر ہوا۔
ان میں سے ایک عکرمہؓتھے، دوسرے سہیل بن عمروؓ اور تیسرے عکرمہؓ کے چچا حارث بن ہشام۔ اُمِّ حکیمؓ نے خود بھی مشکل گھڑیوں میں مجاہدین کے ساتھ مل کر دشمن کا مقابلہ کیا۔ وہ بڑی بہادر خاتون تھیں۔
اس وقت مشرق و مغرب ہر جگہ امتِ مسلمہ پردشمن کی یلغار جاری ہے۔ یہ یلغار میدان جنگ تک محدو د نہیں۔کھیت کھلیان، کوچے و بازاراور مسلمانوں کے گھر گھروندے سبھی دشمن کی زد میں ہیں۔
مرد ہی نہیں خواتین اور بچے بھی ننگی جارحیت کا شکار ہو رہے ہیں۔ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے اور اُمِّ حکیمؓ کی بیٹیاں عرب و عجم ہر جگہ اپنے مردوں، بھائیوں اور بیٹوں کے شانہ بشانہ داد شجاعت دے رہی ہیں۔
ان پُر آشوب حالات میں آج بھی ایسے ایمان افروز واقعات رونما ہو رہے ہیں کہ ان کا تذکرہ محفلوں میں ایک روحانی ماحول اور دلوں میں حصولِ جنت کا شوق پیدا کر دیتا ہے۔
تاریخ میں مذکور صحابہ و صحابیات کے زندہ و جاوید تذکرے دلوں کی ویران کھیتیوں کو سیراب کر دیتے اور باطل کی اندھی قوت کو للکارنے کا ولولہ سینوں میں بیدار کر دیتے ہیں۔
ان چراغوں کو ہر گھر اور محفل میں روشن کرنے کی ضرورت ہے۔ انھی کی روشنی سے اندھیرے بھا گیں گے۔
یہ ارشاد نبوی کہ جہاد قیامت کے دن تک جاری رہے گا، دشمن کو بہت کھلتا ہے مگر اپنے بیگانے سبھی کو جان لینا چاہیے کہ اس حکم کو کوئی منسوخ نہیں کر سکتا۔ جہاد زندہ باد۔