پیر سیف اللہ خالد نقشبندیؒ سیرت وکردار کے آئینے میں ۔۔۔!!!
نابغہ روزگار شخصیت پیر طریقت رہبر شریعت،مجاھد اسلام، حضرت اقدس مولانا پیر سیف اللہ خالد نقشبندی مجددی رحمتہ اللہ علیہ نے کتب درس نظامی رشیدیہ ساہیوال، دارالعلوم کراچی اور دورہ حدیث شریف وطن عزیز کی عظیم دینی درسگاہ جامعہ خیر المدارس ملتان استاذالعلماء حضرت مولانا علامہ محمد شریف کاشمیری رحمہ اللہ علیہ سے کیااور خانقاہ نقشبندیہ چکوال میں نمونہ اسلاف حضرت اقدس مولانا پیر حافظ غلام حبیب نقشبندی مجددی رحمہ اللہ علیہ جن کا علمی و روحانی فیض آج بھی پوری دنیا میں جاری ہے انکے دست مبارک پر بیعت فرمائی،پھر اسی خانقاۂ سے تصوف کے علوم و معارف سے متصف ہو کر اسلام آباد میں مرکزی جامع مکی مسجد میں امام و خطابت کی فرائض سرانجام دینے کیساتھ ساتھ بہت ساری دینی وملی تحریکوں میں بھی عملی حصہ لینا شروع کیا ۔
اسلام آباد میں گزرے ہوئے تیس سال اور ان تیس سالوں سے شب وروز کی دینی وتحریکی و اصلاحی زندگی روز روشن کی طرح واضح ہے۔۔ دنیا بھر سے آنے والے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کرام کی مکی مسجد میں تشریف آوری اور ضیاضت مشہور و معروف تھی، سن 1986ء میں لاھور میں ایک دینی ادارے جامعہ منظور الاسلامیہ (عید گاہ صدر کینٹ لاھور ) کی بنیاد رکھی،(راقم اسی درسگاہ کا طالبعلم ہے)اس ادارہ کی بانی و مہتمم بن کر اکتیس (31)سال تک سرپرستی فرمائی اور ملک کے طول و عرض سے آنے والے ہزاروں طلباء کرام اس مکتب سے حافظ،قاری اور عالم دین بن کر(جو کہ آپکی روحانی خانقاۂ بھی ہے )سے علمی و روحانی طور پر فیضیاب ہو کر پوری دنیا میں دین اسلام کی خدمت و اشاعت کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں جو کہ حضرت رحمہ اللہ علیہ باعث ذریعہ نجات اور بلندی درجات کا سبب بھی ہے۔
حضرت پیر صاحب سچائی و حق گوئی میں اپنی مثال آپ تھے ،جرات وشجاعت و بہادری میں باکمال تھے، ویسے تو سلاسل اربعہ ( نقشبندیہ ، سہروردیہ ، چشتیہ ، قادریہ )سے تعلق رکھنے والے اکابرین امت نے آپ کو اجازت دے رکھی تھی مگر سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ (پیر طریقت ، رہبر شریعت حضرت مولانا حافظ غلام حبیب نقشبندی مجددی ) میں بیعت لیتےاوراپنےمریدین کو وظائف کیساتھ کیساتھ رزق حلال کھانےاور پاکیزہ روزی کمانے کا درس دیا کرتے تھے۔
اپنی خانقاۂ عالیہ سے ہزاروں انسانوں کے قلوب واذہان میں شریعت و طریقت کے چراغ جلائے ، ان کے نام کا شہرہ علماء کرام، طلباء عظام اور عوام الناس میں یکساں تھا ، جاہ و جلال اور باوقار شخصیت چہرے پر نورانی ریش اور سر پر مسنون عمامہ ہاتھ میں عصا، حسن و جمال کے پیکر ،حسین اور دلربا سراپا ،وقار اور تمکنت سے چہرہ مامور ، ایمانی و روحانی روشنانی چہرے پر نمایاں المختصر جو بھی ملتا یقیناً گرویدہ ہی ہو کر رہ جاتا۔۔۔
ساری زندگی ہفتہ وار مجلس ذکر بروز بدہ بعد از نماز مغرب جسمیں علماء ،طلباء صلحاء کا ایک جم غفیر سراپا انتظار و اشتیاق سے حضرت اقدس کے گرد حلقہ بنا کر خاموش بیٹھے ہوئے اندر ہی اندر سلگتے ، حضرت کے انمول وعظ و نصیحت،مراقبہ اور رقت آمیز دعائیہ کلمات سے مستفید ہوتے تھے ،حضرت کی مجلس میں طریقت و تصوف ، ذکر و فکر، علمی مسائل، قرآن و حدیث کے شکر پارے سے معمور بہت سی عبادت و عقائد کی گرہیں کھلتیں
اللہ تعالی کی وحدانیت ، رسالتمآب ﷺ کی رسالت وختم نبوت ﷺ کا پرچار ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کی محبت وتقدس اور پاسبانی کا کام ان نفوس قدسیہ کیلئے سے محبت و عقیدت رکھنے والوں سے محبت کرنا اپنے لئے سعادت سمجھتے تھے ۔۔۔
تحریک تحفظ ناموس رسالتﷺ ہو یا پھر تحریک تحفظ ناموس صحابہ کرام واہلبیت عظام رضوان اللہ علیھم اجمعین ہو انکی قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی ہوئی نہیں ہیں۔۔۔ہمیشہ کلمہ حق کہنا اپنا فریضہ سمجھتے تھے کیونکہ صاحب شریعت و طریقت ہونے کیساتھ ساتھ مردآہن اور حمیت وغیرت و جرات وشجاعت کے پیکر بھی تھے۔۔۔ اسی لئے آپکی گفتگو سے عشق رسالت ﷺ ، عقیدہ ختم نبوت ، ناموس صحابہ کرام کے تحفظ ، ازواج مطہرات کی عظمت و عقیدت، اور توحید وسنت کی اہمیت و ضرورت کا درس ملتا تھا۔۔۔۔
آپ نے پاکستان کے علاوہ ساؤتھ افریقہ ، کویت ،مسقط ،قطر ۔ عراق ،انگلینڈ ۔ انڈونیشیا ، ملائشیا، سعودی عرب ، عرب امارات ، ہندوستان ، جرمن ، فرانس سمیت دیگر کئی ممالک میں سفر کرکے دین اسلام کی دعوت و تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیا ۔۔۔آپ کی دعوت پر ساؤتھ افریقہ سمیت کئی ممالک میں غیر مسلموں نے کلمہ اسلام پڑھا اور حلقہ اسلام میں داخل ہوئے۔ ۔۔۔
پچاس لاکھ روپے کی امریکی امداد کو ٹھکرا کر اپنے جذبہ ایمانی اور غیرت ایمانی کا اظہار کرکے اپنے اکابرین کی یاد کو تازہ کر دیا اور اپنے محبین ، متوسلین ، مریدین اور عقیدت مندوں کیلئے اپنی مثال میں نمونہ چھوڑا ہے اس خبر کی تشہیر روزنامہ اسلام 10 اگست 2006 عیسوی،14 رجب 1427 ہجری اور 11اگست 2006 عیسوی ،15 رجب 1427رجب روزنامہ نوائے وقت میں بھی ہوئی جس پر اہل حق کا سر فخر سے بلند ہو گیا ۔۔۔
اپنے اکابر کی طرز پر ہمشہ دلیل وبرہان پر یقین رکھتے ہوئے فتنہ قادیانیت سمیت ہر باطل فتنہ کے خلاف سربکف ہو کر ظالم وجابر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کلمہ حق کہا۔۔ آپ خوش طبع ،خوش اخلاق ،منکسرالمزاج، انتہائی ملنسار،زندہ دلی و خوش مزاجی، سادگی و انکساری کا حسین مرقع تھے ۔۔۔علماء کرام ، طلباء کرام اور عوام الناس کی خدمت کر کے انتہائی خوشی محسوس کرتے۔۔ ہر انسان کے دکھ دردکو اپنا دکھ درد سمجھتے تھے ۔۔۔انکی زبان پر اکثر یہ جملہ ہوتا کہ اپنے لئے تو حیوان جیتے ہیں۔۔۔ انسان تو وہی ہے جو دوسروں کیلئے جیئے۔ انسانیت کی خدمت کرنا اپنا فریضہ دین اور ذریعہ نجات سمجھتے تھے۔ مذہب و مسلک، عقیدہ و نظریہ کو ہی اپنا سب سے قریبی تعلق اور رشتہ سمجھتے تھے ۔۔۔اپنے چھوٹوں کو صرف عزت ہی نہیں بلکہ چھوٹوں کا بڑا بنانا انکا محبوب مشغلہ تھا ۔۔۔
