چھتیسویں قسط۔۔۔ سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان

چھتیسویں قسط۔۔۔ سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان
چھتیسویں قسط۔۔۔ سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سائنس اور حجتی معجزات وکرامات کو تسلیم نہیں کرتے۔وہ انسان کی بنائی ہوئی ایجادات کی کارکردگی دیکھکر دنگ بھی ہولیتے ہیں ،انہیں استعمال کرکے ان کی حقیقت کو پرکھ بھی لیتے ہیں لیکن اللہ وحدہ لاشریک کی احسن ترین تخلیق انسان کی مخفی باطنی روحانی طاقتوں کو تسلیم کرنے سے انکار کردیتے ہیں ۔وہ اسے صرف متھ کہہ کر اپناجھٹک دیتے ہیں۔ آج کے دور میں ایک طبقہ اولیا ء کی خدمات اسلامیہ و باطنیہ کا بھی انکاری ہے ۔ اللہ کریم کی رضا وقدرت سے یہ اولیاء عظام جن خوارق کا اظہار کرتے تھے انہیں ماننے سے بھی انکار کردیتا ہے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے نہ ماننے سے کسی بھی برگزیدہ ہستی کا مقام نیچا نہیں ہوا بلکہ ان اولیاء کرام کی عقیدت کی روشنی دیار ظلمات میں بھی پھیلتی جارہی ہے۔ان کے مزارات مرجع خاص و عام ہیں۔ منکران طریقت کی مخالفت کے باوجود اولیا ء اللہ کی تعلیمات کا فیض عام ہورہا ہے۔عالمی مبلغ اسلام حضرت سیّد معروف حسین شاہ عارف نوشاہی قادری کا کہنا ہے کہ منکران طریقت ہر دور میں رہے ہیں ۔لہذاانہیں قائل کرنے پر زیادہ وقت صرف کرنے کی بجائے اشاعت دین کی راہ پر گامزن رہنا چاہئے۔مجدد اعظم حضرت سید نوشہ گنج بخشؒ نے ملت اسلامیہ کی بقا کی جنگ لڑی اور شریعت وطریقت کی تجدید کرکے آپؒ نے اسلام کو جو تقویت پہنچائی اسکے بعد آپ کو مجدد اعظم کہا گیا۔

سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان۔۔۔پینتیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سرکار نوشہؒ کو ولایت فقر کے تمام درجات ومقامات حاصل تھے۔اس دور کے تمام علما ،فقراآپ کی فضیلت و مراتب کو تسلیم کرتے تھے۔تاریخ دان بتاتے ہیں کہ آپؒ کو مقام نوشاہیت کیسے ملا۔حضرت علی کرم وجہہؓ اور حضرت غوث اعظم ؒ نے عالم ارواح میں آپؒ کو منتخب کرکے بارگاہ رسالت ﷺ میں پیش کیا تھا اور آپؒ کی بحثیت ولی اللہ سند حاصل کی تھی اور اسی روز آپؒ کو اولیا ء کی جماعت میں فوقیت دے دی گئی تھی۔آپؒ کے درجات کی بلندی کا یہ عالم تھا کہ آپؒ کے مرشد کریم حضرت شاہ سلمان نوریؒ اکثر فرمایا کرتے تھے ’’ اے میرے نوشہ۔میرے فرزند اور میرے مرید آپ کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں۔اگر ان سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو آپؒ درگزر کریں ۔‘‘
آپؒ اپنے فرزندوں اور مریدین کو مخاطب کرکے کہتے ’’تم سب سن لو ۔۔۔حاجی سلمان است و سلیمان حاجی است‘‘ یعنی حاجی(نوشہ) سلیمان ہے اور سلیمان نوشہ ہے ‘‘حضرت شاہ سلمان نوری ؒ کی اپنے مرید کامل سے محبت و التفات کی شدت وحدت دیکھ کر ایک دنیا رشک کرتی تھی ۔مجدد اعظم کی سب سے بڑی کرامت آپؒ کی استقامت دین تھی۔اور اسکے لئے آپ نے دینی تعلیم کو لازم قرار دیا تھا۔آپ ؒ نے اپنے بیٹوں کوحصول علم کیلئے دوسرے شہروں میں بھیجا اور فرمایا ’’ اگر دوران تعلیم تمہیں میرے مرنے کی اطلاع ملے تو وہیں بیٹھ کر فاتحہ پڑھ لینا اور بغیر کمال فضیلت حاصل کئے واپس گھر نہ آنا۔‘‘ آپؒ کے کلام سے یہی سبق ملتا ہے کہ طریقت کا تاج پہننے سے پہلے دین کی تعلیم لازمی حاصل کرنی چاہئے۔ باطن جب تک دینی علوم سے مرصّع نہ ہو تو اشاعت دین کے کاموں میں کوتاہی اور غفلت بھی رونما ہوجاتی ہے ۔حضرت سید نوشہ گنج بخشؒ پیدائشی ولی تھے لیکن آپؒ نے دینی تعلیم کے لئے اس وقت کے جیّد اساتذہ کے سامنے زانوے تلمذ طے کئے اور باطنی علوم کے لئے سالہا سال تک مجاہدے وریاضتیں اور عبادات کیں۔اللہ کریم کو آپ ؒ کی یہ ادائیں پسند آئیں تو تبھی آپ ؒ سے اور پھر آپؒ کی اولاد سے بھی کر امات کا ظہور ہوتا رہاہے ۔یہ بھی نوشہ سرکارؒ کی اولاد کی کرامت ہے کہ آج یورپ میں اسلام کا بول بالا ہوچکا ہے،اس سے بڑی حقیقت کیا ہوسکتی ہے ‘‘
سیدمحمدطاہر شاہ ابرارنوشاہی برقی کا کہنا ہے ’’ ہمارے جد امجدنوشہ پاکؒ کی نظر آج بھی ہم پررہتی ہے۔ ہمارے والد گرامی قبلہ حضرت سید ابوالکمال برق نوشاہیؒ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے جد امجد سید نوشہ گنج بخشؒ کاجو طریق تھا اس کو اختیار کرنے میں ہی ہماری بقا ہے۔سید نوشہ گنج بخش ؒ اتباع سنت کرتے ،رحمدل اورفیاض تھے۔غیروں کے ساتھ مہربانی برتتے۔سلام کرنے میں پہل کرتے،امرااور اہل حکومت سے کنارہ کشی اختیار کرتے۔آپؒ چلتے وقت راستے میں دائیں بائیں نہیں دیکھتے تھے۔قدم آہستہ آہستہ اٹھاتے اور ہمہ وقت ذکر حق میں مشغول رہتے۔ایک روز آپ نظریں نیچی کئے کہیں جارہے تھے ،راستہ میں ایک کوتوال نماسرکاری آدمی ملا جو بڑا متکبر اور گستاخ تھا اور فقیروں اور درویشوں کو دیکھ کر ان کا مذاق اڑاتا تھا۔اس نے کہا ’’یہ کون ہے جو گردن ٹیڑھی کرکے جارہا ہے‘‘۔آپؒ نے سنا تو جلال کے عالم میں اسکی طرف دیکھااورکہا’’او بدبخت آدمی سن ۔بنانے والے نے روز اوّل سے فقیروں کی گردنیں سیدھی بنائی ہیں۔البتہ جو ان کی طرف بری نظر سے دیکھتا ہے اسکی گردن ٹیڑھی ہوجاتی ہے۔‘‘سید نوشہؒ سیف الزبان تھے۔ادھر آپؒ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے اُدھر اس متکبر کی گردن ٹیڑھی ہوگئی۔
سید نوشہؒ کی اولاد میں حضرت برق ؒ کو جو مقام فضیلت حاصل ہوا وہ بھی نصیب نصیب کی بات ہے۔آپؒ کی زبان سے نکلی بات پوری ہوکر رہتی تھی۔آپ اپنے شیوخ کی اطاعت اور ادب میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے تھے۔آپؒ خوشاب شریف میں حضرت سخی معروف شاہؒ ،بھلوال شریف میں حضرت شاہ سلمان نوریؒ اور رنمل شریف میں حضرت سید نوشہ گنج بخشؒ کے مزارات پر ننگے پاؤں حاضری دینے جاتے تھے۔

جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