ہرگذرتا ہوا دن  

 ہرگذرتا ہوا دن  
 ہرگذرتا ہوا دن  

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 عمران خان کی حکومت کو ختم ہوئے اورمیاں شہبازشریف کی حکومت کو بنے دوماہ مکمل ہو چکے ہیں۔عمران خان کی حکومت اپنی نالائقیوں کی وجہ سے ختم ہوئی،ان کے دور میں ملک کی معیشت زمین بوس ہوئی اور گوورننس کا جنازہ نکل گیا جس کی وجہ سے ان کے اتحادی ان کا ساتھ چھوڑگئے۔ یہ اتحادیوں پرمشتمل ایک مخلوط حکومت تھی جس کے اتحادی اس نتیجہ پرپہنچ چکے تھے کہ ملک اب مزیدعمران خان اوران کی کچن کابینہ کی ناتجربہ کاری اور نا اہلی کا متحمل نہیں ہو سکتااوراگرمعاملات یونہی چلتے رہے توملک کی بقاخطرہ میں پڑ جائے گی۔ اتحادیوں کے پاس حکومت سے نکل جانے کے سوا کوئی اورآپشن نہیں بچاتھا،ا س لئے وہ نکل گئے۔ تمام اتحادی جماعتوں نے نئی مخلوط حکومت قائم کی اورمیاں شہبازشریف کووزیراعظم منتخب کرلیا۔ وفاق کے علاوہ پنجاب میں بھی تحریک انصاف کی حکومت ختم ہو گئی اوروہاں بھی اتحادی حکومت قائم ہو گئی جس نے حمزہ شہباز شریف کووزیراعلی منتخب کرلیا۔ یہ عمران خان اوران کی پارٹی تحریک انصاف کی ملکی سیاست سے پسپائی کا نقطہ آغازہے۔ ہرگذرتے دن کے ساتھ عمران خان کی سیاست کمزورہورہی ہے اورمعاملات اگریونہی چلتے رہے توپی ٹی آئی چھوڑنے والوں کی تعدادمیں تیزی سے اضافہ ہوتاجائے گااورعمران خان کا سیاسی قدکاٹھ دوبارہ وہی ہو جائے گاجو2013 سے پہلے تھا۔


 پی ڈی ایم حکومت اپنے قدم جما رہی ہے اوراب واضح ہوتا جا رہا ہے کہ یہ اپنی مدت پوری کرے گی۔ اس دوران پی ٹی آئی ٹوٹ پھوٹ کا شکارہو جائے گی اوراگراگلے الیکشن میں پی ڈی ایم سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لیتی ہے توپی ٹی آئی محض چند سیٹیں ہی جیت پائے گی۔ اس کا پہلا مظاہرہ17 جولائی کو ہو جائے گا جب20 سیٹوں پرضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ن) 15 سے زیادہ سیٹیں باآسانی جیت لے گی کیونکہ ان میں سے 12 سیٹیں وہ ہیں جو آزادامیدواروں نے جیتی تھیں اوربعدمیں جہانگیرترین کے جہازمیں بیٹھ کربنی گالہ چلے گئے تھے کیونکہ اس وقت ہوا کا رخ اس طرف تھا۔ اب ہوا کا رخ الٹ ہو چکاہے اوران 15 سے زائد سیٹوں پرجیتنے والے آزادامیدواروں اورمسلم لیگ (ن) کا ٹوٹل کیا جائے تو وہ پی ٹی آئی کے دوگناسے بھی زیادہ بنتاہے۔ اب جہانگیرترین اورعلیم خان گروپوں سمیت تمام منحرفین مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہیں اورضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی بمشکل ایک آدھ سیٹ ہی جیت سکے گی۔ ضمنی الیکشن کے بعدپی ٹی آئی چھوڑنے کا عمل بہت تیز ہو جائے گا اوراس کے ٹکڑے ہو جائیں گے۔ عمران خان اچھی طرح جانتے ہیں کہ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں انہیں بھاری شکست ہو گی اس لئے وہ پیش بندی کے طورپرالیکشن کمیشن پرحملے کر رہے ہیں۔ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں ان سیٹوں پرنمبرز ایسے ہیں کہ اگرالیکشن کمیشن کی بجائے یہ الیکشن بنی گالہ سے بھی کرائے جائیں تب بھی پی ٹی آئی تقریباًتمام سیٹوں پرہار جائے گی۔ پہلے توعمران خان نیب، ایف آئی اے اورآئی بی وغیرہ کو استعمال کرتے تھے، اب یہ ادارے جب ان کنٹرول میں نہیں ہیں تو وہ کیسے اپنی انتقامی کاروائیاں کریں گے۔ یہ بات سچ ہے کہ عمران خان کی انتقامی سیاست کا وقت ختم ہو چکا ہے اور اب یہ کبھی واپس نہیں آسکتا۔ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی نے اپنے اراکین کے استعفے جمع کرائے تھے لیکن اس عمل میں قانونی تقاضے پورے نہیں کئے گئے تھے اس لئے ان کی منظوری مشکل ہے۔ یہ اراکین اسمبلی کی رکنیت سے استعفی نہیں دینا چاہتے اس لئے مستعفی ہونے کی بجائے وہ عمران خان کی لیڈرشپ ختم کرنے کو ترجیح دیں گے۔ آنے والے دنوں میں پی ٹی ائی کے قومی اسمبلی ممبران کی اکثریت قومی اسمبلی میں اپنا نیا لیڈرچن لے گی جس کے بعد عمران خان کا پارلیمنٹ میں رول ختم ہو جائے گا۔ پنجاب کے ساتھ ساتھ عمران خان قومی اسمبلی میں بھی اپنا کنٹرول کھوبیٹھیں گے اور ویسے بھی ڈیڑھ سال بعد جب عام انتخاب ہوں گے تو پی ٹی آئی سکڑکر ایک چھوٹی جماعت بن چکی ہو گی۔ پی ٹی آئی کے صرف ان لیڈروں کی سیاست بچے گی جومسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی یا دوسری پارٹیوں میں چلے جائیں گے۔


عمران خان حکومت کے دست راست شیخ رشیدنے برملا اعتراف کیا ہے کہ عمران خان نئی حکومت کے لئے بارودی سرنگیں چھوڑگئے ہیں۔ انہوں نے جان بوجھ کرامریکہ، یورپی یونین، اہم ترین ممالک اورعالمی اداروں سے تعلقات بگاڑے تاکہ پاکستان سفارتی اوراقتصادی طورپر تنہا ہو جائے۔ عمران خان نے وفاق اورپنجاب کے انتقال اقتدارمیں صدرمملکت کو غیرآئینی ہتھکنڈوں پرمجبورکیاجس کی وجہ سے قومی اسمبلی کے سابق سپیکر، ڈپٹی سپیکراورگورنرپنجاب نے پے درپے غیرآئینی اقدامات کر کے آئین کی دھجیاں اڑائیں۔ باربارآئین توڑنے کے باوجودگیم ان کے ہاتھ سے نکلتی گئی کیونکہ وہ بہت کمزوروکٹ پرتھے۔ پنجاب میں بلیغ الرحمان گورنراورحمزہ شہبازشریف وزیراعلی بن چکے ہیں اورصوبائی کابینہ بھی حلف اٹھانیکے بعدفعال ہو چکی ہے۔ عمران خان تخت لاہورکی جنگ ہار چکے ہیں اوریہاں ان کا مہرہ پرویزالہی بھی بری طرح پٹنے کے بعدکسی طرح اپنی سپیکرشپ بچانے کے لئے ترلے منتیں کر رہاہے۔ یہ سچ ہے کہ مونس الہی نے اپنے والد کی چالیس سالہ سیاست اورپارٹی کی لٹیا ڈبودی ہے۔ میں نے اس بات کی نشاندہی پچھلے دوتین ماہ میں بار بارکی اوراب وہ وقت آچکاہے کہ پرویز الہی کے پاس مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کمپرومائزکرنیکے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ وفاق اورپنجاب میں پی ڈی ایم حکومت تیزی سے مستحکم ہو رہی ہیں۔ اقتصادی طورپر بھی حالات حکومت کے کنٹرول میں آتے جارہے ہیں۔ عمران خان نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو بارودی سرنگیں بچھائی تھیں، وہ صاف ہو رہی ہیں اوراسی طرح دوسرے عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاملات بھی ازسر نو بہترہو رہے ہیں۔ سعودی عرب اورچین سے بھی مثبت خبریں آ رہی ہیں اوراس ہفتہ چین سے 2.4 ارب ڈالرمل جائیں گے۔ ترکی، انڈونیشیا، جاپان اوریورپی یونین کے ساتھ بھی ری سیٹ ہو رہا ہے۔ وفاقی بجٹ پیش کرنے کا مرحلہ بھی خوش اسلوبی سے گذر چکا ہے جس میں آزادماہرین کی طرف سے منفی تبصرے نہیں آئے۔ مقتدرادارے اورسپریم کورٹ بھی اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ انہوں نے اپنے آئینی کردارکو مقدم رکھنا ہے۔گویا میاں شہازشریف اورپی ڈی ایم حکومت‘ہر گذرتے دن کے ساتھ بہت کامیابی سے نہ صرف عمران خان کی بچھائی ہوئی سفارتی اور اقتصادی بارودی سرنگیں صاف کررہی ہے بلکہ سیاسی طورپربھی انہیں ناک آؤٹ کرتے جا رہے ہیں۔ لانگ مارچ کے فلاپ ہونے کے بعدعمران خان کے پاس احتجاجی سیاست کا آپشن بھی ختم ہو چکا ہے۔ 

مزید :

رائے -کالم -