یوم ”آزادی خواتین“

یوم ”آزادی خواتین“
یوم ”آزادی خواتین“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 تاریخ اِنسانیت میں عورت پر ناقابل ِ بیان ظلم و جبر ہوا ہے اور اُس کی حیثیت انسانی مرتبے سے پَست قرار دی جاتی رہی ہے۔یونانی، رومن اور یہودی تہذیبوں میں اسے مرد کی ملکیت کادرجہ حاصل رہاہے۔عیسائیت میں عورت پر لازم قرار دے دیاگیاکہ وہ مرد کی تابع فرمان رہے۔ کبھی عورت کو زندہ درگور کر دیا جاتارہا،تو کبھی ستّی کی بھینٹ چڑھا دیا جاتارہا۔ اس طرح عورت کی بقاء مرد کی بقاء  کے ساتھ لازم و ملزوم رہی ہے۔
اسلام دنیا میں پہلا دین اور اس کی ثقافت پہلا معاشرتی اصول ہے جس نے عورت کے حقوق نہ صرف گِن گِن کر مردوں کے برابر ادا کرنے کا حکم صادر فرمایا،لکہ عورت کو کئی مقامات پر مرد پر فوقیّت بخشی۔بطورِ ماں اس کے پاؤں تلے جنت رکھ دی، اوراُسے ایک بار دیکھنے کو حج کی فضیلت کے برابر قرار دے دیا۔

بہن پر خرچ کرنا بہترین صدقہ قرار دیا۔ حضوراکرمؐ نے فرمایا ”جس شخص کے ہاں بیٹیاں ہوں اور وہ اُن سے حُسنِ سلوک سے پیش آئے، وہ اُس کے لئے جہنّم سے چھٹکارے کا باعث بنیں گی“پھر فرمایا،”جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی، حتیٰ کہ وہ جوانی کو پہنچ گئیں، وہ شخص اورمیں، روز ِ حساب ایک ساتھ ایسے ہوں گے جیسے یہ دو اُنگلیاں ہیں“۔پھر فرمایا،”جس کی تین بہنیں یا بیٹیاں ہوں اور اُس نے اُن کی اچھی تعلیم و تربیت کی اور اُن کے ساتھ مُشفقانہ برتاؤکیا،اللہ اُس پر جنت لازِم کر دے گا“۔


حیرت ہے مرد نے آج تک عورت کو دی گئی اتنی امتیازی فضیلت پر کبھی احتجاج نہیں کیا۔ اسلام نے عورت کی تعلیم، ملازمت کے مواقع، وراثت میں حق، عوامی ظہور، گھریلو فرائض،شادی کی عمر، شادی کے لئے لازم رضا مندی کا حصول، حق مہر، بچوں کی پیدائش پر حق، طلاق، جِنسی الزام کی صورت میں حصولِ انصاف اورمرد سے الگ ملکیّتی حقوق وغیرہ پر عورت کے حق کو جس طرح تسلیم کیا، روزِ افرینش سے کوئی مذہب یا ثقافت اِس کا تصور بھی کرنے سے قاصر ہے۔


ماڈرن یورپ میں توبیسویں صدی میں آکے عورت کوبرابر انسان تسلیم کرنے کی طرف قدم اُٹھایاگیا ہے اور اِس کی ناقابل ِ فراموش جبر اور قربانیوں پرمبنی جدّوجہد کے نتیجہ میں اسے حق ِ رائے دہی بطور انعام تفویض کیاگیاہے۔آج مغرب کی یونیورسٹیوں میں، اُن کے وظیفوں پرپَلا اور پڑھا ہوا ایک خاص طبقہ ئ،پاکستان میں کبھی سڑکوں پرعورتوں کی شلواریں، قمیضیں اور اندرونی لباس کو لہرا لہرا کر آزادیئ نسواں کے ترانے اَلاپتا ہے تو کبھی اشرافیہ کے تعلیمی اداروں کی دیواروں پر ماہواری کے خون آلود پَیڈلٹکاتاہے۔یہ کیسی آزادی ہے؟کون سی آزادی ہے؟ وہ تمام خواتین جو ”کپڑے اُتارو، مرد کو مارو“،”میرا جسم میری مرضی“کی تحریک کی عَلم بردارہیں،تسلی کر لیں، شاید ہی اُن میں سے کسی کے گھر میں سُکھ اورسُکون کا منظر دیکھنے کوملتا ہو۔


خبر زوروں پر ہے کہ اس بارپاکستان میں عورت مارچ کے دوران، فرانس کا جھنڈا لہرایا گیا، جس کا واضح مطلب نبی ئ رحمتؐ کے خلاف فرانس میں مختلف طریقوں سے جاری تضحیک کی توثیق ہے، جس تضحیک کے خلاف پوری اُمّت سَراپا احتجاج ہے۔جسے آپؐ کے کسی اُمتی کے لئے ہضم کرنا موت سے زیادہ اَذیت ناک ہے۔اگر یہ فرانس کا جھنڈا نہیں تھا اور کسی عورت تنظیم کا جھنڈا تھا تومماثلت کے باعث دل آزاری کا باعث ٹھہرا۔ ہم جنس پرستی (LGBT) کے نَعروں کے بینرز کس کا ایجنڈا ہیں؟صاف ظاہر ہے، نعرہ کسی اور کاہے، لگانے والا کوئی اور ہے۔مفادکسی اور کاہے، شکار کوئی اور ہے۔کیا مغرب کی عیّاش آزادی کے عوض، آج پاکستانی عورت،اُن تمام حقوق سے دستبردار ہونے کا سوچ رہی ہے جو اسلام نے اُسے عطا کیئے ہیں؟ اگر آوازاُٹھانی ہے تواُن عورتوں کے خلاف اُٹھائیں جو گھروں کے اندر ایک دوسرے کو برداشت کرنے سے قاصِرہیں، دفتروں میں نہ ہم رکاب خواتین سے بنتی ہے،نہ خاتون افسرمجازسے اور نہ ہی ماتحت خاتون سے بنتی ہے۔


راقم کے نزدیک اگر خواتین اُن حقوق کی بجاآوری کے لئے آواز بلندکریں،جواسلام نے عطا کیے ہیں یا ملک کے آئین اور قوانین میں تسلیم شُدہ ہیں،تواس آوازمیں اور اِس احتجاج میں نہ صرف پورے پاکستان کی خواتین صف آراء ہوں گی،بلکہ مردوں کی غالب اکثریت اُن کے شانہ بشانہ، اُن کی آواز کو تقویت بخش رہی ہو گی۔اس طرح خاتون میں وہی جُرأت عَود کر آئے گی،جو حضرت عمرؓ بن خطاب کے سامنے اپنا حق ثابت کرنے کے لئے ایک خاتون نے ظاہر کی۔ اگر مارچ کرنا ہے توخاتون کے ساتھ ہونے والے ظُلم، وَنّی،سواہرا، اَڈوبَڈو، قرآن سے شادی اور دیگر ایسی رسومات کے خلاف کریں جن میں عورت کی عزّتِ نفس اور اس کے حق ِ ملکیّت پر ضَرب کاری پڑتی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -