شہید زندہ ہوتے ہیں......!!!

شہید زندہ ہوتے ہیں......!!!
شہید زندہ ہوتے ہیں......!!!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

"پاکستان میں خودکش حملے حرام ، افغانستان اور عراق میں جائز ہیں:سرفراز نعیمی" .....یہ "Daily Times " گروپ کے اردو اخبار روزنامہ "آج کل" کے جمعہ ایڈیشن کی سرخی تھی.....دبنگ کوآری ڈی نیشن ایڈیٹر جناب تنویر عباس نقوی نے ملک کے نام ور عالم دین کا انٹرویو دیکھا اور منظوری دیدی ....اشاعت کے بعد مجھے انتہائی فرینڈلی ایڈیٹر انچیف جناب نجم سیٹھی نے بلا لیا.....یہ میری پہلی اور آخری طلبی تھی کہ جناب ضیا شاہد کی طرح جناب نجم سیٹھی کی بھی یہ خوبی تھی کہ ادارتی امور میں مداخلت نہیں کرتے تھے.....کہنے لگے کہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب ایک معتدل عالم دین ہیں....انٹرویو بھی بہت اچھا ہے لیکن یہ عجیب بات ہے جو بات پاکستان میں حرام ہے وہ افغانستان اور عراق میں جائز ہے.....؟؟؟؟ان کی بات اپنے حساب سے ٹھیک تھی....میں نے اسلامی رو سے ان کو نعیمی صاحب کا نقطہ نظر سمجھانے کی کوشش کی .. ..خیر انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ذرا ایسی چیزیں دیکھ لیا کریں.....اس ایک اعتراض کے سوا انہوں نے کبھی دینی ایڈیشن پر کوئی اعتراض نہیں کیا کیونکہ انہوں نے پہلے دن کہہ دیا تھا کہ پالیسی یہ ہے کہ اسلام کی بات کریں مگر ذرا پروگریسو انداز میں....یعنی بتائیں کہ وضو بارے سائنس کیا کہتی ہے.....جیسا آج کل کورونا کے زمانے میں ہاتھ دھونے کی بابت وضو کی اہمیت کھل کر سامنے آر ہی ہے.........

بہر کیف نجم سیٹھی ایک شاندار ایڈیٹر انچیف تھے.......لاہور کی معروف اور معتبر دینی درسگاہ دارالعلوم جامعہ نعیمیہ میرے گھر سے "واکنگ ڈسٹینس "پر ہے لیکن کم کم ہی حاضری ہوتی ہے....پہلی مرتبہ شکرگڑھ سے چوتھی مرتبہ رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہونیوالے درویش منش عالم دین مولانا غیاث الدین مجھے ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب کے پاس لے گئے.....وہ ان کے علم وعمل اور سادگی و عاجزی کے مداح تھے لیکن پھر میرے اندر بھی ان سے ملنے کا اشتیاق بڑھا.....ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے ترجمان جناب ضیا الحق نقشبندی وسیلہ بنے اور انہوں نے ان کے ساتھ نشست سجادی...بلاشبہ وہ بزرگوں کے قدموں میں بیٹھنے والے آدمی ہیں....وہ نعیمی صاحب کی پروموشن کے لئے بہت محنت کرتے تھے....سر پر سادہ سی ٹوپی اور ہاتھ میں بیگ....پریس ریلیز چھہوانے کے لئے دوڑ دھوپ... کوئی سنتا...کوئی نہ سنتا .....لیکن وہ چلتے رہے....

ہماری خوش قسمتی کہ نارووال کی روحانی درسگاہ کی نسبت سے وہ ہمارے دوست بن گئے کہ ہمارے ابا بھی سید جماعت علی شاہ کے عقیدت مند ہیں.....ضیا بھائی آج کل خود پیر کے درجے پر فائز ہوچکے ہیں اور ان کے پاس فتاوی جات کے لئے چالیس مفتیان کرام بھی ہیں....وہ بڑے اردو اخبار میں کالم لکھتے اور بڑے نجی چینل پر رمضان میں پروگرام بھی کرتے ہیں....ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب صرف اور صرف نعیمی صاحب کا فیضان ہے ...باادب با مراد.....ہم جامعہ نعیمیہ کی انتظار گاہ پر بیٹھے تھے کہ باہر ایک پھٹیچر سی موٹر سائیکل رکی. ....ضیا صاحب کہنے لگے حضرت صاحب آگئے ہیں.....میں نے کہا کہاں ہیں؟بولے وہ سامنے موٹر سائیکل کھڑی کر رہے ہیں.....ڈاکٹر صاحب اندر داخل ہوئے.....تعارف کے بعد گرمجوشی سے ملے....وہاں ہی انٹرویو دے دیا... موٹر سائیکل کی کہانی سنائی کہ گھر سے بازار تک....جامعہ سے ایوان وزیر اعلی تک ....یہی میری اکلوتی سواری ہے......ملک کی بڑی دینی درسگاہ کے سربراہ کی ایسی سادگی دیکھ کرسمجھ آگئی کہ اللہ والے ایسے ہی ہوتے ہیں ....شہرت کی تمنا نہ نمائش کے لئے بے چین.. . ..

