ملاقات بے نتیجہ
وزیراعظم عمران خان نے مسلم لیگ(ن) اور ایم کیو ایم کے درمیان مذاکرات کے بارے میں درست بات کی ہے کہ سیاسی رہنما ایک دوسرے سے ملاقات کرتے رہتے ہیں،اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عوام اس ملاقات کے حوالے سے کیا سوچتے ہیں؟ مسلم لیگ(ن) کی قیادت اور مولانا فضل الرحمن عمران حکومت کے جانے کی خبریں اُڑاتے رہتے ہیں اور یہی وہ سیاست ہے، جو اِس وقت ان دونوں کو مفید نظر آتی ہے، لیکن مسلم لیگ(ن) کی قیادت لندن سے نہ صرف واپسی پر آمادہ نہیں، بلکہ وہ مریم نوازکو بھی لندن بھجوانے پر بضد ہے اور اس کے لئے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے جا رہے ہیں۔ یہ عجیب نوعیت کی جدوجہد ہے جو ملک سے باہر رہ کر انتہائی پُرتعیش اور آسودہ ماحول میں کی جا رہی ہے۔ خادم اعلیٰ اِس وقت پارلیمانی طرزِ سیاست کے حوالے سے دوسرے اہم ترین آدمی ہیں اور وہ ملک سے کئی ماہ سے باہر ہیں۔بھائی کے علاج کے لئے اُن کے بیٹے اور سمدھی موجود ہیں۔ سیاسی قائد تو اپنے ملک کی جیلوں کو بھی دوسرے ممالک کے گلشن سے بہتر سمجھتے ہیں …… تیسری دُنیا کے کتنے رہنما ساری ساری زندگی اپنے ملک کے عوام کی آزادی، جمہوریت اور خوشحالی کے لئے قید و بند جھیلتے رہے، لیکن اپنے ملک کی زمین سے دور نہ ہوئے۔ مسلم لیگ(ن) کی قیادت پر جب بھی آزمائش کا وقت آیا،اس نے ملک سے باہر جانے ہی میں عافیت سمجھی۔
شہباز شریف قائد حزبِ اختلاف ہیں اور کئی ماہ سے ملک سے باہر ہیں۔گذشتہ جمعرات کے روز جب ایم کیو ایم اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان مذاکرات ہوئے تو مسلم لیگ(ن) کے وفد کے سربراہ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آئین ہی بالادست ہے، تو کیا ایک پارلیمانی نظام حکومت کے آئینی ڈھانچے میں کوئی قائد حزبِ اختلاف اتنے ماہ بغیر کسی وجہ اور عذر کے پارلیمینٹ سے باہر رہنے کا جواز فراہم کر سکتا ہے؟شہباز شریف تو طبی بنیادوں پر ملک سے باہر نہیں ہیں، اُنہیں اتنے ماہ ملک سے باہررہنے کی کیا ضرورت ہے؟ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے ملک میں سیاسی جدوجہد کی بجائے باہر جانے میں ہی عافیت سمجھی اور اب ایک بار پھر ملک سے باہر ہے۔وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے درست کہا ہے کہ آصف علی زرداری تو نواز شریف سے زیادہ بیمار ہیں، لیکن وہ ملک میں ہیں اور بیماری کے ساتھ ساتھ عدالتوں میں حاضری بھی دیتے ہیں۔عمران خان کی حکومت اس حوالے سے مطمئن ہے کہ ابھی تک ان کے کسی وزیر کا کرپشن کے حوالے سے کوئی سکینڈل سامنے نہیں آیا،معاشی مشکلات ہر اُس ملک کے سامنے ہیں،جو اس وقت عالمی اُتار چڑھاؤ کا شکار ہے……ایشیا میں چین کے بعد سب سے زیادہ معاشی اہداف پورے کرنے والا ملک ملائشیا بھی معاشی مشکلات میں نظر آ رہا ہے۔مہاتیر محمد کا استعفیٰ اس کا ایک مظہر ہے۔
چین کی طرف سے آنے والے کرونا وائرس نے پوری دُنیا کی معیشت کو ڈانوا ڈول کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ امریکی سٹاک مارکیٹ بھی مندے کا شکار ہو رہی ہے۔ان حالات میں عمران خان کی حکومت معیشت کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی ہے، ماضی میں کئی کئی ماہ کابینہ کا اجلاس نہیں ہوتا تھا۔فقط وزیراعظم اور وزیراعلیٰ ہی سب فیصلے کرتے تھے، اب تقریباً ہر ہفتے کابینہ کا اجلاس منعقد ہو رہا ہے اور فیصلے کئے جا رہے ہیں۔ملک میں جمہورت کے عمل کو مضبوط بنانے میں یہ رویہ بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے، جہاں کابینہ کے ہر رکن کو اپنی بات کرنے کا موقع ملتا ہے اور مسائل کے حل کے لئے کوئی نہ کوئی قابل ِ عمل تجویز بھی سامنے آتی ہے۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں میں پاکستان کی معیشت اور غریب عوام کی زندگی کوئی ایسی خوشگوار نہیں تھی کہ ان کے ادوار کی مثال دی جائے، مگر انہوں نے اپنی اپنی مدت پوری کی۔ ایم کیو ایم کے رہنما خالد مقبول نے مسلم لیگ (ن) کے وفد کے ساتھ ملاقات کے بعد واضح طور پر کہا ہے کہ وہ حکومت گرانے کے حوالے سے کسی منصوبے کا حصہ نہیں بنیں گے اور انہیں پانچ سال حکومت کرنے کا جمہوری، اخلاقی اور آئینی حق ہے۔