مسرت عالم بٹ کی رہائی پر بھارتی پارلیمنٹ کے ہنگامے مضحکہ خیز ہیں‘حریت کانفرنس گ کی مجلس شوری
سری نگر (کے پی آئی) کل جماعتی حریت کانفرنس گ کی مجلس شوری نے واضح کیا ہے کہ حریت پاکستان بھارت مذاکرات کی مخالف نہیں ہے اور نہ بات چیت کے انعقاد سے خوف کھاتی ہے، البتہ بھارت جب تک اٹوٹ انگ کا راگ الاپتا ہے اور کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو تسلیم نہیں کرتا ہے، تب تک مذاکرات کا انعقاد ایک فوٹو سیشن تو ہوسکتا ہے لیکن اس سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا ہے۔حریت کانفرنس گ کی مجلس شوری کا ایک اجلاس جنرل سیکریٹری حاجی غلام نبی سمجھی کی صدارت میں حیدرپورہ میں منعقد ہوا جس میں جملہ اکائیوں کے سربراہوں یا ان کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اجلاس میں حالیہ سیاسی پیش رفتوں پر تبادلہ4 خیالات کیا گیا اور آئندہ کی حکمت عملی سے متعلق غوروخوض ہوا۔ مجلس شوری نے مسرت عالم بٹ کی رہائی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ان کی جرا4132 اور جذبہ4 آزادی کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا اور امید ظاہر کی کہ وہ بہت جلد نئے سرے سے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کریں گے۔ دیگر تمام سیاسی قیدیوں کی فوری رہائی پر زور دیتے ہوئے کہا گیا کہ جتنے بھی سرفروش جیلوں میں نظربند ہیں، وہ کشمیری قوم کے ہیرو ہیں اور ان میں کوئی بھی کرمنل نہیں ہے۔ مسرت عالم بٹ کی رہائی پر بھارتی پارلیمنٹ کے ہنگامے کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ یہ رویہ4 بھارت کے جمہوری دعوے پر ایک بڑا سوالیہ کھڑا کرتا ہے۔اجلاس میں کہا گیا کہ جموں کشمیر کی عدالت عالیہ نے درجنوں بار مسرت عالم بٹ کی رہائی کے احکامات صادر کئے ہیں اور انہیں اسی عدالتی حکم پر رہا کیا گیا ہے ،یہ ہنگامہ کشمیری قوم کے تئیں بھارت کی سخت گیر پالیسی کا عکاس ہے اور اس سے توثیق ہوجاتی ہے کہ بھارت والوں کو صرف کشمیر کی زمین سے دلچسپی ہے اور یہاں کے باشندوں کے لیے ان کے دل میں صرف ضد اور دشمنی بھری ہوئی ہے۔ مجلس شوری نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ یہ ساری ہنگامہ آرائی پی ڈی پی اور بی جے پی کے مابین ایک پہلے سے طے انڈر سٹینڈنگ کا حصہ ہے، جس کا مقصد مفتی محمد سعید کو کشمیر نواز (Pro-Kashmir) سیاستدان کے طور پیش کرنا ہے تاکہ کشمیریوں کی تحریک مزاحمت کو آگے چل کر اس کے ہاتھوں سے نقصان پہنچایا جاسکے۔ مجلس شوری نے حریت چیئرمین سید علی گیلانی کے مسئلہ کشمیر سے متعلق موقف کی بھرپور تائید کرتے ہوئے اس بات کا واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ حریت کانفرنس اصولی طور مذاکرات کی مخالف نہیں ہے اور نہ وہ بات چیت کے انعقاد سے خوف کھاتی ہے، البتہ بھارت جب تک اٹوٹ انگ کی راگ الاپتا ہے اور کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو تسلیم نہیں کرتا ہے، تب تک مذاکرات کا انعقاد ایک فوٹو سیشن تو ہوسکتا ہے، لیکن اس سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا ہے۔ اجلاس میں واضح کیا گیا کہ بعض آزادی پسند لیڈروں نے دہلی والوں کے ساتھ دو طرفہ بات چیت کا ماضی میں تجربہ بھی کیا، البتہ یہ تجربہ یکسر طور ناکام ہوچکا ہے اور مسئلے کے حل کی طرف ایک انچ بھی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ مجلس شوری نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ وہ گیلانی کی قیادت میں حریت کانفرنس کو زیادہ سے زیادہ مستحکم اور فعال بنانے کے لیے وعدہ بند ہے اور وہ تمام آزادی پسندوں کو چند طے شدہ اصولوں کے ساتھ ایک جگہ دیکھنے کی متمنی ہے۔ مجلس شوری نے بھارت اور پاکستان کے مابین منعقد خارجہ سیکریٹری سطح کے حالیہ مذاکرات میں پاکستانی حکومت کے اپنائے گئے موقف پر اطمینان اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب تک بھارت بھی کشمیر کو کور اِشو (Core Issue)کے طور ایڈرس کرنے پر آمادہ نہیں ہوجاتا ہے، دونوں ممالک کی بات چیت سے کسی بھی بیک تھرو کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے اور بات چیت کا یہ روائتی سلسلہ بے معنی اور بے نتیجہ ثابت ہوجائے گا۔