اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 143
مجھے اپنے پیچھے سرسراہٹ کی سی آواز سنائی دی۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو ایک چھوٹا سا سیاہ فام بونا جس کی سر پر لمبی بودی تھی جو بالکل ننگ دھڑنگ کھڑا میری طرف اپنی سرخ آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے اپنے پیچھے آنے کو کہا۔ سادھو نے جو کچھ کہا تھا، حرف بہ حرف اسی طرح ہورہا تھا۔ سیاہ فام بونا مجھے شمشان بھومی کی دیوار کے پاس ایک سمادھی میں لے گیا۔ سمادھی پر پتھر کی چھتری بنی ہوئی تھی۔ سمادھی کے اندر ایک تنگ و تاریک زینہ نیچے جاتا تھا۔ سیاہ فام بونا زینہ اتر گیا۔ میں اگرچہ بے حد ڈر رہا تھا مگر اپنی کھوئی ہوئی طاقت بحال کرنے کے لئے میں ہر خطرہ مول لے سکتا تھا اور پھر مجھے سادھو کی باتوں پر اس تجربے کے بعد بالکل یقین آگیا تھا کہ میری جان اس وقت تک محفوظ ہوگی جب تک کہ میں خوف نہیں کھا جاتا۔
میں اندھیرے میں زینہ اترگیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آگے ایک چھوٹا سا پانی کا حوض بنا ہوا ہے۔ سامنے کنارے پر سانپ کا بت ہے جس کے پھن میں سے پانی کی دھار نکل کر حوض میں گررہی ہے۔ سیاہ فام بونا حوض کے کنارے کھڑا تھا۔ اس نے میری طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا اور خر خراتی آواز میں کہا
’’اس حوض میں تین بار غوطہ لگاؤ۔ تیسری بار جب تم ڈبکی لگا کر نکلو گے تو تمہارے جسم پر کیا گیا رگھودیو کا جادو ٹوٹ چکا ہوگا۔ پھر یہاں سے فوراً واپس نکل جانا۔ کسی دوسری جانب دھیان مت دینا۔‘‘
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 142 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں حوض میں اترگیا۔ حوض کا پانی نیم گرم تھا۔ میں نے پہلی ڈبکی لگائی، سیاہ بونا کنارے پر تھا۔ میں نے دوسری ڈبکی لگائی، سیاہ بونا وہاں نہیں تھا۔ تیسریبار حوض کے پانی میں ڈبکی لگا کر جب میں نے سر پانی سے باہر نکالا تو حوض کے کنارے پر ایک حسین و جمیل ہندو عورت ماتھے پر سیندور لگائے بالوں میں پھولوں کے گجرے سجائے کھڑی میری طرف دیکھ رہی تھی۔ فضا مشک و عنبر کی خوشبوؤں سے مہک رہی تھی۔ میں حوض سے نکل کر بے اختیار اس کی طرف بڑھا۔ اس نے مسکرا کر اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا اور میں کسی غیبی طاقت کے اثر میں جکڑا اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ میں بھول گیا کہ سیاہ بونے نے مجھے وہاں سے فوراً واپس نکل جانے اور کسی دوسری جانب دھیان نہ دینے کی ہدایت کی تھی۔ میں اپنے ہوش و حواس میں نہ تھا۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے مجھ پر سحر سا کردیا گیا ہو۔ اتنا ضرور یاد تھا کہ مجھے اپنی غیر فانی طاقت کی آزمائش کرنی ہے اور یہ معلوم کرنا ہے کہ میری کھوئی ہوئی صلاحیتیں اور قوت بحال ہوئی ہے کہ نہیں۔ لڑکی مجھے اپنے ساتھ حوض کی ایک طرف سرنگ میں لئے جارہی تھی۔ ایک نکہت و نور کا ہالہ اس کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا اور اس ہالے کی کافوری روشنی میں سرنگ چند قدم آگے روشن ہوتی چلی جارہی تھی۔ ہم ایک چھوٹے سے اونچی پتھریلی چھت والے ہال میں داخل ہوگئے۔ جہاں ایک سیاہ ناگ کا بہت بڑا بت چبوترے پر پھن اٹھائے کنڈلی مارے بیٹھا تھا۔ ایکا ایکی میرے جسم میں ایک سنسناہٹ دوڑ گئی۔ سانپ کا یہ بت اسی سانپ کا ہم شکل تھا جس کی مورتی نے مجھے اس ساری مصیبت میں پھنسایا تھا۔ لڑکی نے ناگ کے بت کے آگے ہاتھ جوڑ کر سر جھکادیا۔ وہ قدیم ویدوں کے کچھ متر پڑھنے لگی یہی موقع تھا۔ میں تیزی سے پلٹا اور پوری طاقت سے بھاگ اٹھا۔ سرنگ میں سے نکل کر حوض کے پاس پہنچا تو سامنے پتھروں کی دیوار آگئی۔ راستہ بند تھا۔
میرے سامنے پتھر کی دیوار تھی او رمجھے اندھیرے میں بھی چیزیں دھندلی دھندلی دکھائی دے رہی تھیں۔ یہ ایک خوش آئند تبدیلی تھی۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ میں مکروہ صورت رگھودیو کے کالے جادو سے آزاد ہوچکا ہوں اور میری کھوئی ہوئی طاقت بحال ہوگئی ہے۔ میں نے پیچھے دیکھا، سرنگ دور دور تک خالی تھی۔ حسین نرتکی کے عطریات اور پھولوں کی خوشبو فضا میں بسی ہوئی تھی۔ مجھے اس ساحرہ کے سحر میں آکر اس کے پیچھے نہیں جانا چاہیے تھا۔ سیاہ بونے نے مجھے تاکید کی تھی کہ حوض میں تیسری ڈبکی کے بعد میں وہاں سے چلا جاؤں مگر میں نے اس پر عمل نہیں کیا تھا اور اب سرنگ میں قید ہوگیا تھا لیکن ایک بات کی مجھے تسلی تھی کہ میری طاقتیں بحال ہوچکی ہیں اور اب مجھے دنیا کی کوئی طاقت ہلاک نہیں کرسکتی۔ میں نے اپنی طاقت کو آزمانا چاہا اور حوض کے کنارے پڑے ایک بھاری پتھر کو دونوں ہاتھوں سے دھکیلا۔ وہ پتھر ایک چھوٹی سی چٹان جتنا تھا مگر میرے ذرا سے زور لگانے سے اپنی جگہ سے ہل گیا۔ میرا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔ میری کھوئی ہوئی طاقت مجھے واپس مل گئی تھی۔ اب میں پھر وہی عاطون تھا۔ میں نے ایک نئے عزم کے ساتھ ماحول کا جائزہ لیا۔ حوض کا پانی اندھیرے میں مجھے کسی بہت بڑے عفریت کی دھندلی آنکھ کی طرح نظر آرہا تھا۔ اس کے کنارے، سانپ کے جس بت کے منہ سے پانی کی دھار بہہ رہی ھتی، وہ اسی طرح ساکت تھی۔
اچانک مجھے گھنگروؤں کی آواز سنائی دی۔ میں چونک پڑا۔ یہ وہی منحوس آواز تھی جس نے ویران مندر میں مجھے مکروہ صورت رگھودیو کے طلسم میں جکڑ دیا تھا۔ گھنگروؤں کی آواز سرنگ کے اس ہال سے آرہی تھی جہاں میں حسین ترنکی کو چھوڑ کر بھاگا تھا۔ اس نرتکی کی پائل میں اس قدر کشش تھی کہ ایک بار تو میرے پاؤں بے اختیار گھنگروؤں کی آواز کی طرف بڑھے مگر میں نے فوراً اپنے آپ کو سنبھال لیا اور اس سرنگ سے نکلنے کی ترکیبیں سوچنے لگا۔ گھنگروؤں کی آواز کے ساتھ اب مردنگ کی دھیمی دھیمی تھاپ بھی سنائی دینے لگی تھی یوں لگ رہا تھا جیسے نرتکی سانپ کے بت کے آگے رقص کررہی ہو۔ میں پتھر کی دیوار کو ہاتھوں سے ٹٹولنے لگا۔ ایک جگہ چھوٹی سی درز تھی اور ایک پتھر تھوڑا سا باہر کو نکلا ہوا تھا۔ میں نے زور لگایا تو پتھر اپنی جگہ سے کھسک گیا۔
گھنگروؤں کی آواز میری طرف بڑھ رہی تھی۔ اب اس آواز میں عورتوں کی چیخیں اور بین کرنے کی آوازیں بھی شامل ہوگئی تھیں۔ میں نے پتھر کو دیوار سے کھینچ کر نیچے پھینک دیا۔ پتھر کی جگہ دیوار میں ایک سوراخ بن گیا جو اتنا بڑا تھا کہ میں اس میں سے رینگ کر باآسانی باہر نکل سکتا تھا۔میں سوراخ کے دوسری جانب نکل آیا۔ حوض والی سرنگ میں سے عورتوں کی چیخیں اور واویلا کرنے کی آوازیں بلند تر ہوتی جارہی تھیں۔