اپنی آئیڈیل شخصیت خلیفہ ثانی ،خلیفہ راشد، مراد مصطفے ،جانشین سیدنا ابوبکر صدیقؓ ،امام عدل وحریت حضرت سیدنا عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ کو سمجھتے تھے ۔۔۔اکابرین میں حضرت مجدد الف ثانیؒ ، حضرت مولانا سید احمد شھیدؒ ، حضرت مولانا شاہ اسماعیل شھیدؒ ، حضرت شیخ الہند محمود الحسنؒ دیوبندی ، شیخ العرب و العجم مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، حضرت مولانا عبیداللہ سندھیؒ، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ ، حضرت پیر طریقت رہبر شریعت مولانا حافظ غلام حبیب نقشبندیؒ مجددی ، شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خانؒ سے بے پناہ محبت وعقیدت رکھتے تھے اور اپنی مجالس میں بھی ان بزرگ ہستیوں کا ذکر کرتے ہوئے وجد طاری ہو جاتا تھا ۔۔۔
میری حضرت پیر صاحب سے بیس برس رفاقت رہی ۔۔۔میں نے ھمیشہ انہیں حق و صداقت ، عدل و انصاف ، جرات وشجاعت، حمیت وغیرت کا درس دیتے ہوئے شریعت و طریقت کا پابند ،عجز و انکساری جیسی بہت ساری صفات حسنہ سے متصف پایا۔ ۔۔ہر محفل و مجلس میں مرکز نگاہ ہوتے۔۔۔ سیاسی و مذہبی حلقوں میں آپ اور آپکی رائے کا ہمیشہ احترام کیا جاتا ۔۔۔آپ کی وفات(اٹھارہ18) رمضان سن 1438 ھجری 14 جون 2017 عیسوی بروز بدھ کو لاھور میں ہوئی اور انیس (19)رمضان 15جون کو صبح دس بجے آپکی نماز جنازہ جامعہ منظورالاسلامیہ لاھور صدر کینٹ میں ادا کی گئی۔۔ آپ کی نماز جنازہ آپکے بڑے بیٹے ، جانشین اور جامعہ منظورالاسلامیہ کے مہتمم حضرت مولانا پیر محمد اسداللہ فاروق صاحب نے پڑھائی ۔
ملک بھر سے ہزاروں کی تعداد میں علماء، طلباء اور عوام الناس آپکے نماز جنازہ میں شریک ہوئے اور لاکھوں سوگواروں، (شاگردوں ، مریدوں اور متوسلین و محبین کو چھوڑ کر دنیا فانی سے رخصت ہوگئے ۔۔۔جامعہ منظور الاسلامیہ اور جامعہ سے سند فراغت حاصل کرکے علماء و قرآء کے ادارے اور ان سے فارغ التحصیل حفاظ ، قرآء اور علماء کرام جو لاکھوں کی تعداد میں پوری دنیا میں دین اسلام کی خدمت واشاعت میں مصروف عمل ہیں اور تمام ادارت حضرت رحمہ اللہ علیہ کا علمی و روحانی فیض بھی ہیں اور انکے ذریعہ نجات بھی ہیں تاقیامت انکا علمی و روحانی فیض جاری رہیگا ۔۔۔
حضرت پیر سیف اللہ خالد رحمہ اللہ علیہ کو ہم سے بچھڑے ہوئے چار سال کا عرصہ ہو چکا ہے مگر بھی آغا شورش کاشمیریؒ کے وہ اشعار جو انہوں نے مولانا ابوالکلام آزادؒ کے بارے کہے تھے اور آج بے اختیار زبان پر جاری ہیں ۔
عجب قیامت کا حادثہ ہے،کہ اشک ہے آستیں نہیں ہے
زمین کی رونق چلی گئی ہے، اُفق پہ مہر مبین نہیں ہے
تری جدائی سے مرنے والے، وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے
کئی دماغوں کا ایک انساں ،میں سوچتا ہوں کہاں گیا ہے ؟
قلم کی عظمت اجڑ گئی ہے ،زباں کا زور بیاں گیا ہے
اتر گئے منزلوں کے چہرے ، امیر کیا ؟ کارواں گیا ہے
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے !
یہ کون اٹھا کہ دیر وکعبہ شکستہ دل ، خستہ گام پہنچے
جھکا کے ا پنے دلوں کے پرچم ، خواص پہنچے، عوام پہنچے
تری لحد پہ خدا کی رحمت ، تری لحد کو سلام پہنچے
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے
اگرچہ حالات کا سفینہ اسیر گرداب ھو چکا ہے
اگرچہ منجدھار کے تھپیڑوں سے قافلہ ہوش کھو چکا ہے
اگرچہ قدرت کا ایک شہکار آخری نیند سوچکا ہے
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے۔
وفات سے چند روز قبل حضرت پیر صاحبؒ نے مجھے اپنے بچپن سے جوانی ،جوانی سے بڑھاپے تک درسگاہ ،خانقاہ، تحریکی و تنظیمی زندگی کی متعلق اپنی رودادِعشق و وفا سنائی ،
کچھ تو احساس محبت سے ہوئیں نم آنکھیں
کچھ تری یاد کے بادل بھی بھگو جاتے ہیں
انکے چشم تر سے بہنے والے آنسو مجھے آج بھی یاد ہیں، میری آنکھوں سے آنسو دیکھ کر فرمانے لگے بیٹے میں آپکو وصیت کرتا ہوں اور پھر فارسی کا ایک شعر پڑھا میں نے کہا پیر صاحب اس شعر کی تھوڑی وضاحت کیجیئے ،فرمانے لگے اُسید بیٹے! ہم نے زندگی ضائع کر دی، جو ہم نے کر سکے آپ ضرور کرنا ، آپ کے پاس بہت وقت ہے۔( یعنی اپنی استطاعت کیمطابق دین اسلام کی ترویج واشاعت جاری رکھنا)پھر آنسو بہاتے ہوئے فرمایا بیٹے!ہر شخص چاہتا ہے کہ معاشرہ ٹھیک ہوجائے ،فرق بس اتنا ہے کہ میں چاہتا ہوں آپ ٹھیک ہو جاؤ اور آپ چاہتے ہیں میں ٹھیک ہو جاؤں،کاش! میں چاہوں کہ میں ٹھیک ہو جاؤں اور آپ چاہیں کہ آپ ٹھیک ہو جائیں۔کیونکہ اپنی اصلاح کرنا دوسرے کی نسبت آسان ہے ۔اللہ جل شانہُ ہمیں اپنی اصلاح کیلئے فکرمند ہونے کی توفیق عطا فرمائیں۔
مری میں ہمارے بہت ہی پیارے دوست راجہ عمر عباسی صاحب کی رہائشگاہ پر گزرے ہوئے وہ یادگار لمحات آج بھی جب یاد آتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے حضرت پیر صاحب رحمہ اللہ علیہ آج بھی ہمارے ساتھ ہیں اور ویسے بھی اللہ والے مرتے کہاں ہیں بقول بابا بلھے شاہ رحمہ اللہ علیہ ۔
تخت منور بانگاں ملیاں
تاں سنیاں تخت لاہور
عشقے مارے ایویں پھردے
جیویں جنگل وچ ڈھور
رانجھا تخت ہزارے دا سائیں
ہُن اوتھوں ہویا چور
بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں
گور پیا کوئی ہور
دعا ہے کہ رب کریم انکی دینی وملی خدمات اپنی بارگاہِ جلیلہ میں قبول ومنظور فرمائیں۔۔ انکی مغفرت وبخشش اور درجات بلند فرمائیں ۔۔۔انکے مرقد کو باغیچہِ جنت بنائیں۔۔ انکے رفیق اعلٰی میں شامل فرمائیں ۔۔روز جزا شافع محشر ﷺکے حوض کوثر سے جام کوثر نصیب فرمائیں اور رسالتمآب ﷺ کی شفاعت نصیب فرمائیں
آمین یا رب العلمین
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