سینیٹ الیکشن کے بعد؟

سینیٹ الیکشن کے بعد؟
سینیٹ الیکشن کے بعد؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


گزشتہ دنوں پاکستان کی ایک معزز شخصیت نے فرمایا تھا کہ پاکستانی سیاست ایک گٹر ہے۔ میرا خیال ہے ان کے اس تبصرے پر صدقِ دل و دماغ سے غور کرنا چاہیے۔ ایک اعتبار سے جمہوری سیاست واقعی ایک گٹر ہوتی ہے۔ ہمارے جیسے بعض معاشروں میں یہ گٹر ابلتا ہے تو اس کا سارا گند چاروں طرف پھیل جاتا ہے۔ پچھلے سات عشروں سے یہ گٹر اُبل رہا ہے اور اس کی سڑاند اور بدبو ہمارے اردگرد پھیل رہی ہے۔ لیکن بعض ایسے معاشرے بھی ہیں جن کے گٹروں کے ڈھکنے بہت بھاری ہیں اور لیک نہیں ہوتے۔ 


کس کس کا نام لیا جائے……ہمارے ہاں جمہوریت کے حسن کے بہت چرچے ہوتے رہے ہیں لیکن سچ جانیے تو گٹر والی یہ تشبیہ جمہوری طرزِ حکومت پر عین مین صادق آتی ہے۔ بڑے سے بڑا اور صاف شفاف جمہوریت کا دعویدار ملک ہو یا ہم جیسا ملک کہ جس کو ’اوپر‘ سے حسن کا خطاب دیا جاتا ہے لیکن اس کے اندر کا حسن نظر سوز ہی نہیں، دل و نگاہ کا زنّاری بھی ہے۔
گزشتہ سے پیوستہ شب، ہمارے ایک سابق وزیراعظم نے ہمارے جمہوری ماحول میں فوج کی مداخلت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اب تک تو (سینیٹ کے الیکشن کی مہم کے حوالے سے) پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہے۔ اسی شب یعنی 11مارچ کو رات دس بجے ایک ٹاک شو میں ان کی پارٹی کے ایک معزز رکن (چودھری منظور) سے جب پوچھا گیا کہ ان کا تبصرہ اس سلسلے میں کیا ہے تو انہوں نے برملا اپنے امیدوار کے بیان کی یہ وضاحت فرمائی کہ گیلانی صاحب کے تبصرے میں ”اب تک“ کے الفاظ قابلِ غور ہیں۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ فوج 11اور 12مارچ کی درمیانی شب تک تو غیر جانبدار رہی لیکن 12مارچ کی صبح غیر جانبداری کا لبادہ اتار پھینکا اور صادق سنجرانی کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال کر اپنے نیوٹرل ہونے کے امیج کو پاش پاش کر دیا…… اللہ اللہ خیر سلّا!


اب جبکہ یوسف رضا گیلانی ہار چکے ہیں، تو ان سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا فوج راتوں رات جانبدار ہو گئی تھی؟…… اور اگر ایسا تھا تو اس کا جواب اب آپ کے پاس کیا ہے؟ میرا خیال ہے کہ گیلانی صاحب نے فوج کے بارے میں اپنے نقطہ ء نظر کی وضاحت کرتے ہوئے ’اب تک‘ کے جو الفاظ ایک صحافی کے سوال کے جواب میں ارشاد فرمائے تھے وہ انہوں نے اپنے چیئرمین سے پوچھے بغیر فرما دیئے تھے۔ اب زرداری (جو ہر ایک پر بھاری ہیں) اپنے امیدوار سے باز پرس کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اس سینیٹ الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں انہوں نے جو ریمارکس پاس کئے تھے، ان کی کیا ”تُک“ بنتی تھی؟
سینیٹ کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پی ٹی آئی حکومت کو سنجیدہ کاموں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ لیکن مجھے خبر نہیں کہ یہ ’احساس پروگرام‘ کے پردے میں بہت سے ایسے کام منظر عام پر کیوں آ رہے ہیں جن کو بڑی آسانی سے ”غیر سنجیدہ“ کہا جا سکتا ہے۔ اس فضول خرچی کے پیچھے کون ہے جو وزیراعظم کو مشورے دے رہا ہے کہ وہ لنگر خانے  اور پناہ گاہیں وغیرہ کھولیں اور ملک کی غریب آبادی کو برسرِ روزگار بنانے کی بجائے اس کو گداگری کی راہ پر ڈال دے۔ وزیراعظم نے اس نئے احساس پروگرام کا نام ”کوئی بھوکا نہ سوئے“ رکھ دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی گزشتہ 73سالہ تاریخ میں قوم کا کوئی بھی فرد بھوکا نہیں سویا۔ اس کی ایک بڑی وجہ پاکستان کے وہ مخیر حضرات اور رفاہِ عامہ کے وہ ادارے ہیں جن کی خدا خوفی اور فیاضی نے ملک کے بھوکے ننگوں کا تن اور من ڈھانپا ہوا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ ہم پاکستانیوں پر خدا کا یہ خاص کرم ہے کہ آج تک قوم کا کوئی بھی مرد یا عورت یا بچہ یا بوڑھا بھوک کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہارتا ہوا نہیں دیکھا گیا۔


