ذکر بدلتی رُت کا اور کچھ فیشن کے بارے میں
سردیوں اور گرمیوں کے بیچ بہار کی رُت کا درمیانی وقفہ اتنا مختصر اور اِس قدر خاموشی لئے ہوتا ہے کہ اس کے آنے اور جانے کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ البتہ موسمی تبدیلی کا کیف آور دورانیہ حساس لوگوں پر اپنا اثر ضرور چھوڑتا ہے۔ سردیوں کے پہناوؤں کی جگہ گہرے رنگوں والے لباس ماحول کا حصہ بنتے ہیں، زیورات کے استعمال میں کمی واقع ہوتی ہے اور میک اَپ کسی درجہ ہلکا ہو جاتا ہے۔
بہار کی رُت میں طبیعت چونکہ لطیف ہوتی ہے، اس لئے بدن بھاری کپڑوں کا وزن محسوس کرتا ہے۔ ایسے میں سوتی اور ریشمی لباس پہننے کو جی چاہتا ہے۔ اِس رُت میں فیشن خودبخود ترتیب پاتا ہے۔ صحیح کہا جاتا ہے کہ فیشن ایک تہذیبی علامت ہے۔ کسی بھی شخص کے لئے کپڑوں کا انتخاب اس کی شناخت، معاشرت، طرزِ زندگی اور ثقافت کے تابع ہوتا ہے۔
بہار کی رُت میں صرف پرندے اور جانور اور پھول پتے ہی خوشگوار فطری تبدیلیوں کا اظہار نہیں کرتے بلکہ انسان بھی اپنی رُوح میں تازگی اور سرشاری کی کیفیت محسوس کرتا ہے، زندگی اپنا نغمہ چھیڑتی ہے اور جس کے رِدھم سے ماحول گُنگُنا اٹھتا ہے۔ حکومتی اور غیر سرکاری ادارے جشنِ بہاراں کا اہتمام کرتے ہیں۔
بدلتی رُت کی جولانیوں سے انسانی ماحول گرماتا ہے اور دل ایک بے ساختہ خوشی سے بھر جاتا ہے۔ منتقلی کی اس مدت میں تقریبات کا زور و شور عروج پر ہوتا ہے۔ چونکہ گرمی ہوتی ہے نہ سردی، اس لئے لباس کے چناؤ اور استعمال میں زیادہ تردّد کرنا نہیں پڑتا۔ گہرے رنگوں والے لباس پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ یہ امر باعثِ طمانیت ہے کہ برصغیر میں فیشن نے مغربی دنیا کی تقلید برائے نام کی ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ فیشن نے یہاں اپنی زمینی شناخت برقرار رکھی ہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد تہذیبوں کے اختلاط اور لوگوں کے باہمی میل جول نے فیشن کو بے حد متاثر کیا تھا۔ پھر کارپوریٹ بزنس اور برانڈ گیم نے فیشن کو اپنی مُٹھی میں جکڑ لیا اور یوں ذاتی پسند و ناپسند، قومی تقاضے اور سماجی رویے پسِ پشت چلے گئے اور لوگ بھیڑچال کا شکار ہو گئے۔ اب میلان اور پیرس کے ریمپ واک پر ملحوظِ خاطر رکھے جانے والے اصول و ضوابط کو اگرچہ ہمارے لوگ بھی اہمیت دے رہے ہیں تاہم بیرونی فیشن کو مقامی سوچ کا حصہ بننے میں یقیناًوقت لگے گا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ہماری خواتین لباس کے معاملے میں ملکی تقاضوں اور سماجی بندھنوں کو پیش نظر رکھتی ہیں اور کوشش کرتی ہیں کہ اگر جِدّت اور اُپج سے کام لیں بھی تو ان کا کام روایات کا پاسدار ہو۔
موسم کی بدلتی رُت میں ہماری خواتین گہرے رنگوں کو پسند کرتی ہیں جو فطرت کے سفیدی مائل سرمئی رنگ میں ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے دھنک اپنے شوخ رنگوں کے ساتھ زمین پر اُتر آئی ہے۔ عورتیں تقریبات کی رونق بڑھاتی ہیں اور اپنے رنگا رنگ پہناوؤں سے محفلوں کو چار چاند لگاتی ہیں۔ بدلتی رُت کے یہی ایام ہیں کہ جن کا اعتدال ماحول میں خوبصورتی پیدا کرتا ہے ورنہ گرمیاں موسم کی باگ ڈور جونہی اپنے ہاتھ میں لیتی ہیں، وقت اپنی سختیوں کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے اور زندگی کی رونقوں کا زاویہ اور رُخ بدل دیتا ہے۔
29 برسوں پر پھیلے اپنے صحافتی تجربوں اور مشاہدوں کے حوالے سے مَیں نے بدلتی رُت کی دِل آویزی اور کھنکھتے قہقہوں کا خوب تجزیہ کیا ہے اور خواتین کے فیشن میں آتی جاتی تبدیلیوں کا بغور جائزہ لیا ہے۔ مَیں خوش ہوں کہ ہماری عورتوں نے ہر نئے فیشن کو آنکھیں بند کرکے اپنایا ہے نہ اس کی تشہیر سے یک دم متاثر ہوئی ہیں۔ ملکی واکنگ ریمپ پر نمودار ہونے والے فیشن کی انہوں نے خوب چھان پھٹک کی ہے اور اُس فیشن فی الفور رَد کیا ہے جو قومی اور تہذیبی تقاضوں کے منافی ہے۔ فیشن کے معاملے میں ہماری خواتین گہری نظر اور صائب رائے رکھتی ہیں اور اُسی پہناوے کو پسندیدگی کی فہرست میں لاتی ہیں جو سماج اور معاشرے کے وضع کردہ اصول و ضوابط کے عین مطابق ہوتا ہے۔ فیشن کے بارے میں چند دلچسپ اقوال پر مَیں اپنی بات ختم کرتی ہوں۔
’’فیشن میں ایک خرابی ہے کہ ہمیں اپنا غلام بنا لیتا ہے۔‘‘
نپولین (1769-1821)
’’فیشن کسی بھی جابر حکمران سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔‘‘
لاطینی کہاوت
’’متروک فیشن سے زیادہ بدصورت کوئی چیز نہیں۔‘‘
سٹینڈھال (1788-1842)
’’ہر نسل پرانے فیشن کا مذاق اڑاتی جبکہ نئے فیشن کی اندھی تقلید کرتی ہے۔‘‘
ہنری ڈیوڈ تھوریو (1817-62)