یہاں یہ امر دلچسپ ہے کہ ایک دفعہ سرکار کو ان کی سیکیورٹی کی فکر ہوئی...انہوں نے بہت سمجھایا کہ بھائی جانے دیں ایسے چونچلے .....اب مسئلہ یہ تھا کہ رکھوالے اہلکار موٹر سائیکل سوار عالم دین کی سکیورٹی کیسے مینج کریں....تنگ آکر وہ بیچارے خود ہی واپس چلے گئے......خیر اس انٹرویو کے بعد وہ ہمارے مہربان بن گئے.....رات کے بارہ بجے بھی فون کیا تو انہوں نے ضرور اٹینڈ کیا.....یہی خوبی ان کے فرزند ارجمند جناب ڈاکٹر راغب نعیمی میں بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے کہ جب کبھی کال کی....ضرور سنی....نہ سن سکے تو بعد میں ضرور رابطہ کیا......
شہادت سے دس بارہ دن پہلے وہ روزنامہ "آج کل" کے دفتر آئے......ان دنوں وہ پاکستان میں دہشت گردی کیخلاف علم جہاد تھامے ہوئے تھے....وہ اس موضوع پر گفتگو کرنا چاہتے تھے....میں نے انہیں خوش آمدید کہا اور ایڈیٹر جناب خالد چودھری صاحب کے کمرے میں ہی بٹھایا.....ساری زندگی مولویوں سے دور بھاگنے والے خالد چودھری چائے کے دوران ہی ان کے گرویدہ ہوگئے... اپنی خاموشی توڑی اور ان کے ساتھ بات بات پر قہقہے لگانے لگے......نعیمی صاحب نے فورم میں اظہار خیال کیا اور چل دیے. ..میرے خیال میں کسی اخبار کو ان کا یہ آخری انٹرویو تھا. .ان کے جانے کے بعد میں نے پوچھا سر یہ کیا تبدیلی ہے؟؟؟؟؟کہنے لگے اس بندے نے مجھے بہت انسپائر کیا ہے....ایک بڑی جامعہ کا پرنسپل.....پی ایچ ڈی سکالر اور اتنی سادگی.....آپ نے ان کی سادہ سی سفید قمیص کے کف دیکھے کہ تھوڑے سے میلے تھے لیکن من کے اجلے اس درویش کو کوئی احساس کمتری نہیں....پاکستان میں کتنے عالم دین ایسا طرز زندگی رکھتے ہیں......؟؟؟؟؟
نعیمی صاحب کی تحریک پر تمام مکاتب فکر کی 28دینی ودینی سیاسی جماعتوں نے جامعہ نعیمیہ میں متفقہ اعلامیہ میں پاکستان میں خود کش حملوں کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے حرام اور ناجائز کا فتویٰ دیا....اس اجتماع کی خاص بات یہ تھی کہ جماعت الدعوہ کے حافظ محمد سعید بھی نعیمی صاحب کے ساتھ تشریف فرما تھے.....وطن عزیز نے بریلوی اہلحدیث یکجہتی کا ایسا نظارہ کم ہی دیکھا ہوگا .......
12جون 2009ء جمعۃ المبارک کے روز جامعہ نعیمیہ میں خود کش دھماکے کی خبر سنی تو فوری جناب ضیا الحق نقشندی کو فون کیا.. . انہوں نے روتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی کو اسی سادہ سے دفتر میں شہید کر دیا گیا ہے جہاں بیٹھ کر انہوں نے انٹرویو دیا تھا .... حکومت پاکستان نے انہیں بعد از شہادت’’ہلال شجاعت ‘‘ اور ’’ستارہ شجاعت‘‘کے اعزازسے نوازا .....نعیمی صاحب کی شہادت کے بعد میں نے انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور نامور اسلامی سکالر جناب ڈاکٹر احمد علی سراج کے ساتھ ان کی قبر پر حاضری دی ..جامعہ نعیمیہ کے ایک کونے میں سادہ اور چھوٹے سے شہر خاموشاں میں رحمتوں کا نزول محسوس ہو رہا تھا...یوں لگا جیسے اپنے والد گرامی کے پہلو میں آرام فرما نعیمی صاحب کہہ رہے ہوں کہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا نا کہ شہید مردہ نہیں زندہ ہوتے ہیں....!!!

نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

بلاگ -