لیکن عمران خان نے جس طرح خود کھانا تقسیم کرکے اس ’نئے پراجیکٹ‘ کا افتتاح کیا ہے وہ ایک قسم کا بازاری سٹنٹ معلوم ہوتا ہے۔ پاکستان کی غریب پبلک میں سب کو روکھی سوکھی کھانے کو مل جاتی ہے۔ لیکن وزیراعظم نے اپنے ہاتھوں سے جس کھانے کو تقسیم کرنے کی طرح ڈالی ہے، وہ مجھے اس لئے ’بازاری‘ (انگریزی زبان کا بازاری) لگی کہ ان کھانوں کو جو لوگ وصول کررہے تھے ان کے چہرے مہرے، لباس اور تن و توش بھوکے ننگوں جیسے نہیں تھے…… اگر بھوکے ننگے آپ کو پاکستان میں کہیں نظر بھی آئیں گے تو وہ چولستان اور تھرپارکر (سندھ) کے وہ خاندان ہوں گے جن کی جھونپڑیاں دیکھ دیکھ کر ہول آنے لگتا ہے۔ ان کٹیاؤں کے مکین مرد و زن اور بچے بوڑھے سراپا مفلسی اور ناداری کا پیکر ہیں۔ وہاں سب سے بڑا مسئلہ پانی کی عدم فراہمی ہے۔ میرا خیال ہے وزیراعظم کو پاکستان کے افلاس زدہ حلقوں کو کھانا تقسیم کرنے کی بجائے ان لوگوں میں آبِ نوشیدنی کی تقسیم کا بندوبست کرنا چاہیے۔ اگر ایسا ہو جائے تو ان علاقوں میں غربت کے باقی مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے…… کھاتے پیتے، تندرست و توانا بلکہ ہٹّے کٹے گداگروں کو کھانا تقسیم کرنا ملک میں بھکاریوں اور مفت خوروں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے مترادف ہوگا۔
اپوزیشن کے امیدوار (یوسف رضا گیلانی) کی آج کی شکست، حکومت کو یہ موقع بھی دے رہی ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں اپنی اس اکثریت کے بل پر جو اسے اب حاصل ہوگی ایسی قانون سازی کرے جو پاکستان کے اساسی سماجی مسائل کے حل کی طرف پیش قدمی کا اشارہ ہو۔


میری نظر میں دنیا کے کسی بھی معاشرے میں کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں۔ آج اگر خوشحال ترین ممالک کی مالیاتی پالیسیوں پر نظر ڈالیں تو وہاں بھی آپ کو کرپشن کی ایسی ایسی مثالیں ملیں گی جو پاکستانی کرپشن کلچر سے مختلف ضرور ہوں گی لیکن اس کلچر سے زیادہ گھمبیر اور گھناؤنی ہوں گی۔ وہاں کی حکومتیں اس کرپشن کو ایک نیا اور مختلف لباس پہنا چکی ہیں۔ ان معاشروں نے اس ٹیکٹیکل سطح کی ملکی کرپشن کا علاج بین الاقوامی سطح کی سٹرٹیجک کرپشن کو اپنے ہاں رائج کرکے کر دیا ہے…… اگر آپ ان معاشروں کی مالیاتی اقدار کا مطالعہ کریں اور ان کی درآمدات و برآمدات کے حسن و قبح کا بہ نگاہِ عمیق مشاہدہ کریں تو وہ معاشرے ہمارے پاکستانی معاشرے سے زیادہ کرپٹ نکلیں گے…… آزمائش شرط ہے!…… دور نہ جایئے IMF اور FATF ہی کو دیکھ لیں۔


