رانا نذر الرحمنؒ اُن کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی!
انجمن شہریانِ لاہور کے روحِ رواں، اور ممتاز سماجی و سیاسی شخصیت کی تیسری برسی پر خراجِ عقیدت
رانا نذر الرحمن کو ہم سے جدا ہوئے تین سال ہو گئے،13جون کو ان کی تیسری برسی منائی جا رہی ہے، میں ان کی یاد میں چند الفاظ لکھنے کے لئے بیٹھا ہوں۔ ذہن میں یادوں کا سمندر ہے، سمجھ نہیں آرہا کیا لکھوں، کیا نہ لکھوں۔ رانا نذر الرحمن، میرے استادِ محترم جن کی یادیں آج بھی میرے دل میں بسیرا کئے ہوئے ہیں۔ بخدا اِن تین سال میں کوئی دن ایسا نہیں گزرا، جس دن رانا صاحب یاد نہ آئے ہوں اور دل سے ان کے لئے دُعائے خیر نہ نکلی ہو۔ اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ رانا صاحب اکثر ایک حدیث کا حوالہ دیتے تھے جس کے ترجمے کا مفہوم یہ ہے۔ ”تم میں سے بہترین انسان وہ ہے جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچے“ میں نے آج تک رانا نذرالرحمن سے بہتر انسان کوئی نہیں دیکھا، جولوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہو، خواہ کاروبار کی شکل میں ہو، علم یا مشورے کی صورت میں ہو۔
رانا صاحب اپنے کاروبار میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ وہ ایک مڈل کلاس طبقے سے اوپر آئے اور کاروبار میں بھی اپنا سکہ جمایا، اور سیاست میں بھی اپنا ایک مقام رکھتے تھے۔ رانا صاحب کا کاروبار میں بھی اپنا ایک طریقہئ کار تھا، وہ سستی چیزیں خرید کر سستے داموں بیچتے تھے۔ رانا صاحب نے تو ویسے کافی کاروبار کئے، لیکن ان میں دو نمایاں ہیں۔ ایک We Brothers Scientific اور دوسرا پراپرٹی کا کاروبار تھا، جس میں لوگ ان کے پاس پیسہ پھینک جایا کرتے تھے اور وہ اپنے تجربے کے مطابق ان کو اچھی چیز خرید کر دیتے، اور یہ صرف رانا نذر الرحمن کی ذات پر لوگوں کا اعتماد تھا۔
روزنامہ ”پاکستان“ کے چیف ایڈیٹر اور معروف صحافی و تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی رانا نذر الرحمن کی کتاب ”صبح کرنا شام کا“ پر اپنے تاثرات قلم بند کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ”رانا نذر الرحمن پاکستانی سیاست کا ایک دلچسپ اور اہم کردار ہیں، اُن کا شمار ہمارے سینئر ترین سیاست دانوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے پوری زندگی محنت اور ہمت سے گزاری ہے۔ ایک کم وسیلہ گھرانے میں پیدا ہوئے، لیکن اپنی منزل انہیں آسمانوں میں نظر آتی رہی۔ ایک بزنس مین کے طور پر بھی انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور ایک دیانت دار کارکن کے طور پر بھی اپنا نقش جمایا۔زمانہئ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ کی تشکیل میں سرگرم رہے،عملی سیاست میں قدم رکھا تو چودھری محمد علی کی نظامِ اسلام پارٹی نگاہوں کا مرکز بن گئی۔یہ جماعت پاکستان جمہوری پارٹی میں ضم ہوئی تو اس میں اپنے جوہر دکھائے۔
