بھارتی جارحیت، جواب قومی یکجہتی
پاکستان کے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے بھارت کی وزارت دفاع کی اس وضاحت سے اتفاق نہیں کیا کہ میزائل عام مرمت اور دیکھ بھال کے دوران تکنیکی وجہ سے چل گیا،جس پر افسوس ہے۔ بھارتی ترجمان نے اس پر اطمینان کا اظہار کیا کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا،اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ تحقیقات کے لئے اعلیٰ سطحی کی عدالتی کمیٹی بنا دی گئی ہے،ہمارے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ اس حوالے سے بیان کی کوئی اہمیت نہیں،بھارت کو جواب دینا ہو گا،انہوں نے عالمی برادری کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ یہ صورت حال جنگ کا باعث بھی بن سکتی تھی اس لئے دنیا کو بھارتی رویے کا نوٹس لینا ہو گا،اس کے علاوہ دفتر خارجہ نے بھارتی ناظم الامور کو طلب کر کے سخت نوعیت کا احتجاج بھی ریکارڈ کرایا۔
دو سال قبل بھارتی ایئر فورس کی طرف سے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی پر شاہینوں نے بھارتی طیارے مار گرائے اور ایک طیارے کے پائلٹ کو گرفتار بھی کر لیا تھا،اس کو بعد میں رہا کر دیا گیا۔یہ ایک مثبت اقدام تھا، کہ پاکستان مسلسل کشیدگی بڑھانے سے گریز کرتا چلا آ رہا ہے، تاہم نہ تو اپنے دفاع سے غافل رہا جا سکتا ہے اور نہ ہی بھارت کے زیر قبضہ کشمیر پر کوئی سمجھوتہ ممکن ہے۔بھارت اقوام متحدہ کے چارٹر اور انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزی کرتا چلا آ رہا ہے اور کشمیر میں 9لاکھ ریگولر فوج کے علاوہ پیرا ملٹری فورسز اور پولیس کے ذریعے کشمیریوں پر مسلسل مظالم ڈھا رہا ہے،72،73 سال گذر جانے کے باوجود بھی کشمیریوں کے جذیہ حریت کو سرد نہیں کیا جا سکا، وزیر خارجہ نے بھی ایسی ہی نشاندہی کی کہ بھارتی حکمران کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لئے ایسی حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں۔
اس امر کا انکشاف ہمارے انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے ڈائریکٹر جنرل، میجر جنرل افتخار بابر نے ایک پریس کانفرنس میں کیا تھا،انہوں نے بڑی تفصیل سے بتایا کہ بھارت سے آنے والی شے کس راستے سے داخل ہوئی اور کس طرف جاتی چلی گئی اور بالآخر گر کر تباہ ہو گئی،جنرل بابر کا واضح طور پر کہنا تھا کہ یہ شے سپر سانک میزائل ہو سکتی،تاہم اس کے ساتھ اسلحہ نہیں تھا،اگلے روز یہ بھی واضح کر دیا گیا کہ یہ میزائل ہی تھا، جو میاں چنوں میں گر کر تباہ ہوا، اور کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں،میں بزرگ قسم کا صحافی کے حوالے سے یہ عرض کروں کہ ہمارے آئی ایس پی آر کے ادارے نے جو اندازہ اختیار کیا اور جس طرح حقائق پر مبنی بیان سامنے آتے ہیں،اس نے اس ادارے کی اہمیت بھی ثابت کر دی اور اس کی طرف سے ہر بیانیہ سچ پر مبنی ہوتا ہے،انداز چاہے محتاط ہو، لیکن کہا گیا حقیقت اور صاف ستھرا سچ ہوتا ہے،کسی امر یا عمل کو چھپایا بھی نہیں جاتا۔ اس سلسلے میں بھی کچھ نہ چھپایا گیا اور صاف صاف بتایا گیا کہ اس ”میزائل“ کی پوری پوری مانیٹرنگ کی گئی اور اسے گرایا نہیں گیا،حالانکہ ہمارے پاس بھی زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل موجود ہیں۔ اسی حوالے سے یہ بھی عرض کر دوں کہ ہمارے انٹر سروسز کے اس ادارے نے جو رویہ اپنایا ہے اسی نے اس کی اہمیت بھی بڑھا دی ہے اگر ایسا واقع پاکستان کی طرف سے بھارت کے خلاف ہوا ہوتا تو بھارت کا میڈیا طوفان سر پر اٹھا لیتا،لیکن ہمارا انداز یہ نہیں،اسی سے ”سچ“ کہنا درست ثابت ہوتا ہے اور آزاد پریس کی بھی اہمیت واضح ہو جاتی ہے، حقائق چھپانے سے افواہیں پھیلتی ہیں، سچ میں کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستانی میڈیا بھی ماشاء اللہ محب وطن اور اپنے ملک سے پیار کر نے والا ہے۔
