روس، ایران اور مشرق وسطیٰ
روس کے نزدیک مشرق وسطیٰ کے مسئلے، بلکہ مسائل کا ایک ہی حل ہے کہ مشرق وسطیٰ سے تمام ’’بیرونی طاقتیں‘‘ ایران، ترکی، امریکہ اور حزبُ اللہ اپنی اپنی حدود میں واپس چلی جائیں اور فوری طور پر آغاز شام سے کیا جائے۔۔۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ ’’بیرونی طاقتوں‘‘ میں روس بھی شامل ہے، لیکن اب وہ اپنے سوا باقی ممالک، جن کا ذکر روس کے وزیر خارجہ نے کیا ہے، ان کو ہی ’’بیرونی طاقتیں‘‘ سمجھتا ہے۔
اس مجوزہ ’’حل‘‘ کا سب سے بڑا نشانہ ایران ہے، کیونکہ اس وقت شام میں ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ جو لبنان تک محدود تھی، اب شام میں بھی سرگرم عمل ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ حزب اللہ کا دائرہ عمل عراق، یمن، سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ تک پھیل چکا ہے، شام سے نکل جانے کے بعد ایران مشرق وسطیٰ میں بہت حد تک اپنے اثر و نفوذ سے محروم ہوجائے گا اور ایران ایسا کبھی نہیں چاہے گا۔عالمی شطرنج کی اس بساط اور کھلاڑیوں کا شکار صرف شامی عوام بن رہے ہیں۔
روس اپنی جیت کے لئے اڈے بنانا چاہتا ہے، اسرائیل اپنی حدود کے قرب و جوار میں اپنی اجارہ داری چاہتا ہے، ایران بھی بحیرۂ روم تک رسائی چاہتا ہے، ترکی کے لئے کرد مسئلہ ہیں، امریکہ اس علاقے کا تھانیدار بننا چاہتا ہے۔۔۔ (ویسے تو پوری دنیا میں اپنا کردار ادا کرنے کی خواہش رکھتا ہے) ۔۔۔ سعودی عرب ایران کو نیچا دکھانا چاہتا ہے، صدر بشار الاسد اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے، لیکن شام کے عوام کے لئے کوئی نہیں سوچتا جو زندگی سے، اپنے گھر بار سے محروم ہورہے ہیں اور بے یار و مددگار ہیں، جو ان کا ملک تھا، وہ بھی ان کا اپنا نہیں رہا، اس پر بھی ان کرداروں کا،جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے،قبضہ ہے۔
روس اور ایران کے درمیان اس مسئلے پر اختلاف فروری 2018ء میں واضح ہوگیا تھا، جب ماسکو میں ایرانی اور روسی وزرائے خارجہ کے درمیان ایک اہم ملاقات میں روس کے وزیر خارجہ نے ایران کے وزیر خارجہ کو بڑے واضح الفاظ میں کہہ دیا تھا :’’ہم نے بار بار اپنی پالیسی واضح کردی ہے کہ ہم ایران کے اس موقف کی تائید نہیں کرسکتے، بلکہ اختلاف رکھتے ہیں کہ اسرائیل کو ایک Zionist State کی حیثیت سے دنیا کے نقشے سے مٹا دیا جائے‘‘ اور ہمارے نزدیک اپنے مفادات، مفادات کے تحفظ اور بڑھاوے کے لئے یہ سوچ اور عمل درست ہے۔
اگر دیکھا جائے تو ایران روس کے لئے ایک Perfect ساتھی اور اتحادی نہیں ہے۔ روس کے پالیسی سازوں کے نزدیک انتہا پسند سنی تحریکیں عالمی امن کے لئے خطرہ ہیں، اسی طرح شیعہ عسکری تنظیمیں بھی خطرہ ہیں، جبکہ ایران دونوں کو امداد مہیا کرتا ہے۔
علاقائی حیثیت کے مد نظر فلسطین میں اسلامی جہاد اور حماس کی ہر طرح سے مدد کرتا ہے، جو دونوں سنی تنظیمیں ہیں، حماس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے تو ٹی وی پر کہا ہے کہ وہ تہران سے مسلسل رابطے میں ہیں، ان کے علاوہ افغانستان اور پاکستان میں طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو بھی مدد فراہم کرتا ہے، عراق میں القاعدہ کے بانی افغانستان پر امریکی حملے کے بعد پاکستان میں نہیں،بلکہ ایران میں مقیم ہیں، اس لئے نہیں کہا جاسکتا کہ ایران مستقبل میں بھی روس کے لئے پریشانی کا باعث بننے والی تنظیموں اور تحریکوں کا مدد گار نہیں ہوگا۔
یہ خدشات اس وقت نہیں تھے جب 2015ء میں ایران نے شام میں مداخلت کی تھی، روس کے اپنے پڑوس میں ازبکستان، قازقستان اور تاجکستان، جو کبھی سودیت یونین کا حصہ تھے، کے علاوہ پورے وسط ایشیا میں داعش کی سرگرمیاں شروع نہیں ہوئی تھیں اور افغانستان میں بھی داعش نے سر اٹھانا شروع نہیں کیا تھا، شام میں داعش کی کامیابی باقی ممالک میں بھی اسے مضبوط کردیتی۔
