نواز شریف کی عیادت،نئے سیاسی سفر کا آغاز
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ نواز شریف کافی بیمار لگے، مگر وہ کسی سمجھوتے اور ڈیل پر آمادہ نہیں،بلکہ اپنے اصولوں پر کھڑے ہیں۔ نواز شریف دِل کے مریض ہیں ایسے مریض پر دباؤ ڈالنا بھی تشدد کے زمرے میں آتاہے،اُن کو صحت کی بہترین سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جانی چاہئے، جیل میں آنے کا مقصد صرف نواز شریف کی عیادت تھا،مگر اِس ملاقات میں سیاسی امور اور میثاق جمہوریت کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی ہے۔اُن کا کہنا تھا نواز شریف کے ساتھ سیاسی اختلاف ہو سکتا ہے،مگر طبی سہولتوں کی فراہمی اُن کا حق ہے، ہمارا دین بھی کہتا ہے کہ اگر کوئی مسلمان بیمار ہو تو اس کی عیادت کریں،حکمرانوں کو بھی پہلے انسانیت پھر حکمرانی کا سوچنا چاہئے۔بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ میثاق جمہوریت پر نظرثانی کا وقت آ گیا دیگر جماعتوں سے بھی اس پر گفتگو کرنی چاہئے۔ نیا میثاق بنانا ہو گا سیاسی نظام کی کمزوریوں کا بھی حل نکالنا چاہئے، ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرانے اور مستقل اتحاد کے لئے دونوں جماعتوں کے گروپ بنانے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ وہ کوٹ لکھپت جیل میں میاں نواز شریف کی عیادت کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ انہوں نے یہ پیشکش بھی کی کہ اگر نواز شریف چاہیں تو سندھ کے کسی بھی ہسپتال میں علاج کرا سکتے ہیں،جس پر انہوں نے غور کا وعدہ کیا۔
نواز شریف کی صحت کے بارے میں جیل سے جو خبریںآ رہی ہیں اُن پر تبصرے بھی ’’فکر ہر کس بقدرِ ہمتِ او است‘‘ کے تحت ہی کئے جا رہے ہیں،کسی کو ان کی صحت بالکل ٹھیک نظر آ رہی ہے اور وہ یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ وہ بیمار بھی ہیں ایسی سوچ اور فکر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ نواز شریف کی صحت کے بارے میں مبالغہ آمیز خبریں پھیلائی جا رہی ہیں تاکہ اُن کے ملک سے باہر علاج کی راہ ہموار کی جا سکے،ایک حلقے کا یہ بھی خیال ہے کہ مریم نواز اپنے والد کی صحت کے معاملے پر سیاست کر رہی ہیں اور یہ بیان پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما چودھری اعتزاز احسن کا ہے،جبکہ اس معاملے میں بلاول بھٹو کا خیال ہے کہ مریم نواز کی خاموشی اپنی جگہ ہے،لیکن وہ اپنے انداز کی سیاست کر رہی ہیں اُن کا خیال ہے کہ اُن سے ملاقات بھی ہو سکتی ہے۔ نواز شریف کے حامیوں کا خیال ہے کہ حکومت اُن کی صحت سے چشم پوشی کر رہی ہے ایسے بیانات بھی آ رہے ہیں کہ اگر نواز شریف کو کچھ ہوا تو ذمہ دار حکومت ہو گی، کئی دوسرے حضرات کا خیال ہے کہ حکومت نہیں خود نواز شریف ذمے دار ہوں گے۔ تازہ اطلاع یہ بھی ہے کہ حکومت نے پی آئی سی کے21ڈاکٹروں کا تقرر کر دیا ہے جو چوبیس گھنٹے جیل میں نواز شریف کی صحت کا خیال رکھیں گے،حکومتی حلقے البتہ یہ کہتے بھی سُنے گئے ہیں کہ نواز شریف ڈیل کرنا چاہتے ہیں، لیکن حکومت اس کے لئے تیار نہیں اور نہ ہی کوئی ڈھیل دینا چاہتی ہے۔
اس پس منظر میں اگر بلاول بھٹو زرداری نے جیل میں نواز شریف سے ملاقات کر کے یہ تاثر دیا ہے کہ وہ ڈیل کے موڈ میں نہیں اور اپنے اصولوں پر کھڑے ہیں تو یہ ایسی اطلاع ہے، جو شاید حکومت کے لئے دِل خوش کن نہ ہو،کیونکہ وہ تو یہ تاثر تواتر کے ساتھ پھیلاتی رہی ہے کہ میاں صاحب تو ڈیل کے لئے مرے جا رہے ہیں یہ تو حکومت ہے جو ایسا نہیں چاہتی،لیکن بلاول بھٹو کی زبانی جو اطلاع سامنے آئی ہے وہ مسلم لیگی اور میاں نواز شریف کے حامی حلقوں کے لئے بھی اطمینان بخش ہو گی اور بلاول کا یہ کہنا کہ میاں صاحب نے سندھ میں علاج کی پیشکش پر غور کا وعدہ کیا ہے اس لحاظ سے نئی اطلاع ہے کہ اس سے قبل نواز شریف جیل ہی میں علاج پر اصرار کر رہے تھے اور اُن کا خیال تھا کہ علاج کے نام پر مختلف ہسپتالوں میں پھرا کر اُن کی تضحیک کی جا رہی ہے۔ اس لئے وہ کسی ہسپتال نہیں جائیں گے۔
اگرچہ بلاول کی ملاقات کا بنیادی مقصد تو مزاج پرسی ہی تھا تاہم دو سیاست دان جب ملاقات کرتے ہیں اور خصوصاً ایسی ملاقات جب پہلی مرتبہ ہو رہی ہو تو سیاست بھی لازماً زیر بحث آتی ہے، سو اس ملاقات میں بھی ایسا ہی ہوا،میثاق جمہوریت کاتذکرہ ضروری تھا،جو لندن میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان ہوا تھا،لیکن جس جوش و جذبے سے اس میثاق پر دستخط کئے گئے تھے وہ بعد کے دِنوں میں بوجوہ برقرار نہیں رہ سکا، کیونکہ اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے اس میثاق کو بے اثر کرنے کے لئے جوابی سیاسی چالیں چلنا شروع کر دیں، جن کے ذریعے بے نظیر بھٹو کو این آراو کی پیشکش کی گئی،جنہوں نے اس سے استفادے کا فیصلہ کیا نتیجے کے طور پر میثاق جمہوریت اُن کی پہلی ترجیح نہ رہی اور بعد کے سیاسی حالات اور2008ء میں پیپلزپارٹی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ میثاق ایک فراموش شدہ دستاویز بن کررہ گئی ویسے بھی ایسی دستاویزات کی یاد عموماً ان دِنوں میں آتی ہے جب فریقین حکومت سے باہر ہوں، جب ایک فریق حکومت میں آ جائے تو اس کی ترجیحات بھی بدل جاتی ہیں،ایسا ہی اس میثاق کے ساتھ ہوا، اب جبکہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی دونوں وفاقی حکومت سے باہر ہیں اور سندھ میں پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت کے باوجود اس کی قیادت کے خلاف مقدمات دھڑا دھڑ قائم ہو رہے ہیں۔ سندھ اسمبلی کے سپیکر سراج درانی نیب کی حراست میں ہیں اور کئی دوسرے رہنماؤں کی گرفتاری کا خدشہ بھی موجود ہے،اسی وجہ سے بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ نیب احتساب نہیں انتقام لے رہا ہے۔ ان حالات میں دونوں جماعتوں کی قربت اور میثاق جمہوریت کی یاد عین فطری ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے اس میثاق پر نظرثانی کی بات بھی کی ہے وہ کس قسم کی تبدیلی چاہتے ہیں اس کی تفصیلات تو سامنے نہیں،لیکن ہمارے خیال میں یہ میثاق ایسا ہونا چاہئے جو وقتی سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو اور پائیدار جمہوری اصولوں کی پاسداری ہر حالت میں کی جائے، اس میں حکومت اور اپوزیشن کی سیاست سے بلند ہو کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو بہت سے قوانین بدلے جا سکتے تھے، جو محض وقتی سیاسی ضرورتوں کی وجہ سے اب تک قائم ہیں۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ جب پیپلزپارٹی اقتدار میں تھی تو اس کی ترجیحات بدل گئیں اور جب اس کے بعد مسلم لیگ(ن) نے اقتدار سنبھالا تو اس کے پیش نظر بھی نئے حالات آ گئے۔ ایک عشرے سے بھی زیادہ وقت گزر چکا ہے، جب میثاق جمہوریت ہوا تھا اب اگر اس پر نظرثانی کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطے کرنے کا عندیہ بھی دیا جا رہا ہے تو امید کرنی چاہئے کہ نظرثانی شدہ میثاق زیادہ بہتر دستاویز کی شکل میں سامنے آئے گا۔
سیاست میں ترجیحات ہمیشہ بدلتی رہتی ہیں اِس وقت بہت سے وزراء وزیراعظم عمران خان کی کابینہ میں ایسے شامل ہیں، جو جنرل پرویز مشرف کے وزیر مشیر رہے یا پیپلزپارٹی کے ترجمان بنے رہے۔ اتفاق سے وفاق اور پنجاب کے وزرائے اطلاعات دونوں ایک زمانے میں پیپلزپارٹی کے جیالے رہ چکے ہیں اِس لئے بلاول کی جانب سے نواز شریف کی عیادت کو یو ٹرن قرار دینے والے اگر اپنی اداؤں پر غور کر لیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔بہرحال یہ ملاقات دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک نئے سفر کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔ایک زمانے میں آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ وہ نواز شریف کے ساتھ تعلقات کو اگلی نسل تک منتقل کرنا چاہتے تھے۔اگرچہ بعد میں اس راستے میں رکاوٹیں آ گئیں،لیکن کیا معلوم اب یہ تعلقات اگلی نسل کی جانب منتقل ہو جائیں۔ بشرطیکہ کوئی نئی سیاسی مصلحت راستے میں دیوار بن کرکھڑی نہ ہو جائے۔