اُن کے مزاج میں بے چینی و بے قراری تو رہی،لیکن اپنے سیاسی قافلے کے ساتھ انہوں نے بے وفائی نہیں کی۔اُن کی زندگی حیرت انگیز واقعات سے عبارت ہے۔انہوں نے اپنی کہانی قلم بند کی تو یہ سمجھئے کہ پاکستان کی تاریخ بیان کر ڈالی۔اُن کے نقطہء نظر سے اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن اُن کی جرأتِ اظہار قدم قدم پر اپنے آپ کو منواتی رہی ہے۔ آج جبکہ ہماری سیاست میں نفسا نفسی اور دولت پرستی کا چلن عام ہو چکا ہے، رانا صاحب کی ذات میں ہم اپنی گزشتہ نسل کے بے لوث کارکنوں کی ایک جھلک سے آنکھوں کو منور کر سکتے ہیں۔ مجھے اُمید ہے اُن کی سوانح ِ حیات کا مطالعہ جہاں نوجوانوں میں جوشِ عمل پیدا کرے گا، وہاں بے مایہ کارکنوں کو بھی نیا حوصلہ دے گا کہ اگر اہداف واضح ہوں اور اپنی ذات پر قابو ہو تو ضمیر کا سودا کرنے کے بجائے،اس کو چراغ بھی بنایا جا سکتا ہے۔
رانا نذر الرحمن کاروبار میں ہمیں رزقِ حلال کمانے کی نصیحت کیا کرتے تھے۔ رانا صاحب نے میٹرک کرنے کے بعد وایا بٹھنڈا B.A کا امتحان پاس کیا اور وکالت کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد ہیلے کالج میں Mercantile Law فری پڑھایا کرتے تھے۔ رانا صاحب تعلیم فروشی کو پسند نہیں کرتے تھے۔ بہت سارے لوگوں کے بچوں کی سکول فیس وہ خود اور اپنے قریبی دوستوں سے ادا کرواتے تھے۔ مجھے رانا صاحب کا ایک واقعہ یاد آیا، جس میں وہ اپنے استاد کے ساتھ سکول سے گھر واپس جارہے تھے۔ راستے میں ان کے استاد خربوزے کی ریڑھی پر رکے اور کچھ خربوزے خریدے، لیکن جب جیب میں ہاتھ ڈالا تو ان کے پاس پیسے موجود نہ تھے تاہم سکول فنڈ کے پیسے پڑے تھے۔ انہوں نے ریڑھی والے کو کہا کہ آپ یہ خربوزے یہاں رکھو! میں گھر جا کر پیسے لے کر آتا ہوں تو رانا صاحب نے اپنے استاد سے کہا استاد جی آپ یہ رقم سکول کے پیسوں میں سے ادا کردیں۔ گھر جاکے آپ ان پیسوں میں اپنے پیسے رکھ دیجئے گا۔ ان کے استاد نے جواب دیا کہ میں ان پیسوں کو یہاں سے گھر تک استعمال کرنے کو بھی خیانت سمجھتا ہوں۔ رانا صاحب کے ایک استاد، ریاضی دان تھے ان کی یہ خواہش تھی کہ گوجرانوالہ ڈویژن میں ان کا کوئی شاگرد ریاضی میں اول پوزیشن حاصل کرے، وہ استاد گھر پر بچوں کو فری ٹیوشن پڑھاتے تھے اور بچوں کی خاطر تواضع بھی خوب کرتے تھے،مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں ان استادوں کے شاگردوں کا شاگرد ہوں۔رانا صاحب اسلامی جمعیت طلبہ لاہور کے پہلے ناظم اعلیٰ تھے۔ وہ انجمن شہریانِ لاہور کے صدر ہونے کی حیثیت سے فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔
سینئر پارلیمینٹرینز ایم حمزہ رانا نذر الرحمن کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ”مَیں 1962ء میں مغربی پاکستان اسمبلی کا ممبر بنا اور میں نے تحریک جمہوریت میں بھرپور حصہ لیا۔رانا نذر الرحمن صاحب سے انہی ایام میں شناسائی ہوئی اور سالہا سال سمن آباد میں ان کے مکان پر مہمان کی حیثیت میں ان کی خدمت سے استفادہ کرتا رہا۔
رانا صاحب نظام اسلام پارٹی کے نامور کارکن تھے اور سمن آباد میں یونین کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے اپنے علاقے کی بہت زیادہ خدمت کی، لاہور کارپوریشن میں ان کا کردار سنہری حروف سے لکھا جا سکتا ہے۔ صوبہ پنجاب میں جتنے مقامات پر میں نے تقریریں کی ہیں۔ یہ میرے ہمسر رہے۔ 1973ء میں رانا نذر الرحمن صاحب نے اپنے حلقے سے صوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں حصہ لیا۔ ان کے مد مقابل ایس ایم مسعود ایڈووکیٹ تھے۔ ہر قسم کے ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرکے ان کو تقریباً صرف 1200 ووٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
مجھے اپنی سیاسی زندگی میں ان کے قریب رہنے کا بہت موقع ملا۔ جب بھی مجھ سے کسی لغزش کا ارتکاب ہوا تو انہوں نے مجھے بلا جھجک اس سے روکا اور میں نے بہت باران کی نصیحت اور تنقید سے فائدہ اٹھایا۔ بدقسمتی سے انہیں صوبائی یا قومی اسمبلی میں بطور رکن خدمت کرنے کا موقع نہیں ملا۔ وہ ملک کے قوانین اور مالیاتی امور کے بہت بڑے ماہر تھے،ان کے معلوماتی ذخیرہ میں مالیاتی بدعنوانیوں کی پوری تفاصیل موجود ہیں اور جو سیاستدان اس کے مرتکب ہوئے ہیں، ان کو بے نقاب کرنے میں زندگی بھر مصروف رہے“۔
سینئر صحافی محمد نصیر الحق ہاشمی رانا نذرالرحمن کے متعلق لکھتے ہیں کہ ”رانا نذر الرحمن کی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے شب و روز اپنی خودنوشت ”صبح کرنا شام کا“ میں قلمبند کر دیئے ہیں۔ماشاء اللہ 88سال کے ہیں لیکن 18سال کے نوجوان کی طرح کام کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں کمال کا حافظ عطا کیا ہے۔ کوئی واقعہ اس طرح بیان کرتے ہیں گویا وہ ان کی نظروں کی سامنے رونما ہو رہا ہے۔ دن، تاریخ، سال تک ان کے حافظے میں محفوظ ہے۔ یہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ رانا نذر الرحمن نے ایک بھرپور زندگی بسر ہی نہیں کی، بلکہ زندگی کی حقیقتوں کو محسوس بھی کیا اور ان سے صحیح معنوں میں لطف اندوز بھی ہوئے ہیں۔
رانا نذر الرحمن سے غائبانہ تعارف تو بہت پرانا تھا لیکن باقاعدہ شناسائی اور بالمشافہ ملاقات محترم مجیب الرحمن شامی چیف ایڈیٹر روزنامہ ”پاکستان“ کے دفتر میں ہوئی، مجھے ایک روز شامی صاحب نے بلا بھیجا تو وہاں رانا نذر الرحمن بھی موجود تھے۔ شامی صاحب نے ان کا تعارف کرواتے ہوئے مجھ سے کہا ”یہ رانا نذر الرحمن“ ہیں۔ ان کی ”آپ بیتی“ قسط وار روزنامہ ”پاکستان“ کے ہفت روزہ ”زندگی“ (سنڈے میگزین) میں شائع ہوا کرے گی، ان کی تصویر کے ساتھ۔ اس طرح رانا نذر الرحمن سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر قلبی تعلق ایسا بڑھا کہ لگتا تھا برسوں کی واقفیت ہے۔
آپ بیتی ”صبح کرنا شام کا“ ہفت روزہ ”زندگی“ میں قسط وار چھینا شروع ہوئی تو رانا نذرالرحمن کی زندگی صفحہ صفحہ مجھ پر عیاں ہوتی گئی۔ ان سے بہت کچھ سیکھنے اور دنیا میں آگے بڑھنے کے لئے مسلسل محنت کرنے کا سبق ملا“۔
رانا نذر الرحمن ایک دبنگ انسان تھے،ان کی معیت میں راقم الحروف نے جتنا عرصہ گزارا، اس میں ہر لمحے مجھے سیکھنے کا موقع ملا۔ میری رانا نذر الرحمن سے ملاقات کا سلسلہ2004ء میں شروع ہوا پھر یہ ایسا قربت میں بدلا کہ یکم جون2005ء سے مَیں نے باقاعدہ طور پر اُن کی شاگردی اختیار کر لی۔ رانا نذر الرحمن کا تجربہ اور میری جوانی کی جدوجہد نے میری زندگی کے شب و روز بدل دیئے۔ مجھے ان کے ساتھ پاکستان کے طول و عرض میں شب و روز گزارنے کے مواقع ملے،اُن کی زندگی ایک جہد ِ مسلسل سے عبارت تھی،انہوں نے91،92سال کی عمر میں وفات پائی، اِس عمر میں بھی ماشاء اللہ رانا صاحب کا حافظہ بَلا کا تھا۔ انہوں نے اپنی خود نوشت ”صبح کرنا شام کا“ میں اپنی زندگی کے جو راز عیاں کئے ہیں، ان میں اکثر کا مَیں چشم دید گواہ ہوں، مجھے ان کے ساتھ پراپرٹی کا کاروبار کرنے کا موقع ملا،انہوں نے مجھے شاگرد نہیں،بلکہ اپنے بیٹے اور پوتے کی طرح سمجھا۔میرے لاڈ نخرے بھی برداشت کئے، وہ ہمیشہ کھری بات کرنے کے عادی تھے۔ حساب کتاب کے کھرے انسان تھے۔ حقیقی معنوں میں ظالم حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہتے، بلکہ ببانگ ِ دہل کہتے تھے۔مجھے اُن کے ساتھ ملک کے نامور سیاست دانوں کے ساتھ ملنے اور گفت و شنید کا موقع بھی ملا۔ قاضی حسین احمد(مرحوم) امیر جماعت اسلامی تھے،لیکن رانا نذر الرحمن جس طرح اُن سے گفتگو کرتے تھے، ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں۔ وہ نوابزادہ نصر اللہ خان کی جماعت پاکستان جمہوری پارٹی کے سینئر نائب صدر تھے اور نوابزادہ نصراللہ کی وفات کے بعد پاکستان جمہوری پارٹی کے قائم مقام صدر بھی رہے۔مولانا ابو الااعلیٰ مودودیؒ کے بہت بڑے مداح تھے۔ فرید احمد پراچہ، منور حسن، حافظ محمد ادریس سمیت بہت سے سیاست دانوں سے ان کے قریبی تعلقات تھے۔ تمام سیاست دان اُن کا بے حد احترام کرتے تھے۔
رانا نذر الرحمن انجمن شہریانِ لاہور کے روح رواں تھے، راقم الحروف انجمن شہریان لاہور کا جنرل سیکرٹری تھا، انجمن شہریانِ لاہور کے پلیٹ فارم سے جتنے پروگرام ہوئے، صوبائی دارالحکومت میں شائد ہی کسی غیر سیاسی پلیٹ فارم سے اس قدر پروگرام ہوئے ہوں۔ رانا نذر الرحمن جماعت اسلامی کا دِل سے احترام کرتے تھے۔ اُنہیں مرتے دم تک اِس بات کا افسوس رہا کہ جماعت اسلامی نے اُنہیں اپنا رکن نہیں بنایا۔ اس کا ذکر وہ اکثر جماعت اسلامی کے رہنماؤں سے ملاقات کے دوران کیا کرتے تھے، لیکن وہ ہنس کر ٹال دیتے اور کہتے کہ آپ جماعت اسلامی کے رکن ہی ہیں۔ رانا نذر الرحمن مجیب الرحمن شامی کے بے تکلف دوست تھے۔ مجیب الرحمن شامی سے اُن کی عزیز داری بھی تھی، اِس کے باوجود بھی اُنہیں ان کی کسی بات سے اختلاف ہوتا تواس کا برملا اظہار بھی کرتے تھے۔ مجید نظامی، جمیل اطہر، الطاف حسن قریشی، قدرت اللہ چودھری، حفیظ اللہ نیازی، ہارون رشید، محمد نصیر الحق ہاشمی سمیت ملک کے نامور صحافی ان کے بے تکلف دوستوں میں سے تھے۔ سینیٹر ایم حمزہ سے ان کا بڑا قلبی تعلق تھا، ان کا بہت احترام کرتے تھے اسی طرح نواب اکبر بگٹی بھی اُن کے دوستوں میں سے تھے۔مانسہرہ سے جاوید خان سواتی کا تو بہت ہی احترام کرتے تھے۔ جاوید خان سواتی بھی رانا نذر الرحمن کا اپنے بھائی کی طرح احترام کرتے تھے، رانا نذر الرحمن پاکستان تحریک انصاف کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی کے ممبر تھے،لیکن اپنی وفات سے کچھ ماہ پہلے تک وہ تحریک انصاف کی قیادت سے شاکی ہو چکے تھے۔
جسٹس اعجاز چودھری لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بننے والے تھے، ایک روز رانا نذر الرحمن میرے ہمراہ اُنہیں مبارکباد دینے ان کے گھر گئے، اُنہیں مبارکباد دیتے ہوئے کہنے لگے کہ مَیں اگر تمہارے چیف جسٹس بننے پر تمہیں مبارک باد دیتا تو وہ تمہارے عہدے کو مبارک باد دینا تھا،جبکہ اب مَیں اپنے بیٹے کو مبارک باد دینے آیا ہوں،اس موقع پر چیف جسٹس اعجاز چودھری نے بتایا کہ رانا نذر الرحمن نے ہی مجھے ہاتھ پکڑ کر سکول میں داخل کروایا تھا، تم خوش قسمت ہو کہ رانا نذر الرحمن کے شاگرد ہو۔ان کا ہمیشہ احترام کرنا، تبھی تم ایک کامیاب انسان بنو گے۔چودھری شجاعت حسین کے گھر گجرات میں کسی حوالے سے گئے،مَیں بھی اُن کے ہمراہ تھا تو چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کافی دیر تک رانا نذر الرحمن کا ہاتھ پکڑ کر کھڑے رہے،چودھری پرویز الٰہی کہہ رہے تھے کہ آپ میرے والد کے دوستوں میں سے ہیں …… پاکستان کا شاید ہی کوئی سیاست دان ہو گا جو اُن کا احترام نہ کرتا ہو۔ رانا نذر الرحمن اپنی زندگی کے ہر پہلو کے حوالے سے ایک منفرد شخصیت تھے۔ وہ حقیقی معنوں میں عجز و انکساری کا پیکر تھے۔ مَیں نے انہیں زندگی میں کبھی کوئی ایسا عمل کرتے نہیں دیکھا جو منفی ہو، ہمیشہ دوسروں کے ساتھ بھلائی کرتے تھے، جاوید ہاشمی جیسے قد آور سیاست دان بھی اُن کا بہت احترام کرتے تھے۔ غرض ان کی زندگی کے کس کس پہلو کا ذکر کروں، وہ اپنی زندگی کے ہر پہلو کے حوالے سے ہی انمول تھے، اللہ تعالیٰ اُنہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آج اُنہیں فوت ہوئے تین سال ہو گئے، لیکن لگتا ہے کہ وہ آج بھی ہمارے درمیان ہی کہیں موجود ہیں۔
٭٭٭