خیر بات ہو رہی تھی، بھارتی میزائل کی،جس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، وزیر خارجہ اور جنرل بابر ہر دو نے بھارت کی طرف سے نہ صرف ہوائی،بلکہ بحری حدود کی خلاف ورزی کا بھی ذکر کیا اور بتایا کہ پاک بحریہ نے بھارتی آبدوز کو بھی تلاش کر لیا تھا،جو ہماری سمندری حدود میں خاموشی سے داخل ہوئی تھی،اور اسے بھگا دیا گیا،اس سے پہلے بھی ایسا ہو چکا ہوا ہے،اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بھارتی حکمران اپنے اندرونی امور اور کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لئے ایسی حرکتیں کراتے ہیں، جو جنگ کا باعث بھی بن سکتی ہیں،پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی ممالک ہیں اور اب اگر جنگ ہوتی ہے تو یہ شاید صرف عام ہتھیاروں تک محدود نہ رہ سکے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر تباہی کا صرف تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔اس وقت ایک واضح مثال یوکرائن اور روس کی ہے، کہ یہاں جو جنگ جاری ہے،اس کے پس منظر میں بھی ایٹمی لڑائی کا تصور اجاگر ہوا تھا۔روس نے نیٹو کی طرف سے مداخلت کے خدشے کے پیش ِ نظر اپنے ایٹمی سیکٹر کو ہالی الرٹ کر دیا تھا،اسی کا نتیجہ ہے کہ ابھی تک امریکہ اور یورپی ممالک نے مالی امداد اور اسلحہ دینے کے علاوہ روس کے خلاف پابندیاں لگانے پر ہی اکتفا کیا، نہ تو فوجی مداخلت کی اور نہ بھیجی،بلکہ واضح طور پر اجتناب کیا اور اعلان کر کے کہا،چنانچہ دنیا کی تباہی کا جو خدشہ ظاہر کیا جانے لگا تھا وہ تو فی الحال ٹل گیا۔ تاہم لڑائی بند نہیں ہو پا رہی۔یورپی یونین کا تو یہ رویہ ہے کہ یوکرائن کی وہ درخواست مسترد کر دی جو یورپی یونین کا رکن بنانے کے لئے دی گئی تھی۔
میری ذاتی رائے اور تجزیہ یہ کہتا ہے کہ بھارت کی طرف سے اسلحہ سے خالی میزائل آنا، خالی از علت نہیں،بلکہ اسے دھمکی سمجھنا ہو گا،جس کا جواب بڑے درشت اور بے خوف طریقے سے دیا گیا ہے۔بھارت والے شاید یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کے شہر ان کے میزائل کی رینج میں ہیں،تاہم بھارت کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے بھی ایک مہربان نے واضح کیا تھا کہ بھارت کے ایک سو اہم ترین فوجی مراکز پاکستان کے نشانے پر ہیں اور حکم ملتے ہی میزائل ان اہداف پر جا کر بھارتی دفاع کی دھجیاں اڑا سکتے ہیں اور یہ بات ہمارے ایک ماہر دفاع نے واضح بھی کر دی ہوئی ہے اس لیے لازم ہے کہ وزیر خارجہ کی بات پر عالمی دنیا توجہ دے اور اس امر کا اہتمام کیا جائے کہ بھارت سے غاصبانہ قبضے ختم کرائے جائیں اور اس کے خلاف بھی پابندیاں لگائی جائیں،آج کے دور کی جنگ جدید اسلحہ کی لڑائی ہے۔اس میں اگر ایٹم نہ بھی استعمال ہوا تو نقصان بہت ہو گا اور ہمارا فرض ہے کہ ہم بھارت کو خبردار کر دیں ہمیں اب بیانات تک محدود رہنے کی بجائے یہ مسئلہ بین الاقوامی فورم پر لے جانا چاہیے اور غور کرنا چاہیے کہ کیا عالمی عدالت انصاف سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہے۔
اس حوالے سے میں تو یہی عرض کروں گا کہ ہمارے سیاسی رہنما خود غرضی کا شکار ہو گئے ہیں،ان کی طرف سے مذمت بھی موثر طور پر نہیں کی گئی،حالانکہ یہ ایک مسئلہ قومی یکہتی کے لئے بہت بڑا ہے اور ہم سب کو مل کر بھارتی رویے اور عمل پر غور کرنا اور موثر لائحہ عمل بنانا ہو گا کہ بھارتی زعماء اپنے جنون کی تسکین کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں کہ خود ان کے اندرونی معاملات ٹھیک نہیں اور ہندوتوا والے اقلیتوں کو مسلسل نشانہ بناتے چلے جا رہے ہیں اور مسلمان ان کے مظالم کا سب سے زیادہ شکار ہیں یہ واقعہ ہمیں خبردار کرتا اور اشارہ دیتا ہے کہ ہم قومی اتفاق رائے اور قومی یکجہتی کا مظاہرہ کریں اور اپنے اختلافات مل بیٹھ کر حل کر لیں،دشمن سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