بروقت انصاف، حکومت یا عدلیہ کی ذمہ داری؟
میرے سامنے عدلیہ کے حوالے سے دو خبریں موجود ہیں، جو شہ سرخیوں کے ساتھ اخبارات میں شائع ہوئیں۔۔۔ پہلی خبر لاہور ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی کے فیصلے کی چیف جسٹس کی طرف سے توثیق پر مبنی ہے، جس کے مطابق ماتحت عدالتوں کے 37 ججوں کو معطل کر دیا گیا ہے، جن میں پانچ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج بھی شامل ہیں، ان ججوں پر اختیارات سے تجاوز، مس کنڈکٹ اور کرپشن کے الزامات ہیں، پہلے انہیں او ایس ڈی بنایا گیا تھا، ابتدائی الزامات ثابت ہونے پر انہیں معطل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ دوسری خبر جوڈیشنل اکیڈمی لاہور میں منعقد ہونے والے ایک سمپوزیم سے اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کے خطاب کے حوالے سے ہے، جس میں سپریم کورٹ کے سینئر جج آصف سعید کھوسہ اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ منصور علی شاہ کے ان نکات کو شہ سرخیوں کا موضوع بنایا گیا کہ مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کا الزام ججوں کو نہیں دیا جا سکتا، اس کی ذمہ دار حکومت ہے، جو وسائل فراہم نہیں کر رہی۔ ججوں کی کم تعداد اس مسئلے کا بنیادی سبب ہے۔ آصف سعید کھوسہ نے یہ اعداد و شمار بھی پیش کئے کہ 18 لاکھ کیس 4 ہزار جج سن رہے ہیں، وہ بروقت فیصلے کیسے کریں؟ جسٹس منصور علی شاہ کا یہ کہنا تھا کہ عام عدالتیں انصاف فراہم کریں تو خصوصی عدالتوں کی ضرورت پیش نہ آئے۔ غالباً کہنا وہ بھی یہی چاہ رہے تھے کہ عام عدالتوں پر بوجھ کم ہو تو وہ بھی جلد فیصلے کرنے کے قابل ہو جائیں گی۔
مَیں نے تو اپنی شعوری زندگی میں نہیں دیکھا کہ کسی حکومت نے انصاف کی فراہمی کو اپنی انتخابی مہم کا موضوع بنایا ہو۔ بات جب روٹی کپڑے اور مکان سے شروع ہوتی تھی، تب بھی انصاف کا کہیں ذکر نہیں تھا۔ پھر غربت کم کرنے کے دعوے ہوئے، لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے وعدے کئے گئے، کرپشن کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی باتیں کی جاتی رہیں، مگر یہ کبھی نہیں ہوا کہ سیاسی جماعتوں نے فوری اور سستے انصاف کو اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنایا ہو۔ یہ معاملہ عدلیہ پر چھوڑ دیا گیا ہے، مگر یہ سوچے بغیر کہ وسائل کی فراہمی کے بغیر انصاف کو فوری اور سستا کیسے بنایا جا سکتا ہے، وہ کون سا الہ دین کا چراغ ہے جو ججوں اور عدالتوں کی عدم موجودگی میں انصاف کو بروقت اور یقینی بنا سکے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ججوں کی کم تعداد کے علاوہ بھی بہت سے مسائل ایسے ہیں جو فوری انصاف کی راہ میں حائل ہو جاتے ہیں۔۔۔ مثلاً وکلاء کا رویہ، شعبہ پراسیکیوشن کی نااہلی اور سست روی، دیوانی، فوجداری قوانین کے گنجلک ضابطے وغیرہ، مگر اس کے باوجود اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ججوں پر مقدمات کا بوجھ بہت زیادہ ہے۔ ایک سول جج کی کازلسٹ آج بھی سو مقدمات پر مبنی ہوتی ہے۔ اگر وہ پندرہ منٹ بھی ایک مقدمے کو دے، تب بھی آٹھ گھنٹوں میں صرف 32 مقدمات کی سماعت کر سکتا ہے، جبکہ مقدمات کی فہرست کم از کم سو ہوتی ہے۔ ایسے میں وہ لازماً 60 سے 65 مقدمات میں تاریخیں دینے پر مجبور ہو جائے گا۔ یوں کیس طویل تر ہوتا چلا جاتا ہے۔
یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ہماری تمام حکومتوں نے دو شعبوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا۔ایک طب کا شعبہ اور دوسرا شعبہ انصاف۔۔۔ اربوں کھربوں روپے دیگر مدات پر خرچ ہوتے رہے، مگر ان بنیادی شعبوں پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ آج چاروں صوبوں میں یہی دو شعبے عوام کے لئے اذیت کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ ماتحت عدالتیں نہ صرف کم ہیں، بلکہ وہ جس ماحول میں کام کر رہی ہیں، وہ اس قدر گھٹن زدہ ہے کہ اس میں ججوں، وکلاء اور سائل خود کو حبس بے جا میں محسوس کرتے ہیں۔ڈربہ نما کمروں میں جج صاحبان بیٹھے انصاف کا بول بالا کر رہے ہوتے ہیں۔ بعض کچہریاں تو سوسال پر انی ہیں، جو دن کے وقت مچھلی منڈی کا نقشہ پیش کرتی ہیں۔ ایسے ماحول میں جہاں ویسے ہی دم گھٹتا ہو، مقدمات کے بروقت فیصلے اور وہ بھی روزانہ سومقدمات کی سماعت کے بعد ایک ایسا خواب ہے، جس کی تعبیر کبھی نہیں مل سکتی۔حکومت نے حال ہی میں اپنے ارکانِ اسمبلی کو دس دس کروڑ روپے ترقیاتی منصوبوں کے لئے دیئے ہیں، کیا ہی اچھا ہوتا کہ حکومت انہیں اس امر کا بھی پابندی کر دیتی کہ وہ اس فنڈ سے اپنے علاقوں میں موجود عدالتوں کا انفراسٹرکچر بھی بہتر کریں، ان کے لئے نئے بلاک بنائیں، ان میں بنیادی سہولتیں فراہم کریں تاکہ کم از کم انفراسٹرکچر کی حد تک عدالتی نظام اس قابل ہو جائے کہ انصاف کی امید پر آنے والے سینکڑوں سائلین خود کو اذیت ناک صورت حال میں جکڑا ہوا نہ پائیں۔
دوسری طرف حکومت بھی اپنی ترجیحات میں نظامِ انصاف کی بہتری کو شامل کرے۔ ملک میں قانون کی تعلیم کے حامل افراد کی کمی نہیں، عدلیہ میں ججوں کی آسامیاں فوری طور پر بڑھا کر نئے ججوں کی بھرتی پر توجہ دی جائے۔ مقدمات کی تعداد کے تناسب سے نئے جج بھرتی کئے جائیں۔ 18 لاکھ مقدمات صرف 4 ہزار جج سن رہے ہیں۔ ایسے میں ایک مقدمے پر پانچ سات سال نہ لگیں تو اور کیا ہو؟ ہمارے ارباب اختیار ترقی کو صرف سڑکوں، فلائی اوورز، میٹرو بس منصوبوں کی تعمیر تک محدود رکھے ہوئے ہیں، حالانکہ اصل ترقی یہ ہے کہ عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ ہسپتالوں میں لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے ہوں تو ترقی کے تمام تر دعوے بیکار جاتے ہیں۔ اسی طرح جب یہ خبریں آتی ہیں کہ قتل کے مقدمے کا ایک ملزم بے گناہ ثابت ہونے پر 16 سال بعد رہا ہو گیا تو نظامِ عدل پر رشک نہیں آتا، بلکہ اس شخص پر رحم آتا ہے جو اس نظام کی وجہ سے 16سال تک جیل میں پڑا رہا۔ پاکستان میں آبادی جس رفتار سے بڑھی ہے، ججوں اور ڈاکٹروں کی تعداد میں اس نسبت سے اضافہ نہیں ہوا۔ اسی طرح عدالتوں اور ہسپتالوں کی تعداد بھی نہیں بڑھی، جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے کہ ہر طرف دہائی دی جا رہی ہے، لوگ انصاف اور علاج کی سہولتیں مانگ رہے ہیں، مگر کوئی انہیں مطمئن کرنے کو تیار نہیں۔
سہولتوں کی عدم فراہمی کے باعث انصاف کا معاملہ اس لئے بھی دگرگوں ہو جاتا ہے کہ ہسپتالوں یا تعلیمی اداروں کے برعکس انصاف کی فراہمی میں پرائیویٹ سیکٹر کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا۔ آج ملک بھر میں تعلیم اور صحت کے شعبے کا 60 فیصد بوجھ پرائیویٹ سیکٹر نے اٹھایا ہوا ہے۔ اگر یہ پرائیویٹ سیکٹر نہ ہوتا تو لوگ علاج کے لئے دیواروں سے سر ٹکراتے اور بچوں کی تعلیم کے لئے مارے مارے پھرتے۔۔۔ مگر شعبہ انصاف کا کیا ہو، وہاں تو کوئی پرائیویٹ نظام نہیں دیا جا سکتا۔ حکمرانوں کی خواہش یہی ہو گی کہ کسی طرح یہ بلا بھی ان کے کاندھوں سے اتر جائے اور نجی شعبہ اسے سنبھال لے، مگر آئینی طور پر ایسا ممکن نہیں۔ انصاف کی فراہمی اول و آخر ریاست کی ذمہ داری ہے ۔ عدالتوں کو پرائیویٹ کیا جا سکتا ہے اور نہ ان کی نجکاری ہو سکتی ہے۔ یہ ایسا شعبہ ہے جو ریاست کی طرف سے عوامی فلاح کے زمرے میں آتا ہے۔ چونکہ حکومتوں کو اس سے کوئی خاطر خواہ آمدنی نہیں ہوتی، اس لئے وہ اس پر توجہ بھی نہیں دیتیں، حالانکہ عوام کی نظر میں ان کے امیج کو بہتر بنانے میں جوڈیشل سسٹم کی بہتری نہایت اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ لوگوں کو اگر بروقت اور سستا انصاف ملنے لگے تو معاشرے کی کئی برائیاں خودبخود ختم ہو جائیں۔ امن و امان کی جس مخدوش صورتِ حال کا ہم شکار ہیں،اس سے چھٹکارے کا بھی واحد راستہ یہی ہے کہ اپنے نظامِ انصاف کو درست کیا جائے۔
آج فوجی عدالتوں کی ضرورت اس لئے محسوس کی جا رہی ہے کہ عام عدالتی نظام فوری فیصلے کرنے سے قاصر ہے، جبکہ مجرموں کو قانون کی موجودگی کا احساس دلانے کے لئے ضروری ہے کہ فوری فیصلے کئے جائیں۔یہ بحث و تکرار اب زیادہ دیر تک نہیں چلنی چاہئے کہ انصاف میں تاخیر کی ذمہ داری عدلیہ پر عائد ہوتی ہے یا حکومت پر؟ جب ایک مسئلہ دیوقامت شکل اختیار کر کے سامنے آ چکا ہے تو پھر اس کا حل ڈھونڈنے کی حکمت عملی پر غور ہونا چاہئے۔ حکومتیں جس طرح اپنے ارکان کو کروڑوں روپے انتخابات سے پہلے بانٹ رہی ہیں، اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے پاس وسائل کی کمی نہیں،بس ترجیحات میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اس وقت عدلیہ کچھ کر گزرنے کا ارادہ رکھتی ہے، اس کے اپنے اندر احتساب اور اصلاحات کا سلسلہ جاری ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عدلیہ کو اس کی ضرورت کے مطابق وسائل فراہم کئے جائیں۔ سب سے پہلے ججوں اور عدالتوں کی تعداد بڑھانے پر توجہ دی جائے۔ اگر ججوں کی تعداد کو دوگنا بھی کرنا پڑے تو دریغ نہیں کرنا چاہئے۔ پولیس کو وسائل فراہم کرنا، اُسے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے بہتر بنانا اپنی جگہ ایک اہم کام ہے، لیکن اس سے بھی اہم کام یہ ہے کہ ملک میں نظام انصاف کو فعال اور نتیجہ خیز بنا دیا جائے۔ اس کے پولیس پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور جرائم میں بھی کمی آئے گی۔ پنجاب میں شہباز شریف پولیس کو ریکارڈ وسائل فراہم کر کے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے کا شکوہ کر چکے ہیں، اب یہ تجربہ وہ عدلیہ پر کریں، اور وہ عدلیہ کو مکمل وسائل فراہم کر کے ایک نئی تاریخ رقم کر سکتے ہیں، جس کے بعد یہ الزام ہمیشہ کے لئے دفن ہو جائے گا کہ حکومتیں وسائل فراہم نہیں کرتیں، اس لئے نظام انصاف میں بہتری نہیں لائی جا سکی۔