اس پس منظر میں داعش مخالف ہزاروں رضا کار جو شیعہ تھے، وہ داعش کو کچلنے کے لئے ایران نے بھیجے تھے تو روس نے انہیں ہتھیار مہیا کئے تھے۔ یہ رضا کار ایران کے انقلابی محافظوں کے ایک کمانڈر کے ماتحت اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے۔
اسی دوران روس نے شام میں بحری اڈہ اور لطاکیہ کے نزدیک فضائی اڈہ قائم کرلیا تھا، اس کے علاووہ بھی شام میں موجود تمام شامی تنصیبات اور سہولیات تک رسائی حاصل ہوگئی تھی۔یہ سب کچھ حاصل کرلینے کے بعد جب روس نے محسوس کیا کہ مزید آگے بڑھنے کے لئے وہ جو اقدامات کرنا چاہتا ہے، ایران ان کے راستے میں رکاوٹ بن سکتا ہے اور بن رہا ہے، اس کے بعد روس نے اپنی پالیسی اور حکمت عملی تبدیل کرنا شروع کردی ہے۔
2015ء سے اب تک روس نے اپنے بہت سے مقاصد حاصل کرلئے ہیں، بحری اور فضائی اڈوں کا کنٹرول اس کے پاس ہے جو وہ اب بشار الاسد کے حوالے بھی نہیں کرنا چاہتا، لیکن وہ اس کے ساتھ ویسا بھی نہیں کرے گا جو اوبامہ انتظامیہ نے 2011ء میں عرب اسپرنگ کے دوران مصر کے صدر حسنی مبارک کے ساتھ کیا تھا، اسے تنہا، بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا تھا اور اس کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا، لیکن جلدہی امریکی پالیسی سازوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہیں اپنے مفادات کی حفاظت کے لئے پھر ایک جنرل کو لانا پڑا تھا۔
ایران روس کے لئے مشکلات پیدا کررہا ہے اور حزب اللہ کی مدد سے اسرائیل کے لئے کشیدگی میں اضافہ روس کے پالیسی سازوں کے لئے امتحان ہے۔ نہ وہ کشیدگی میں اضافہ چاہتا ہے اور نہ ہی اسے روکنے کی موثر صلاحیت رکھتا ہے۔
روس کے عسکری پالیسی ساز دوہری پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ داعش کے مکمل خاتمے کے لئے حزب اللہ کو ہتھیار فراہم کرتے ہیں، لیکن توازن برقرار رکھنے کے لئے اسرائیل کو اطلاعات بھی فراہم کرتے ہیں اور موقع بھی کہ وہ ان ہتھیاروں کے مراکز پر حملے کرکے انہیں تباہ کردے اور ایرانی تنصیبات کے بارے میں یہی پالیسی ہے جس کے نتیجے میں کئی انقلابی گارڈز کے اعلیٰ کمانڈر بھی بلاک ہوئے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق روس کے ایک تھنک ٹینک نے، جو صدر پیوٹن کا ترجمان سمجھاجاتا ہے۔ ایک تجزیہ جاری کیا ہے جس کے مطابق اسرائیل کے ساتھ بڑھتی کشیدگی کی ذمہ داری ایران پر ڈالی گئی ہے۔ مشرق وسطیٰ کی سنی ریاستوں نے اس کی حمایت کی ہے۔
در اصل اس کی وجہ روس کا ردعمل ہے کہ ایران تاجکستان میں اسلامی انتہا پسند تنظیموں کو ہر قسم کی امداد فراہم کررہا ہے، جس سے یہ خطہ عدم استحکام کا شکار ہوسکتا ہے۔روس کے صدر پیوٹن اس تشویش کا شکار ہیں کہ داعش کی مشرق وسطیٰ میں شکست کے بعد ایران اپنی حمایت یافتہ عسکری تنظیموں کو وسط ایشیا میں مصروف کرسکتا ہے جو روس کے لئے قابل قبول نہیں ہے، اس لئے اس نے مسئلے کا حل یہ بتایا ہے کہ بیرونی طاقتیں مشرق وسطیٰ سے نکل جائیں، باقی ممالک کا نام تو Cover ہے، اصل پیغام ایران کے لئے ہے کہ داعش کے قریب قریب خاتمے کے بعد ایران کی عسکری موجودگی کا جواز نہیں رہا، اور مستقبل میں روس کی مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے ساتھ قربت خارج از امکان نہیں ہے۔
2018ء کے آغاز میں ہی امریکہ کے نئے وزیر دفاع پومپیونے ایران کے سامنے جو مطالبات پیش کئے ہیں ان میں ایٹمی سرگرمیوں کو بند کردینے کے ساتھ ساتھ شام سے ایرانی افواج کی واپسی بھی شامل ہے۔
روس ایران کے ساتھ اپنے تعلقات تو ختم نہیں کررہا، لیکن یقیناً وہ ایران کی شام میں بلا روک ٹوک سرگرمیوں کو ضرور ختم کرنا چاہے گا اور شام کو اسرائیل اور اردن کے خلاف پلیٹ فارم نہیں بننے دے گا، لیکن صدر بشار الاسد کی حمایت کے ماتحت شامی افواج کو اسلحہ کی فراہمی جاری رکھے گا۔
اب وقت آگیا ہے کہ ایران، روس کی طرف سے ’’بیرونی طاقتوں‘‘ کی واپسی کے مطالبے کے بعد اس کی آڑ میں روس نے شام میں جو کچھ حاصل کیا ہے، اسے بے اثر کرنے کی کوشش کرے اور روس پر انحصار نہ رکھے۔