میں حیران تھا کہ دیوار کے اس پار پہلے شمشان بھومی تھی مگر اب وہاں اندھیرے میں مجھے غلام گردش نظر آرہی تھی۔ ایسی تنگ و تاریک غلام گردشیں، میں ہنے ہندوستان کے قدیم مندروں میں اکثر دیکھی تھیں، جہاں بھیانک جرائم پرورش پاتے تھے۔ میں اس خیال سے ایک طرف چلنے لگا کہ شاید آگے جاکر، وہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ مل جائے۔
اب عورتوں کے بین کرنے کی آوازیں بہت پیچھے رہ گئی تھیں۔ تاریک غلام گردش کے اختتام پر ایک باؤلی بنی ہوئی تھی جس میں نیچے پانی تھا۔ باؤلی کی دیوار کے ساتھا وپر پتھروں میں ایک زینہ موجود تھا۔ میں اس زینے سے چڑھ کرباؤلی سے باہر آگیا۔ مجھے امید تھی کہ یہاں ضرور کوئی راہ فرار ہوگی لیکن یہاں بھی ایک غار سے واسطہ پڑا۔ اس غار کی دیواروں پر دیوی دیوتاؤں اور نرتکیوں کے بت کندہ تھے۔ میں اندھیرے میں ٹٹولتا آگے بڑھنے لگا۔ میں کسی نہ کسی طرح اس طلسم کدے سے نکل جانا چاہتا تھا۔ مگر مجھے کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا۔ ایک جگہ دیوار میں کسی راج نرتکی کا ایک بہت بڑا بت کندہ تھا۔ وہ رقص کے انداز میں ہاتھ اٹھائے کھڑی تھی۔ اس کے ایک ہاتھ میں ترشول تھا۔ ترشول کے نیچے تقریباً دو بالشت کے فاصلے پر مجھے ایک گول سراخ نظر آیا۔ میں نے جھک کر اس سوراخ سے آنکھ لگادی۔ دوسری طرف ہلکی ہلکی روشنی ہورہی تھی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک کشادہ لان کے وسط میں ایک مردہ کفن میں لپٹا پڑا ہے۔ وہی نرتکی جس کے پیچھے پیچھے میں یہاں تک چلا آیا تھا، اس ارتھی کے سرہانے آنکھیں بند کئے اور ہاتھ جوڑے بیٹھی ہے۔ پھر اس نے اس طرح چونک کر آنکھیں کھول دیں جیسے اسے میری موجودگی کا احساس ہوگیا ہو۔ اس نے چہرہ گھما کر دیوار میں اس سوراخ کی جانب دیکھا جس سے میں آنکھ لگائے کھڑا تھا۔
اس کے حلق سے ایک دلدوز چیخ نکلی اور اس نے تیزی سے اپنی کمر کے گند بندھا ہوا خنجر نکال کر میری جانب پھینکا۔ میں ایک دم پیچھے ہٹ گیا اور تیز قدموں سے غار میں چلنے لگا۔ سارا غار، اس نرتکی کی چیخوں سے گونج رہا تھا۔ دور مجھے روشنی کا ایک دائرہ دکھائی دیا۔ میں نے اس کی جانب دوڑنا شروع کردیا۔ وہ روشن دائرہ، اس غار کا دہانہ تھا۔ جہاں سے دن کی روشنی اندر آرہی تھی۔ میں نے دہانے سے باہر چھلانگ لگادی اور خاردار جھاڑیوں میں جاگرا۔ اٹھ کر پیچھے دیکھا تو وہاں نہ کوئی غار تھا، نہ اس کا دہانہ تھا۔
جنگل میں چاروں طرف دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ میں حسب سابق کسی دوسرے ملک میں کسی اجنبی جگہ پہنچ چکا ہوں لیکن اردگرد کی پہاڑیاں مجھے کچھمانوس لگ رہی تھیں۔میں ایک پہاڑی کے پہلو سے ہوکر دوسری جانب پہنچا تو وہاں دریابہہ رہا تھا اور دریا کے کنارے برہان پور کی بستی آباد تھی۔ میں نے اس کے مندروں کے کلس اورمسجدوں کے مینار پہچان لئے تھے۔ میں ابھی تک اپنے عہد میں تھا اور برہان پور ہی میں موجود تھا۔
بستی میں آکر میں اس کارواں سرائے میں ٹھہر گیا جہاں میں چھ سات روز سے قیام پذیر تھا۔ میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ اس سرائے پر ایک بوڑھا آدمی بیٹھا ہے ۔ میں نے آگے بڑھ کر اس سے پوچھا ’’یہاں ایک نوجوان آدمی بیٹھا کرتا تھا، وہ کہاں ہے؟‘‘
بوڑھے نے میری طرف دیکھا اور اس لڑکے کا نام پوچھا۔ میں نے نام بتایا تو وہ بولا ’’یہ نام تو میرا ہی ہے مگر تم کون ہو اور اس لڑکے سے کب ملے تھے۔؟‘‘(جاری ہے)