حکومت کو چاہیے کہ اب بھی ہوش کے ناخن لے۔ اپوزیشن کے پاس بھی لانگ مارچ کی صرف ایک آپشن باقی رہ گئی ہے۔ یہ لانگ مارچ بظاہر ایک ڈراوا ہے۔ میانمر میں تو اب کی بار مارشل لا لگا تو عوام نے واقعی احتجاج کا حق ادا کر دیا۔ درجنوں لوگ مارے گئے اور درجنوں زخمی ہو گئے لیکن حکومت پھر بھی نہ گرائی جا سکی۔ کسی بھی مارشل لائی حکومت کو صرف کاؤنٹر مارشل لا ہی ختم کر سکتا ہے۔1789ء میں فرانس میں جو انقلاب آیا وہ جمہوریت کا داعی اور بادشاہت کے خلاف تھا۔ انقلاب نے بادشاہت کو تو کچل دیا لیکن اس کے بعد جو عوامی حکومت برسراقتدار آئی۔ وہ مارشل لا سے بھی بدتر تھی۔ چنانچہ بہت جلد نپولین بونا پارٹ منظر عام پر آیا اور باقاعدہ شہنشاہِ فرانس بن بیٹھا…… یہ داستان دراز ہے…… جمہوری نظام خواہ پارلیمانی ہو کہ صدارتی،

شہنشاہی /  بادشاہی نظام کا کاؤنٹر ہوتا ہے…… اور مارشل لا تو ان دونوں نظاموں (شاہی اور جمہوری) سے بدتر ہوتا ہے۔ پاکستان نے کئی مارشل لائی اور کئی جمہوری ادوار دیکھے۔ یہ ایک دوسرے کی ضد تھے اور ایک دوسرے کے جلو میں آتے رہے لیکن  ہوا یہ کہ عوام جنہیں جمہوری ادوار کہہ کر (یا سمجھ کر) گلے لگاتے تھے وہ شخصی / وراثتی ادوار ثابت ہوئے۔ زیڈ اے بھٹو کے بعد ان کی آل اولاد اور نوازشریف کے بعد ان کی آل اولاد آج حصولِ اقتدار کی خاطر ہاتھ پاؤں مار رہی ہے اور دمادم جمہوریت کی راگنی الاپ رہی ہے۔
سوچتا ہوں کہ ہم کب تک کولہو کا بیل بن کر ایک ہی دائرے کے محیط میں سرگرداں رہیں گے؟ …… کیا ہم اب صدارتی نظام کا تجربہ کر سکتے ہیں؟…… کیا موجودہ پارلیمانی نظام اس تجربے کی اجازت دے گا؟…… کیا خدانخواستہ ملک کو 1971ء کی طرح کا ایک اور سانحہ درکار ہے کہ جس کے جلو میں نیا آئین، پرانے آئین کی جگہ آیا تھا؟

…… کیا عدلیہ اور انتظامیہ کو الگ کیا جا سکتا ہے؟ کیا صدارتی نظام بھی حتمی فیصلے کے لئے عدلیہ کی طرف دیکھے گا؟……دنیا میں طرح طرح کے صدارتی نظام رائج ہیں؟ کیا ان میں سے کسی ایک کی پیروی کی جا سکتی ہے؟…… کیا عوام صدارتی نظام کو قبول کر لیں گے؟……
اس قسم کے درجنوں سوال ذہن میں ابھرتے اور پھر ڈوب جاتے ہیں۔ پاکستان کی غالب آبادی ژولیدہ خیالی کا شکار ہے۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ہماری پانچویں نسل اس انتشاری کیفیت سے کبھی باہر نکل سکے گی یا نہیں۔
عمران خان اگر سینیٹ کے یہ الیکشن جیت کر بھی آنے والے دو برسوں میں اسی دائرے کے محیط میں چکر لگاتے رہے تو 2023ء کے عام انتخابات پھر اسی جھولی میں جاگریں گے جو  پاکستانی قوم بار بار پھیلاتی ہے لیکن ہر بار اس کو خالی دیکھ کر مایوس ہو جاتی ہے۔ کیا پی ٹی آئی کی قیادت ملک کو اس مایوس کن بحران سے نکال پائے گی؟…… اس سوال کا جواب جتنا اہم ہے اسی قدر مشکل بھی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -