صوفیانہ دانش سے دہشت گردی کا خاتمہ

صوفیانہ دانش سے دہشت گردی کا خاتمہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وطن عزیز میں برس ہا برس سے جاری دہشت گردی کی خوفناک لہر نے یقینا سوچنے سمجھنے والے اذہان اور محسوس کرنے والے قلوب کو شدید اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے ہر محبِ وطن پاکستانی اس سوال کے جواب کی تلاش میں ہے کہ ہماری قوم کب اور کیونکر دہشت گردی کے اس منحوس عفریت سے چھٹکارہ پا سکتی ہے اور ہماری موجودہ تباہی کے پیچھے کیا عوامل ہیں چند روز قبل یہی سوال لے کر صوفی عصر کی خدمت میں حاضر ہوا تو جواب ملا: " عذاب کی دو قسمیں ہیں ایک قدرتی مثلاََ زلزلہ، طوفان وغیرہ اور دوسرا وہ جس میں قومیں مرتی نہیں سسکتی رہتی ہیں اللہ انہیں فرقوں میں بانٹ دیتا ہے اور وہ باہم دست و گریباں رہتی ہیں"۔
پروفیسر عبداللہ بھٹی کے ارشاد کی روشنی میں اگر ہم اپنی اجتماعی و قومی زندگی کا جائزہ لیں تو بخوبی یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ اس وقت دہشت گردی کی صورت میں دراصل ہم ایک عذاب الیم کا شکار ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ایک امت ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ہر فرقہ دوسرے کے خون کا پیاسا ہے اس رویے کی کوکھ سے دہشت گردی کے عفریت نے جنم لیا۔ دہشت گردی کے اژدھے نے ہماری معاشرت ، ہماری معیشت ، ہمارے سماجی و اخلاقی رویوں کو ہی نگل ڈالا ہے اور ہمیں اس عذاب سے نکلنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا۔ کیا ہی اچھا ہو اگر ہم اس عذاب سے نکلنے کے لئے صوفیانہ دانش و مزاج کا سہارا لیں نفرت کا کاروبار کرنے کی بجائے محبتوں کی شیرینی بانٹیں نفرت کے الاﺅ بھڑکانے کی بجائے محبتوں کی بارش برسائیں اپنی طبعیتوں میں چٹانوں کی سی سختی کی بجائے ریشم سی نرمی پیدا کریں کہ قدرت کو ہم پر رحم آئے اور ہم اس جنجال سے باہر نکل سکیں۔ ہمیں اپنے فکری ذہنی اور مسلکی مسائل کے حل کے لئے تقوف صحفی اور پروفیسر بھٹی صاحب جیسے عملی صوفیاءکی تعلیمات سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئے۔
 پروفیسر صاحب نے اپنی تازہ تصنیف "فکرِدرویش" میں مختلف تاریخی حوالوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ مختلف ادوار میں اسلام سیاسی زوال کے باوجود روحانی زوال کا شکار اس لئے نہیں ہو سکا کہ تصوف کی بے پایاں قوت اسے ہر دور میں نئی زندگی عطا کرتی رہی ہے یہ تصوف کی ہی برکت تھی کہ چنگیزی قوم کشت و خون کے گھناﺅنے کھیل سے تائب ہو کر اسلام کی روشنی کی طرف مائل ہوئی۔ "فکرِ درویش" پروفیسر صاحب کی دوسری تصنیف ہے اپنی پہلی کتاب "اسرار روحانیت" میں پروفیسر صاحب ایک ساحر البیان ادیب دکھائی دیتے ہیں تو فکر درویش میںفقیہہ العصر کہ فکر درویش قلب و ذہن کے تاروں کو چھیڑنے والے موضوعات پر مبنی ہے ۔
 اسرار روحانیت میں اگر ہمیں منظر نگاری کی جھلکیاں ملتی ہیں تو فکر درویش میں جابجا فکر ودانش کے موتی بکھرے دکھائی دیتے ہیں اور دانش بھی وہ جو تصوف کے خمیر میںگندھی ہوئی ہے فکر بھی وہ جو انسان کے فکری روحانی نفسیاتی تمام مسائل کا حل پیش کرتی ہے۔ اسرار روحانیت میں پروفیسر صاحب کے مخاطب عوام الناس تھے تو فکر درویش میں ان کا روئے سخن اہلِ علم طبقے کی طرف ہے جو استدلال و بُراہین کی قوت کا قائل ہے طریقت کے عنوان سے لکھے گئے باب میں اگرچہ کچھ اصطلاحات عام فہم نہیں ہیں لیکن موضوع کے اعتبار سے اُن کا استعمال بے جا دکھائی نہیں دیتا۔ مقامات ارواح کا ذکر ہو،یاراہ سلوک میں درپیش منازل کا تذکرہ عقل و معرفت کا تقابلی جائزہ ہو یا شریعت و طریقت کا تذکرہ صوفیا کی سیاسی خدمات کا ذکر ہو یا ان کی علمی خدمات کا تذکرہ تصوف صحفی ہو یا تصوف سکری ہر جگہ صوفیانہ دانش کے موتی بکھرے دکھائی دیتے ہیں۔ مصنف نے فکرِ درویش میں اس خیال کو سختی سے رد کیا ہے کہ تصوف کا ماخذ ہندو روایات ہیں کتاب میں یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ تصوف کے سوتے جہالت کی وادیوں سے ہرگز نہیں پھوٹے اور نہ ہی تصوف کی روایات ایرانی اثرات کی حامل ہیں۔
فکر درویش کے مطالعے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ حقیقی تصوف افیون نہیں اگرچہ زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح تصوف میں بہروپیوں کی بھر مار ہے جو عوام الناس کو اپنی شعبدہ بازیوں میں جکڑے ہوئے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر کسی جگہ ہمیں دوچار عطائی یا جعلی ڈاکٹروں سے واسطہ پڑ جائے تو کیا ہم یہ سمجھ بیٹھیں کہ دنیا بھر کے تمام ڈاکٹر ہی جعلی ہیں، لہٰذا ان سے علاج نہیں کرایا جا سکتا۔ فکر درویش ایک ایسی ایمان افزوز اور جامع کتاب ہے جو اپنی افادیت کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔ راہِ سلوک کے مسافروں کے لئے یہ کتاب ایک انمول تحفہ ہے "بنجر دلوں کو سیراب" کر دینے والی یہ کتاب ، قاری کو غوروفکر کی گہری وادیوں میں دھکیل دیتی ہے اور پڑھنے والے پر فکرواسرار کے کئی دروا کر دیتی ہے حقائق و اسرار کی نئی دنیاﺅں سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ احسان اور تصوف کے تعلق کو نہایت خوبصورتی سے مدلل انداز میں پیش کیا گیا ہے، جس سے اندازا ہوتا ہے گویا احسان تصوف کی خشت اول ہے۔ پہلی سیڑھی ہے جس کے ذریعے بندہ اپنے رب کی خوشنودی حاصل کر سکتا ہے۔
فکر درویش کے مطالعے کے بعد ہمیں بخوبی اندازا ہو جاتا ہے کہ حقیقی صوفی وہ ہے جس کی زندگی احسان اور عدل کی آئینہ دار ہو ۔ حقیقی صوفی وہ ہے جو خلوت و جلوت ہر جگہ اپنے رب کو اپنے ساتھ محسوس کرے ، جس کا طریق امیری نہیں فقیری ہو جو ہمہ وقت ذات حق کے مشاہدے میں ہو ، کائنات کے سب اسرار جس کے سامنے آشکار ہوں، جو کائنات کی وسعتوں میں گم ہو کر اسرار ہستی کو تلاش کرے جو زمان و مکاں کی حدوں سے ماورا ہو کائنات کی وسعتیں جس کے سامنے ہیچ ہوں جو لطف و کیف کی مستی میں مدہوش ہو کر بھی مخلوق خدا کے لئے سرتاپا رحمت ہو، جس کی حیات سودو زیاں کے اندیشون سے آزاد ہو۔ محبت جس کی عادت ہو نرمی جس کا اوڑھنا بچھونا ہو، لطف و کرم جس کی شان ہو جو بارش کی طرح ہر کس و ناقص کو اپنے فیض سے مستفید کرے اور جو فقیری میں رہتے ہو ئے بھی بادشاہت کے مرتبے پر فائز ہو۔

مزید :

کالم -